کیا واقعی ہی اُمید پر دنیا قائم ہے ؟
کل میں نے اپنی فیس بُک ڈی پی بدلی جس میں ایک رنگ برنگی ٹی شرٹ کے ساتھ Barnes & Noble کے کیفے میں مجھے ایک کتاب سے ساتھ دکھایا گیا ہے ۔ اس بوڑھی عمر میں بھی ٹی شرٹ دیکھ کر لوگوں نے میرے زوق و شوق کی تو تعریف کی در اصل میں زیادہ خوش اور جوان اس تصویر میں وہ کتاب پڑھ کر تھا ۔
جی ایک ۳۰ سالہ الیزبتھ سمارٹ کی کتاب ، جو پورے امریکہ کی خواتین کے لیے ایک اُمید کی کرن بن کہ اُبھری ہے ۔ وہ جب ۱۴ سال کی تھی تو ۲۰۰۲ میں اسے ایک نام نہاد پادری نے اس کو اپنی دوسری بیوی بنانے کے چکر میں اُس کے گھر سے چاقو کے زور پر اغوا کیا ۔ اس وقت وہ اپنی ایک چھوٹی بہن کے ساتھ ایک ہی بیڈ پر سو رہی تھی ۔ وہ نو مہینے اس تشدد اور زیادتی کا نشانہ بنی رہی آخر کار رہائ پانے میں کامیاب ہو گئ ۔ اُس کے بعد وہ باقی لوگوں کو اس وحشت سے بچانے کے لیے ایک دن بھج چین سے نہیں بیٹھی ۔ اس کی اس سارے سانحہ کی تفصیلات اس کی کتاب my story میں درج ہے جو بہت پاپولر ہوئ پوری دنیا میں ۔ اس نے باقاعدہ اپنے اغوا کرنے والے کے ٹرائل میں پروسیکئوشن کا بھرپور ساتھ دیا گو کہ بہت افسوسناک مراحل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ پادری کے وکیل کا اسٹینڈ یہ تھا کہ الیزبتھ کا اس کی بیوی بننے میں اس کی مرضی شامل تھی ۔ بہت تلخ مراحل سے ٹرائل میں الیزبتھ کو گزرنا پڑا ۔
پورا معاشرہ Victim کو رگڑنے کے چکر میں ہوتا ہے ۔ وہ لکھتی ہے کہ ایک لڑکے سے date ، جو بظاہر اسے بہت پسند تھا ، صرف اس بنیاد پر ختم کر دی کہ اس نے سوال کیا کہ کبھی تو تمہے rape نے مزہ بھی دیا ہو گا ؟ ۔
الیزبتھ سمارٹ کے نزدیک یہ ایک بہت وا حیات ، گندا اور عزت اور شرم سے گرا ہوا سوال تھا ، لہٰزا وہیں اس کو خدا حافظ کہ دیا ۔ گو کہ بعد میں جب الیزبتھ بہت پاپولر ہو جاتی ہے تو وہ لڑکا شیخی کے طور پر دوستوں کو کہتا کے میں نے الیزبتھ سے ڈیٹ ماری تھی ۔ الیزبتھ اس طرح کی زیادتیاں روکنے کے لیے activist بن گئ اپنے Mormon چرچ کے زریعے مشن پر فرانس بھی گئ ۔ اس طرح کے کیسز کی روک تھام کے لیے سینیٹ کو ایک رجسٹری بنانے پر مجبور کیا ، جس میں زیادتی کرنے والوں کے کوائف درج ہوتے ہیں اور ان کو اشتہاری کی طرح ہر جگہ تشہیر کیا جاتا ہے ۔ الیزبتھ نے مائ اسٹوری کے بعد ایک کتاب اسی طرح کی زیادتی پر فاطمہ بھی لکھی ۔
میں جس کتاب کا امید کے حوالے سے زکر کرنا چاہتا ہوں اور میں نے کل مکمل پڑھی اس کا نام /عنوان
Where there’s hope: healing, moving forward and never giving up.
امید کے موضوع پر کیا زبردست کتاب ہے ۔ Barnes & Noble نے اس کتاب کو بھی اپنے روحانیت پر کتابوں کے سیکشن میں رکھا کیونکہ الیزبتھ اس میں اکثر روح اور mindfulness کے حوالے دیتی ہے ۔ اس کتاب میں الیزبتھ نے اپنی طرح کے کیس چنے ہیں اور ثابت یہ کرنے کی کوشش کی ہے اگر ‘امید’ قائم ہے تو انسان ہر طرح کی مشکل سے نکل سکتا ہے ۔ ایک جگہ پورے معاشرے سے سوال کرتی ہے کہ۔
Is the primitive human barely concealed under a civilised facade ?
وہی بات جو میں نے پاکستان میں عورتوں کے ساتھ زیادتی کی اپنے پہلے بلاگ میں کی ۔ لیکن پاکستان میں ان کی کوئ آواز نہیں بنتا ۔ پاکستان کے معاشرے سے انہیں اچھائ کی اُمید نہیں ۔ ان واقعات کو چھپایا جاتا ہے دبایا جاتا ہے یا مختاراں مائ کی طرح بے جا تشہیر کی جاتی ہے ۔ یہ جو ‘مٹی پانے والا’ نظریہ ہے یہ سیاست میں تو چوہدری شجاعت جیسوں کو فائیدہ دیتا ہے ، لیکن ان معاملات میں آنے والی نسلیں بُگھتیتیں ہیں اور بدمعاشوں کو حوصلہ ملتا ہے ۔ امریکہ میں بھی کئ جگہ دبانے کے لیے کہا جاتا ہے جسے الیزبتھ نے بہت خوبصورت الفاظ میں بیان کیا ہے
Every body just wants you to pretend like it didn’t happen , but that doesn’t help victims or future generations in which a change is to be made.
مسئلہ تو ہے آنے والی نسلوں کالہٰزا کچھ غور کریں الیزبتھ کی باتوں پر اور آئے دن مملکت اسلامیہ میں اس طرح کے واقعات پر ۔ ان کو قالین کے نیچے نہ دبا دیں ۔
اور امید کے بھی کچھ parameters ہیں ۔ جب آپ کسی مصیبت اور جدوجہد میں ہوتے ہیں تو اُمید ہی صرف ایک سہارا بنتی ہے ۔
اُمید وہ جو روح اور قدرت سے منسلک ہو ۔ بغیر شجر کے بہار والی اُمید نہیں ، یا پشاور کی طرف رُخ کر کے کراچی پہنچنے والی اُمید نہیں ۔ ہم میں سے ہر کوئ زندگی میں کسی نہ کسی مصیبت یا مشکل میں ضرور ہے ، اس کا واحد حل اچھے کی امید اور اُس کے لیے کوشش ۔
بہت خوش رہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