::: " کیا اردو میں نثری نظم اب بھی متنازعہ ھے" ؟؟ :::
" نثری نظم " کی کئی تعریفات کی گئی۔ اس کی ماہیت، مزاج، متن، معنیات، مفہومیت اور ساخت کو سمجھنے کے لیےیونان ، مصری، ہندوستانی ( قدیم سنسکرت شاعری)، چین، لاطینی امریکہ اور یورپی کے حوالے سے اس پر تحقیق اورمطالعہ بھی ھوتا رہا ۔ اردو میں نژی نظم کو ۔۔۔ " نژیہ، نثر لطیف، نثم، نظمانے، نژرانے، نظمیہ نثر، نظم منشور" کا نام بھی دیا گیا۔ ساٹھ کی دہائی میں اردو میں اس پر مباحث کا آغاز ھوا جو خاصا غیر منطقی، کتابی،اور سنی سنئی باتوں کی مجلسی، چائے خانوں اور کچے زہن کے نوجوانوں کی بے معنی اور مھمل گفتگوسنے کو ملتی تھی ۔ اس میں فکر و نظر کم اور فیشن زدگی کا عنصر زیادہ تھا۔ اس کے پس منظرمیں وہ ادبی بزرگان بھی شامل تھے جنھوں نے نوجوانوں کی اس نسل کو اپنی کمزرو فکری اور کم مطالعے کے سبب غلط راھوں پر ڈالا اور کئی نوجوان اچھے تخلیق کار ان تاریک راھوں میں مارے گئے اور ان کا نام اب داستانوں میں موجود نہیں۔ ۔ 1944 کے آس پاس سعادت حسن منٹو نے بھی نثری نظمیں لکھیں۔۔۔۔۔ اردو میں نژی نظم کی کی شروعات کے بارے میں خلیل الرحمان اعٖظمی نے لکھا ھے۔"نثری نظمیں کہ کرکے یا یہ عنوان دے کرکے یہ چیز پہلے پیش کی جاچکی ھے ۔ 1948 ۔49 وغیرہ میں بمبئی سے ایک رسالہ نکلتا تھا ۔۔ خیال" ۔۔ جو میراجی اور اختر الایمان وغیرہ نکالتے تھے اس میں کچھ نظمین چپھا کرتی تھیں اس پر عنوان ھوتا تھا " نثری نظمیں" اور شاعر کا نام ھوتا تھا۔۔۔ بسنت سہائے ۔۔۔۔۔۔ میرا زاتی قیاس یہ ھے کی یہ نظمیں میراجی لکھ رھے تھے اور انھوں نے اس اس طرح کا ایک ایک تجربہ کرنے کی کوشش کی تھی جس کو آزاد تلازمئہ خیال کہتے ہیں"۔ ( " شب خون " فروری، مارج، اپریل 1978 صفحہ 6 ) 1964 میں سید سجاد ظہیرکا مجموعہ ۔۔" پگھلا نیلم "۔۔ چھپا تو نثری نظموں پر بات چیت شروع ھوئی، مضامین بھی لکھے گئے اس کتاب کے حق میں اور مخالفت میں شدید ردعمل سامنے آیا ۔ اس کی شعری شناخت پر سوالات بھی اٹھائے کئےگئے لیکن اس کی ہیت اور خلقی نثریت کو ادب لطیف سے جدا نہیں کیا گیا۔ "پگھلا نیلم"کی اشاعت کے دس سال بعد ۔ ۔بعنی 1974 میں" اوراق" کے اس خصوصی شمارے میں نثری نظم کی مباحث کا آغاز ھوا۔ جس میں وزیر آغا، وحید قریشی، مرزا ادیب، سہیل احمد، زوالفقا احمد تابش اور سلیم اختر وغیرہ نے حصہ لیا۔ 1976میں ۔۔ادب لطیف" ۔۔ کے چالیسویں شمارے میں بھ اس موضوع پر گرما گرم بحث ھوئی۔ ۔۔۔ " نگار" میں بھی اس پر مضامین " چھپے۔ " نثری نظم" پر ۔۔" تسطیر"(اپریل تا ستمبر 1998) میں ایک طویل بحث ومباحثہ رہا ۔ یہ وھی زمانہ تھا جب جب اردو میں کئی تقافتوں کی ادبی تاریخ کو کھنگالتے ھوئے نثری نظم کا کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئے۔ اور نظری نظم کا دفاع کرتے ھوئےروایتی شاعروں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے ابن دشیق، ابن خلدون، القیروانی، شبلی نعمانی، محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالی،اور عظمت اللہ خان کی سندیں پیش کیں۔ 1973 میں محمد حسن مرحوم نے ماہنامہ ۔۔" کتاب۔۔ میں " نثری نظم کی حمایت" میں ایک مضمون لکھاتھا۔ ماہنامہ " شاعر، ممبئی نے 1983 میں " نثری نظم اور آزاد غزل" پر ایک ضخیم شمارہ ترتیب دیا گیا۔احمد ہمیش نے اپنے متعلق لکھا ھے ۔۔۔"میں (احمد ہمیش) نے ہندی نژی شاعری کے زیر اثر یہلی اردو میں 1960 کے دوران جو نظمیں لکھیں ۔ ان میں سے ایک نظم ۔۔" اور یہ بھی ایک ڈائری" ۔۔ ماہنامہ " نصرت" لاھور (1962) میں شائع ھوئی "۔ (تسطیر، شمارہ 5۔ 6 ) : " بر صغیر کی مختلف زبانوں میں سب سے زیادہ بنگلا زبان پر سنسکرت کے اثرات پڑے۔ خاص طور پر سنسکرت ناٹک نے بنگلا شاعری اور ناٹک کو متاثر کیا۔ کلکتہ میں مہاکالی کے مندر کے آس پاس ناٹک منڈلیاں لمبے عرصہ تک پڑاؤ ڈالے ناٹک کھیلتی رہتی تھیں۔ ان ناٹکوں میں ادا کئے جانے والے مکالموں میں نثری شاعری کا آہنگ پایا جاتا تھا۔ سو جب فرانسیسی شاعر چارلس بودلیئر فرانس سے بنگال آیا تو وہ بنگلا ناری کی رنگت یا آبنوسی سندرتا، بنگلا شاعری اور ناٹک بلکہ بنگلا سنگیت و نرتیہ سے اتنا متاثر ہوا کہ بہت عرصہ تک مہاکالی کے مندر کے آس پاس پڑا رہا۔ میرا جی کی تصنیف ’’ مشرق اور مغرب کے نغمے ‘‘ میں بیان کئے گئے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ مہاکالی کے مندر کے آس پاس قیام کے دوران چارلس بودلیئر کی سماعت میں بنگلہ ناٹک کے سنسکرت زدہ مکالموں کا آہنگ ضرور پڑا۔ بنگلا سنگیت و نرتیہ کے صوتی اثرات اس کے قلب میں ضرور سرایت کر گئے۔ یہاں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ بنگال سے پیرس واپسی کے بعد اپنی زندگی کے آخری ایام میں چارلس بودلیئر نے ’’ بدی کے پھول ‘‘ میں شامل نثری نظمیں لکھیں۔ اس طرح نثری شاعری کے آغاز کا کریڈٹ سنسکرت اور بنگلا زبان کو جاتا ہے نہ کہ اس سے محض سماعت کی حد تک متاثر ہونے والے فرانسیسی شاعر چارلس بودلیئر کو ! یہاں خیال رہے کہ ٹیگور کی ’’ گیتانجلی ‘‘ میں سنسکرت ناٹک کے مکالموں کے زیر اثر نثری شاعری کا آہنگ برتا گیا ہے۔ ٹیگور کی گیتانجلی کے توسط سے ہی انگریزی شاعروں کے ہاں نثری شاعری آئی۔ اب اس بد قسمتی کو کیا کہا جائے کہ علامہ نیاز فتح کی زیر ادارت ایک عرصہ تک ماہنامہ ’’ نگار ‘‘ میں ٹیگور کی شاعری کے جو تراجم نشر لطیف اور انشاء لطیف کی اصطلاح سے شائع ہوتے رہے وہ راست بنگلا سے نہیں بلکہ انگریزی سے اردو میں کئے گئے۔ جب کہ علامہ نیاز فتح پوری بنگلا نہیں جانتے تھے۔ اسی لئے نثر لطیف اور انشاء لطیف ناقص اردو تراجم کے سبب سنسکرت نژاد بنگلا نثری شاعری کے آہنگ کو قبول نہ کرسکے۔ وہ لوگ محض جہل میں متلا ہیں، جو اردو نثری شاعری کے ڈانڈے نثر لطیف اور انشاء لطیف سے ملاتے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ سجاد ظہیر کے شعری مجموعہ پگھلا نیلم ( مطبوعہ 1964ء ) میں شامل کچھ پروزیک (PROSAIC) منظوم کی گئی سطروں کو نثری شاعری سمجھتے ہیں، وہ نثری شاعری کے آہنگ اور اس میں پائی جانے والی اصل شاعری کی تفہیم نہیں رکھتے۔ جب کہ سجاد ظہیر تو غیر شاعر تھے۔ اب آیئے اس صداقت کی طرف کہ میں نے اردو میں نثری شاعری کا آغاز کیا تو میری بنیاد کیا تھی ! میں کن تہذیبی جڑوں (ROOTS) سے آیا ویسے ابھی تک اردو میں نژی نظم کا مقدمہ ادھورہ ھے اور اردو میں نژی نظم کے امکانات سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر شرط ھے یہ وھی لوگ اس میدان میں داخل ھوں جواس کے اہل ھوں۔اور اس صنف کا مزاج جواز، محاکمے اور مکلامات کی گنجائش رھے گی۔ نژی نظم اردو کی ادبی روایت کا حصہ ھے۔" { نثری شاعری کا ماخذ ۔۔ احمد ہمیش، سہ ماہی ’سمت‘، شمارہ ۲۱- جنوری تا مارچ ۲۰۱۴ء}
* فیس بک اور اردو کے ادبی جرائد میں نئی یا عصری نظمین پڑھنے کو ملتی ھے، ان نظموں کا ادبی، شاعرانہ جمالیات اسلوب اور اظہار اپنے طور پر منفرد ھوتا ھے۔ ان میں شاعرانہ احساس و اظہار متنوع ھوتا ھے جس میں ہیت اور مواد کی نوقلمی اور انحراف کا نیا شعری پن بھی نظرآتا ھے اس میں ایک مخصوص تحلیقی عمل کا حصہ ھونے کے ساتھ ساتھ موضوع اور معروض کا وراداتی سانحہ اور کسی طور پر وجدان کا کشف بھی پوشیدہ ھوتا ھے۔ ادبی رسائل اور روزناموں اور فیس بک میں نظر آنےوالی نظمیں جو دیکھنے میں تو نظمیں دکھائی دیتی ہیں مگر وہ نظمیں ہرگز نہیں ھوتی کچھ پر تو " سرقے" کا گمان ھوتا ھے۔ لیکن کچھ نظموں کو پڑھکر احساس ھوتا ھے کہ ان کو عالمی ادبی کلاسیک کا حصہ ھونا چاہیے۔
* عبدالسمیع اپنے تحقیقی مقالے "اردو میں نثری نظم" میں اردو میں نثری نظم کے مسئلے کو ادبی بنیادوں کے ساتھ نفسیاتی سطح پر بھی دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔بیشتر ناقدین اور تخلیق کاروں نے نثری نظم کے تجربے کو انشائے لطیف اور ادب لطیف سے جوڑ کر دیکھا ہے عبدالسمیع اس کی ایک وجہ یہ بھی بتاتے ہیں {اے ٹوزیڈ پرنٹرس دریا گنج ، دہلی۔۔ 2014، }
* عاصی رضوی نے طنزیہ شعری پہرائےائے میں سوال کیا تھا:
نثر ابا نظم اماں دونوں کو انکار ہے
یہ جو نثری نظم ہے یہ کس کی پیدا وار ہے
صرف لفاظی پہ مبنی ہے یہ تجریدی کلام
جس میں عنقا ہیں معانی لفظ پردہ دار ہے
نثر ہے گر نثر تو وہ نظم ہو سکتی نہیں
نظم جو ہو نثر کی مانند وہ بیکار ہے
