کمیونزم کے حوالے سے ایک بہت بڑا غلط ابہام پایا جاتا ہے اور اس ابہام کے پائے جانے کی بنیادی وجہ بائیں بازو کے قائدین کو مین سٹریم میڈیا میں جگہ عطا نہ کیا جانا ہے۔ بائیں بازو کے قائدین کو مین سٹریم میڈیا میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے مذہبی دانشوران اور اینٹی شوشلسٹ کا موقف ہی نوجوانوں تک پہنچ رہا ہے جس کی وجہ سے وہ بائیں بازو کی سیاست سے نفرت کرتے ہیں اور یہ من وعن تسلیم کرتے ہیں کہ کمیونزم ناکام ہو گیا۔
یہی نہیں بلکہ کمیونزم کو مذہب مخالف مانتے ہیں۔ انتہا تو یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین تک اعتراف کر چکے ہیں کہ امریکہ نے سرد جنگ میں مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا اور مجاہدین تیار کئے افغانستان میں۔ اس سلسلے میں ہم ان کو معاون رہے۔
کمیونزم اور شوشل ازم میں تفاوُت ہے۔ شوشلزم میں پیداواری ذرائع سوسائٹی کی ملکیت ہوتے ہیں جبکہ کمیونزم میں پیداواری ذرائع کمیونٹی کی ملکیت ہوتے ہیں۔ شوشلزم میں مزدور آمریت ہوتی ہے یہ وہ آمریت ہوتی ہے جو اقلیت (مزدور) اکثریت (سرمایہ دار) پر کرتے ہیں۔ یہ تب تک رہتی ہے جب تک مساوات قائم نہیں ہوجاتی۔ غربت کا خاتمہ نہیں ہوجاتا۔ سرمایہ دار کے دوبارہ حاوی ہونے کے امکانات صفر نہیں ہوجاتے۔ اس کے بعد کمیونزم کا ارتقاء ہوتا ہے۔ کارل مارکس نے شوشل ازم کو لوئر کمیونزم کا نام دیا تھا جبکہ کمیونزم کو اپر کمیونزم کا نام دیا۔ لینن نے شوشلزم اور کمیونزم کے نام سے پرچار کیا۔
یہاں ان دو اصطلاحات کی وضاحت اس لئے کی ہے کہ ہمارے ہاں اعلی پائے کے مذہبی سکالر ڈاکٹر اسرار احمد شاید اس فرق سے واقف نہیں تھے یا وہ تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے کہ سیدھا سیدھا کمیونزم کے ظہور کی بات کرتے تھے۔ ان کا یہ موقف تھا کہ کمیونزم ناکام ہو گیا یہ نظام قائم ہوا اور قیام کے بعد کامیاب نہیں ہو پایا۔ حالانکہ اس تفاوت سے واضح ہے کہ شوشلزم کا ظہور ہوا تھا جس کے ناکام ہونے کی وجوہات ہیں جن کو ہم دیکھیں گے پہلے ڈاکٹر اسرار احمد کی بیان کردہ وجوہات پر نظر ڈالتے ہیں۔ پہلی وجہ ڈاکٹر اسرار کے نزدیک انفرادی ملکیت کی کلیتہً نفی ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ بعد از ظہور اس ضرورت کے پیش نظر اس میں کچھ تبدیلیاں کی گئی کہ روزمرہ کی بنیادی ضروریات جیسے رہنے کے لئے مکان، سفر کے لیے گاڑی اس طرز کی اشیا پر چھوٹ دی جائے گی۔
ڈاکٹر اسرار کی اس دلیل میں صداقت نہیں شاید وہ اس سے واقف نہیں کہ شوشلزم میں انفرادی ملکیت کی اجازت ہوتی ہے اس کی نفی نہیں بلکہ نجی ملکیت کی نفی ہے۔ نجی ملکیت اور انفرادی ملکیت میں تفاوت ہے۔
کسی سے رابطہ قائم رکھنے کے لئے ایک موبائل ہونا ضروری ہے یہ ہے انفرادی ملکیت۔ جبکہ سرمایہ کاری سے موبائل فونز کی دکان کھول لینا یہ ہے نجی ملکیت۔ سفری ضرورت کے پیش نظر ایک گاڑی رکھنا یہ انفرادی ضرورت ہے جبکہ سرمایہ کاری سے گاڑیوں کی دوکان خرید لینا یہ ہے نجی ملکیت۔
شوشلزم میں انفرادی ملکیت کی نفی قطعاً نہیں ہے۔ شوشلزم میں فقط نجی ملکیت کی نفی ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب شاید اس فرق سے واقف نہیں تھے واللہ اعلم بالصواب۔
