لوگ کہتے ہیں وقت گزر جاتا ہے مگر جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ وقت گزرتا نہیں ہے یہ تو صدیوں سے ٹھہرا ہوا ہے ۔ یہ تو ہم ہیہیں جو پلٹ کے وقت کے اس حصے کو دیکھنے نہیں اتے جس کو ایک بار دیکھ کر گزرے ہوتے ہیں ۔ جیسے آج میرے سامنے بیٹھےمیرے یہ بچے اس بحث میں الجھ گۓ ہیں کہ ماں کسے زیادہ پیار کرتی ہے ۔ تینوں ہی پہلے تو دعویدار ہوۓ کہ ان کو ۔ پھر میریپھینی سی گڑیا دور کی کوڑی لائ کہ اماں اپنی اماں کو زیادہ پیار کرتی ہوں گی ۔ مگر جب بیٹا کسی کا یہ اقوال بڑے بزرگانہ انداز میں دوہرانے لگا کہ عورت کو سب سے زیادہ پیار اس کے بچوں سے ہوتا ہے تو میں نے وقت میں پلٹنامناسب سمجھا ، جواب جانتی تھی پھربھی وقت کے ستون کے چاروں جانب گھوم کے دیکھنا چاہتی تھی کہ کسی لمحے میں کوئ محبت ان گنی نہ رہ جاۓ ۔
مگر گزرےوقت کے ہر لمحے میں عورت کو جسے سب سے زیادہ پیار کرتے دیکھا وہ وہی شخص تھا جس نے اسے ، اس کے ہونے کا مان دیا ۔دل چاہا بتاؤں ان کو کہ آج بھی صحن میں لگے سکھ چین کو دیکھتی ہوں تو اس کے نیچے کھڑے دو وجود نظر اتے ہیں ۔ جن میں سےایک کو اپنی بانہوں میں سمیٹ دوسرے نے کہا تھا میں نال کھڑا آں تیرے ، ایویں ناں تو ڈریا کر ، کسی نے اپنے لہجے سے یقیندلایا تھا کہ زندگی خوشیوں کا چھوٹا سا ڈیرہ ( کھیت میں بنا رہائشی گھر ) بنا دوںگا تو فکر نہ کریا کر ، وہ خاموش سا شخص جو نہ ہوتا تو میں،میں نہ ہو پاتی ، بچوں کو لگتا ہے عورت بس ماں بیٹی بیوی ہوتی ہے ، رشتوں میں بندھی ، نہیں ! اگر کسی کو اس کا رانجھا ملجاۓ نا تو وہ ساری عمر بس ہیر ہوتی ہے اور ہیر ہی رہتی ہے ان کو یقین نہیں آۓ گا مگر آج بھی جب اس شخص کے پاس سے گزرتی ہوں بن پائل چھن چھن میرے پاؤں کے ساتھ چلنے لگتی ہے ، بنا مہندی ہاتھ پر لالی چمکنے لگتی ہے
اس کا سایہ اس بوڑھےچہرے کو بھی نئ جوانی کی چمک دے دیتا ہے ، اور ان کی ماں اس باون سال کی عمر میں بھی وہی بائیس سال کی ایمی بن جاتی ہےجس ان نے کے ابا سے بات کرنے کو جھوٹا سا بہانہ بنایا کیا تھا اور اس رانجھے نے اس پل میں اپنی دھیمی سی مسکراہٹ اورآنکھوں کی چمک سے اسے ایسے ہیر کیا کہ پھر اس کی بیوی ان کی ماں ہونے کے باوجود میں بس ہیر رہی ۔ اپنے رانجھے کی ہیر ، جورانجھے ہار ماننے کی بجاۓ وقت کے کیدو کی سازش سے اپنی ہیر کو چھین کے لے جاتے ہیں نا ان کی ہیر کچھ اور بننے قابل کبرہتی ہیں۔
“