* ۔۔۔۔ اردو کی نئی نظم میں شاعرانہ پن ھے۔ شاعرانہ پن ردیف قافیہ سے پیدا نہیں ھوتا۔ اس میں شعری حسیت ، جمالیات، جلالیات، کمالیات اور اظہار کی ہنر مندی نظم کی شاعرانہ شناخت ھوتی ھے ۔اردو کی ادبی تہزیب پر ایک عرصے سے غزل کا کا غلبے کی وجہ سے بحر اور اوزان کی بندشوں کے التزام کا رجحان اردو شاعری پر بہت عمیق اور نمایان رہا ھے۔، ۔۔ پابند نظمیں تو بحر و اوزان کی پابند ھوتی ہیں اور اردو کی آزاد نظمیں اپنی تمام تر آزادیوں کے باوجود بحر و اوزان کی پابندیوں سے کبھی آزاد نہ ھو سکیں۔ مگر عصری نظموں کے شعری مزاج میں باطنی آہنگ ھوتا ھے۔
* ۔۔۔۔ نظم اور غزل کی لفظیات، معنیات، بیانیہ بلکہ فضا بھی یکسر مختلف ھوتی ھے ۔ غزل کا نظم کی صنف سے کسی قسم کا کوئی خاص انسلاک نہیں ھوتا۔ غزل کی ہیت ، ساخت، معنی اور اظہار کی محدورکردیتی ھے۔ اور کھل کر جذبوں کا اظہار نہیں کیا جاسکتا۔ جب کی عصری نظم میں "شعور کی رو" کے تحت کسی اسلوبی رکاوٹ کے بغیر شاعر اپنا اظہارکرتا ھے۔ ایک زمانےمیں نئی نظم " مجذوب کی بڑ " اور " چون چون مربہ" کہی جاتی تھی یہ اب معاشرت کارزمیہ، کرب انگیز ذات کا سماجی بیانیہ، نئی شعری حسیت اور عصری شاعری کا خلیقہ بن چکی ھے۔ عصری اردو نظممروجہ ہیتی اور اسلوبی بندشوں سے آزاد ایک شاعرانہ " سلاسل شکن" صنف ادب ھے۔
* کچھ دن پہلے ایم اے راجا یہ سوال کیا تھا"کیا نثری نظم کے لیئے کوئی پابندیِ سخن موجود ہے یا اپنے خیال کو من و عن ( بیبحر ) لفظوں کا جامہ پہنا دینا اور اپنی مرضی کے پیرائے میں بیان کر دینا ہی نثری نظم ہے؟"
* اردو میں اقبال، راشد، میرا جی اور مجید امجد کے بعد اردو میں م۔ لطیفی،سجاد ظہیر، خورشید الاسلام، جیلانی کامران، افتخار جالب، قمر جمیل، محبوب خزان، رئیس فروغ، احمد ہمیش،مبارک احمد، عبد الرشید، زاہدڈار،بلراج کومل ، کشور ناہید، شہریار، ثروت حسین، محمود کنور، انوپا، محمد حسن، زبیر رضوی، اعجاز احمد، ظفر احمد،سلیم الرحمان، ظفر غوری،باقر مہدی، انیس ناگی، کمار پاشی، اعجاز فاروقی، مظفر ایرج، نسرین انجم بھٹی، شائستہ حبیب، ثمینہ راجا، سعید الدین، جنیت پرمار، کامران ندیم، منصور احمد، ساحل احمد، علی ظہیر، زی شان ساحل، عین رشید، احمد فواد،سارا شگفتہ، شوکت عابد، سیما اورکزی، نصیر احمد ناصر،رفیق سندیلوی،سید مبارک شاہ،یاسمین حمید، ارشد معراج،نثار احمد نثار،، فرخ یار، افتخار نسیم، بشری اعجاز،سلیم آغا قزلباش، فاروق ندیم، شبہ طراز، نجمہ منصور،ارشاد شیخ، ثروت زہرا، آشا پربھارت، فاروق بدیم، شہاب اختر، مسرور پیرزادہ، احتشام الحق سید، زاھد حسین، طارق عالم،عین اسلام، پنہان،سدرہ، زیبا الیاس، زیست خان ، فہیم شناس اور کاشف رضا ۔۔۔ کے نام اردو میں نئی اور عصری شاعری کی آبرو ہیں۔ (فہرست مکمل نہیں)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