دوسری دلیل ڈاکٹر صاحب یہ پیش کرتے ہیں اس طرح لوگوں کا کام کرنے کا رجحان کم ہوجاتا ہے کیونکہ انفرادی ملکیت نہ ہونے کے باعث مزدور وغیرہ فطری جبلت کے پیش نظر کام ہی نہیں کرتے۔ کیونکہ دلجمعی سے کام کرنے کا اور نہ کرنے کا ایک جیسا معاوضہ مل رہا ہوتا ہے۔ آئیے اس بات کو سمجھتے ہیں کہ شوشلزم میں کسی کھیت کھلیان سے لے کر فیکٹری، انڈسٹری تک سب میں مزدور یونین، کمیونٹی ہوتی ہے جو سپرویژن کے انڈر کام کرتی ہے اور اس کھیت کھلیان، فیکٹری، مل، انڈسٹری سے نفع دینے کی کاربند ہوتی ہے۔ نہیں تو اس سے پوچھ گچھ ہوتی ہے۔
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب شاید قومی تحویل اور سرکاری تحویل کے کانسپٹ سے واقف نہیں تھے۔
جب کوئی شے قومی تحویل میں لی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہاں پر موجود ورکرز الف سے لے کر ی تک سب کی کمیٹی بن جائے گی اور وہ اس ذریعہ پیداوار سے پیداوار مہیا کرنے کے کاربند رہیں گے۔ دوسری طرف سرکاری تحویل میں لی گئی کسی شے میں ایک تنخواہ دار افسر آکر بیٹھ جائے گا اور کلی مختیار کار ہوگا۔ ڈاکٹر اسرار سرکاری تحویل کے نظریہ کو بیان کرتے تھے کہ جب کوئی بیسویں گریڈ کا افسر اوپر آبیٹھے گا تو اس کو کیا فکر فیکٹری چلے نہ چلے اس کو تو تنخواہ مل جائے گی۔
یہاں اس امر کی وضاحت کرتا چلوں کہ جب کوئی شے سرکاری تحویل میں لی جائے گی تو ایسا ہوگا۔ قومی تحویل میں لی گئی شے کے ساتھ یہ معاملہ درپیش نہیں آتا کیوں کہ اس فیکٹری میں مزدور کمیٹی اور سپرویژن کمیٹی بنا دی جائے گی جو رزلٹ مہیا کرنے کی کار بند ہو گی اگر رزلٹ مہیا نہ کرے گی تو وہ جواب دہ ہوگی۔
ڈاکٹر اسرار احمد اسی سلسلہ میں کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب اداروں کو نیشنلائز کیا گیا تو ریلوے کی حالت بہت بری ہوگئی تھی۔ آگے ایک لطیفہ سناتے ہیں اور بتلاتے ہیں ریل میں پانی ٹائلٹ وغیرہ کی سہولیات ناپید ہو گئی تھیں۔
ڈاکٹر اسرار احمد شاید اس بات سے واقف نہیں ہوں گے کہ ریلوے قومی ادارہ ہے اور یہ پہلے ہی سے سٹیٹ کا ادارہ تھا۔
بھٹو نے جن اداروں کو سرکاری تحویل میں لینا تھا جن کے متعلق سید رضا کاظم نے لسٹ بنا کر دی تھی اس کو پس پشت ڈال کر بھٹو نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو چھوڑ کر ڈومیسٹک انڈسٹریز کو سرکاری تحویل میں لینا شروع کیا۔ بھٹو نے اتفاق فاؤنڈری اور بیکو انڈسٹری کو سرکاری تحویل میں لیا۔ بیکو کے مالک سی ایم لطیف بھٹو کے حریف تھے۔ یہ تو سیدھا سیاسی انتقام تھا۔ اسی کو ڈاکٹر اسرار شوشلزم سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹر اسرار احمد اس کی وجہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ کمیونزم میں آزادی اظہار رائے پر پابندی ہوگی۔ روس میں ایسا بالکل نہیں تھا۔ شوشلزم میں آزادی اظہار رائے پر قدغن نہیں ہوتی۔ کیوبا میں، وینزویلا میں یہ پابندی نظر نہیں آتی۔ وہاں شوشل ازم ہے۔
