ایک صاحب کے بقول 25 مارچ 1971 کو ڈھاکہ میں کوئی آپریشن نہیں ہوا۔جبکہ جنرل کمال اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ فوجی آپریشن 25 مارچ کو ہوا۔پہلا نشانہ ڈھاکہ یونیورسٹی بنی۔یعنی ہم قوم سے جھوٹ بولتے رھے کہ فوجی آپریشن عسکریت پسندوں کے خلاف ہوا۔جبکہ جنرل صاحب نے اس کے برعکس بات کہی۔
ایک اوردانشور صاحب کے بقول ڈھاکہ یونیورسٹی پر ٹینکوں سےچڑھائی نہیں کی گی۔جنرل کمال کےبقول ڈھاکہ یونیورسٹی کے قریب ٹینکوں کوکھڑا کیا گیا۔تاکہ انکی آواز سےڈرکرطلبہ باھر نکل آئیں۔مگرایسانہیں ہوا۔سو اقبال اور رقیہ ہال پرگولی چلانی پڑی۔رقیہ ہال وہی جگہ ہےجہاں طالبات سےزیادتی کی گئ۔
اب ایک بنگالی مصنف کی زبانی سنیں۔جو میرپور شہر میں رھتےتھے۔انکے بقول میر پور میں بنگالی بہت کم تھے۔جو تھے وہ جھگیوں میں رھتے تھے۔25مارچ کو ان جھگی نشینوں کے خلاف مسلح دلیر فوج نے آپریشن کیا۔اور میر پور فتح ہو گیا۔کیا واقع ہی ایسا ہوا۔؟
بنگالی لوگوں کو کس طرح قتل کروایا گیا۔اس کا جال بنگالی مصنف نے بیان کیا گیا۔بندوق کے زور پر ان کے جذبہ حب الوطنی کو ابھار کر مظلوم غریب بنگاليوں کو زبح کروایا گیا۔ان میں ایک بوڑھا مرتے وقت کلمہ پڑھ رہا تھا۔کیا اس پر بھی چپ رھوں۔۔کیا اب بھی سچ نہ بولوں۔۔؟
کبھی کبھی جی چاھتا ہے بنگالی مصنفین کی ترجمہ شدہ ایک ایک سنسرکتاب عوام کےسامنے رکھوں۔بنگالیوں پر کئے گئےجبر سے آگاہ کروں۔عورت پر انسانیت سوز مظلوم کا باب اس لئےچھوڑ دیتا ہوں کہ میری بہنیں کیا سوچیں گی۔سب سےمہذب ظلم پڑھیں۔یہ مہذب ہےکہ شیئر ہوگیا۔باقی تو پڑھ کر انسان کوگھن آتی ہے۔
شیر باز مزاری کی کتاب۔۔جس میں انہوں نےڈھاکہ آپریشن میں ہوئی غلطیوں کا زکر کیا۔انکا کہنا ہےاگرچہ یہ کم تھیں۔مگرافسوسناک تھیں۔انہوں نے اے۔احد کیس کی مثال دی۔ڈھاکہ کےمشہور وکیل اوردانشور تھے۔فوجی آپریشن کے دوران گرفتارہوئے اور پھر انکو کسی نے نہیں دیکھا۔یہ لاپتہ افرادجیسی کہانی ہے۔۔