کیا واقعی ہی طالبان مارے گئے؟
وسطی افغانستان کے صوبے قندوز کے علاقے دشت آرچی میں افغان فضائیہ کے متعدد جنگی طیاروں نے میزائل داغے ،افغان حکام نے اس بمباری کے بارے میں کہا کہ افغان فضائیہ کے جنگی طیاروں کی بمباری کی نتیجے میں نو طالبان کمانڈرز سمیت افراد ہلاک ہو ئے ہیں ،،،افغان حکام کے مطابق جہاں بمباری کی گئی وہاں بہت بڑی تعداد میں طالبان جمع تھے ۔۔۔افغان حکام کے مطابق مرنے والے تمام شدت پسند ،انتہا پسند اور جنگجو تھے ،ان میں سے ایک بھی سویلین یا عام شہری نہیں تھا ،،،غیر ملکی خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ان حملوں میں ایک سو پچاس افراد مارے گئے ہیں ۔۔۔۔ایے ایف پی کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر وہاں جلسہ تقسیم اسناد ہورہا تھا ۔۔۔وہ بچے جو قرآن ختم کر لیتے ہیں ،ان کو پگڑی پہنائی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ اسناد تقسیم کی جاتی ہیں ۔۔۔اے ایف پی کے مطابق زیادہ تر مرنے والے افراد مقامی بچے اور ان کے والدین تھے ۔۔۔۔۔نیو یارک ٹائمز کے مطابق یہ عام سویلینز کا اجتماع تھا جسے غلطی سے نشانہ بنایا گیا ۔۔۔عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ ناقابل فہم بات ہے کہ کیوں طالبان وہاں اپنا اجتماع کریں گے جہاں ہر وقت بمباری کا خدشہ ہو ۔۔۔افغان تجزیہ کاروں کے مطابق مارے جانے والے زیادہ افراد طالبلعم ،ان کے والدین اور استاد تھے ۔۔۔افغان تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دو ہزار ایک اور دوہزار دو میں طالبان نے فیصلہ کیا تھا کہ اب وہ کہیں بھی اجتماعی تقریب نہیں کریں گے ۔۔۔افغان ٹی وی کے مطابق قندوز میں ان حملوں کے بعد مقامی لوگ افغان ھکومت اور فضائیہ کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت نے طالبان کو نہیں ،ان کے بچوں کو مارا ہے۔۔۔۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان حملوں کے بعد جہاں جہاں لاشیں جارہی ہئ ،وہاں وہاں افغان حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔۔۔افغان وزارت دفاع نے ان فضائی حملوں کے بارے میں پہلے یہ کہا کہ مارے جانے والے تمام طالبان تھے ۔۔۔پھر افغان وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ فضائی حملوں میں پہلے طالبان مارے گئے،اس کے بعد طالبان کے ایک مسلح گروپ نے تقریب میں اندھا دھند فائرنگ کی جس سے بچے اور عام شہری مر گئے ۔۔۔افغان سفیر نے اس حملے کی شدید مزمت کی ہے۔۔۔قندوز وہ بدقسمت علاقہ ہے جہاں تین سال پہلے تین اکتوبر دو ہزار پندرہ کو امریکی فضائیہ نے غلطی سے ایک اسپتال پر حملہ کیا تھا جس سے 42 مریض ہلاک ہو ئے ۔۔صدر اوباما نے امریکہ فضائیہ کی اس کاروائی پر معافی مانگی تھی ۔۔اور ہر وہ مریض جو مارا گیا ،ان کے لئے معاوضے کا اعلان کیا گیا ۔۔۔مشرف کے دور میں دو ہزار ایک میں باجوڑ ایجنسی کے علاقے ڈانوا ڈولا میں ایک مدرسے پر فضائی حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں بچوں سمیت 82 ہلاکتیں ہوئی تھی ۔۔۔اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر شوکت سلطان نے کہا تھا کہ تمام کے تمام 82 افراد شدت پسند تھے ۔۔۔فوج کو خفیہ اطلاع ملی تھی ،اسی لئے کاروائی کی گئی ۔۔۔۔۔جب کہ مقامی لوگوں کے مطابق دو امریکی ڈرون نے پہلے بم برسائے ،اس کے بعد جنگی فضائی بمباری کی گئی ۔۔۔افغان صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ وہ اس ایشو کو دیکھ رہے ہیں ،کہا یہ جارہا ہے کہ طالبان کا ایک اسپیشل یونٹ ہے جس کا نام ہے ریڈ یونٹ اس میں اسپیشل طالبان شدت پسند کمانڈرز ہیں جو کافی عرصے سے لوگوں کا قتل عام کررہے ہیں ،قندوز میں اس لئے حملہ کیا گیا کہ افغان فضائیہ کو خدشہ تھا کہ یہاں یہی ریڈ یونٹ کا اجتماع ہے ۔۔۔طالبان بھی قندوز سمیت ملک کے تمام حصوں میں خودکش حملے کرکے سینکڑوں افراد کو مار چکے ہیں ۔۔۔اب افغان فضائی بمباری کا یہ طالبان پروپگنڈہ کریں گے ،پھر لوگوں کو ریکروٹ کرکے ہزاروں بے گناہ افراد کو یہ طالبان قتل کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔افغان تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان عوام وہ بدقسمت لوگ ہیں جن کو طالبان بھی قتل کررہے ہیں اور افغان حکومت بھی قتل کررہی ہے ۔۔۔۔اس لئے افغانستان کا عام انسان ان طالبان اور حکومت سے تنگ آگیا ہے ۔۔۔وہ ان سے چھٹکارہ چاہتے ہیں ۔۔۔ہلمند میں ایک ایسی فورس بن گئی ہے جس میں بڑی تعداد میں خواتین بھی شامل ہیں ،یہ لوگ خیموں میں رہتے ہیں اور سب لوگوں کو سمجھا رہے ہیں کہ وہ طالبان ،ھکومت اور امریکہ کے خلاف باہر نکلیں اور کہیں کہ انہیں ان سب سے نجات دلائی جائے ۔۔۔یہ افراد طالبان کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں کہ طالبان عام شہریوں کو ہیومن شیلڈ بناکر ان کا قتل عام کرارہے ہیں ۔۔۔۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قندوز میں جہاں پر بمباری کی گئی ہو وہاں پر کچھ طالبان بھی جمع ہوں ۔۔۔لیکن کیا دو چار طالبان کو مارے کی خاطر درجنوں عام شہریوں کو قتل کرنا بہتر اسٹریٹیجی ہے ؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