ایک بات جو ڈاکٹر اسرار معقول وجہ کے طور پر بیان کرتے ہیں کہ جب کمیونزم کے ظہور کے ساتھ کیپٹلزم کو خطرہ لاحق تھا اور اس کی بڑھتی تعداد اور فوائد نے دنیا کے باقی ممالک کو بھی کشش کرنا شروع کر دیا۔ تو امریکہ نے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ دھڑا دھڑ مذہبی کتب کو شائع کیا۔ ہندوؤں کی اُپینشد کی اشاعت کی۔ بہت اچھے ٹائٹل کے ساتھ قرآن کی اشاعت کی گئی۔ اسی طرح باقی مذاہب کی کتب کی اشاعت کی گئی تاکہ لوگوں کو مطلع کیا جائے کہ کمیونزم مذہب کے خلاف ہے اور اس کی روک تھام لازم ہے۔ اس سلسلے میں ان کو کامیابی افغان مجاہدین کی صورت میں ہوئی۔ افغان مجاہدین تیار کرنے میں پاکستان کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ بات درست ہے اسی تاثر کی بناء پر آج بھی پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست امیج بلڈنگ میں ناکام ہے۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر اسرار احمد کے متعلق ڈاکٹر جاوید اقبال نے یہ انکشاف کیا تھا کہ جب انہوں نے ڈاکٹر اقبال کی اُس تصنیف جس کا ترجمہ کرنا ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کا خاصہ رہا۔ ری کنسٹرکشن آف اسلامک تھاٹس جس میں اقبال اجتہاد کی بات کرتے ہیں اور طالبان والے اسلام کی نفی کرتے ہیں تو ڈاکٹر اسرار احمد پیچھے ہٹ گئے اور جواب دیا کہ یہ سب میرے سر کے اوپر سے گزر گیا ہے۔ آپ اس کو جو سمجھیں یہ واضح ہے کہ ڈاکٹر اسرار احمد اقبال کو اتنا ہی پڑھتے اور بیان کرتے تھے کہ جتنا وہ چاہتے تھے کہ اپنی تنظیم کے سلسلے میں بہتر رہے گا۔
اب آتے ہیں ان نکات پر کہ آیا واقعی کمیونزم ناکام ہوا۔ کبھی ان مذہبی پیشواؤں نے یہ کہا کہ اسلام ناکام ہو گیا کیونکہ جس مملکت کو بقول ان کے اسلام کے نام پر آباد کیا گیا وہ محض پچیس سال میں دو ٹکڑے ہوگئی۔ جس ریاست کی بنیاد دو قومی نظریہ پر تھی وہ تین دہائیاں مکمل کرنے سے پہلے دو مزید اقوام میں بٹ گئی۔ اس کو کبھی نہیں کہا کہ دوقومی نظریہ ناکام ہو گیا۔ ہاں کمیونزم جو کبھی اپنی اصل حالت میں آیا ہی نہیں۔ اس کو ناکام کہنے میں کبھی پیچھے نہیں رہے۔
شوشلزم روس میں آیا تھا اور روس نے اس کے ثمرات سے فائدہ بھی اٹھایا۔ شوشلزم ابتدائی شکل تھی اور اس کو ہمیشہ خطرہ لاحق رہتا ہے کیونکہ یہ مزدور آمریت کے زیر اہتمام چلتا ہے۔
روس میں ردِ انقلاب کی قوتوں کے کامیاب ہونے کے پیچھے روس کا جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم کی وجہ سے روس کی ساری توجہ جنگ و جدل کی طرف مبذول ہونا تھی۔ روس افغان وار کی وجہ سے ردِ انقلاب کی قوتوں نے اپنا راستہ بنالیا تھا۔
اس کے متعلق ولادیمیر لینن اور لیون ٹراٹسکی نے اپنی تصانیف میں ذکر کیا ہے۔ جن کو ڈاکٹر لال خان نے متعدد بار بیان کیا ہے یعنی انقلابی رہنما پہلے سے یہ جانتے تھے کہ اس جدوجہد کو برقرار رکھنے کے لئے جو عوامل ضروری ہیں ان پر عملدرآمد نہیں ہوا تو انقلاب روس مات کھا جائے گا۔
سوویت یونین کے پچھتر سال میں روس میں معاشی ترقی ہوئی جس کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
وینزویلا میں یہ نظام آیا وہاں کا صدر اس قابل ہو گیا کہ وہ امریکی صدر کو للکارنے لگا۔ یہ وہ قومی غیرت اور حمیت ہے جو اس اسلام کے قلعہ پاکستان میں یا کسی دوسرے اسلامی ملک میں آج تک نظر نہیں آئی۔ کیوبا میں دیکھ لیں کتنی ترقی ہوئی وہاں کے سب سے زیادہ کامریڈ 2005 عیسوی کے زلزلے میں اس اسلامی قلعہ کی امداد کو پہنچے۔ کبھی ان سکالرز نے ہمیں یہ نہیں بتلایا۔
تحریر :آفتاب سکندر
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...