کیا ٹرمپ امریکہ کی تباہی کی ابتدا بنے گا؟
پاکستان میں یہ کہنا عام سی بات ہو چکی ہے کہ امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی بربادی کا موجب بن جائیں گے۔ شاید اس خیال، مفروضے یا خواہش کی وجہ یہ گمان ہو کہ ریپبلیکن پارٹی سے بر سر اقتدار آن والے ایک امریکی صدر رونالڈ ریگن سوویت یونین کے انہدام کے سرخیل قرارپائے تھے۔ اگرچہ قرائن کے حوالے سے ایسا نہیں تھا۔ یہ اور بات تھی کہ انہوں نے یہ تاریخی فقرہ کہہ کر کہ " ہم نے کمیونزم کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا ہے " سوویت یونین کے انہدام کا سہرا اپنے سر لے لیا تھا۔ ماسوائے سوشلسٹ ملکوں کے جو ایک دو ہی بچ رہے ہیں ساری دنیا امریکی میڈیا کی کہی بات کو خوشی خوشی یا طوعا" کرہا" گلے لگا لیتی ہے۔
یہ مضمون چونکہ سوویت یونین کے انہدام کے بارے میں نہیں ہے اس لیے اتنا کہنا کافی ہوگا کہ سوویت یونین کے تحلیل ہونے کی وجوہ بیرونی سے زیادہ اندرونی تھیں۔ پھر اگر سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی نہ چاہتی تو گورباچوو تو گورباچوو رہے ان کے بعد آنے والے سوویت رہنما بھی سوویت یونین میں " پیریستروئیکا" یعنی تعمیر نو کی ابتدا نہیں کر سکتے تھے جو اصل میں سوویت یونین کے اسقاط کی وجہ بنی تھی۔
خیر ہم امریکہ کی مفروضہ تباہی اور اس کے ساتھ نومنتخب امریکی صدر جناب ٹرمپ کے مفروضہ تعلق کی جانب رجوع کرتے ہیں۔ اس مفروضے کو با وزن کرنے کی خاطر ایک اور مفروضہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہیلری کلنٹن کی شکست اور ٹرمپ کی کامیابی کے پیچھے پوتن کے تحت آج کے روس کا ہاتھ تھا جہاں سے ہیکروں نے ہیلری کلنٹن کے ای میل ہیک کرکے کسی اور ذریعے سے انہیں طشت از بام کیا جس کے نتیجے میں ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار کی مقبولیت میں کمی آئی۔ کہنے والے یقینا" ایک دوسرے ڈیموکریٹ امیدوار برنی سینڈرز کی مقبولیت سے انکار نہیں کرتے البتہ یہ ہرگز نہیں مانتے کہ برنی سینڈرز جو یہودی النسل ہونے کے ساتھ ساتھ خالصتا" سوشلسٹ نظریات رکھتے ہیں کے حامیوں کی از حد مایوسی بہت سے رائے دہندگان کی ڈیموکریٹ پارٹی سے بددلی کی وجہ بنی تھی جنہوں نے مخالفت میں اپنی رائے یقینا" ٹرمپ کے حق میں نہ دی ہو لیکن انہوں نے غالبا" ہیلیری کے حق میں ووٹ نہیں دیے ہونگے۔ پھر انتخابی مہم میں ٹرمپ کے امریکیوں کے حق اور دنیا میں امریکی فوجیوں کی جانب سے کی جانے والی جنگوں کے خلاف بیانات کے ٹرمپ کی جیت کے حق میں مثبت اثرات سے بھی صرف نظر کیا جاتا ہے۔
بہر طور ٹرمپ صدر چن لیے گئے اور چند روز بعد وہ اقتدار بھی سنبھال لیں گے۔ ہمیشہ کی مانند نعرے یکسر بھلا دیے جائیں گے یا ایک آدھ نعرے کو زندہ رکھتے ہوئے اس پر عمل درآمد کیے جانے کو چند برس کے لیے موخر کیا جاتا رہے گا۔ امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کی خارجہ پالیسیاں سالہا سال پہلے مرتب کی ہوئی ہوتی ہیں جن میں مناسب کتر بیونت امریکی ایوان نمائندگان کی رضا مندی سے کی جاتی ہے۔ ملک کی اندرونی پالیسیاں اور پروگرام پہلے سے متعین کیے گئے خطوط پر دونوں ایوانوں کی مرضی سے مرتب ہوتے ہیں جن کو منظور یا رد کیے جانے کا صدر مملکت کو اختیار ہوتا ہے اسی طرح صدر مملکت کی جانب سے پیش کردہ رفاہی فلاحی تجاویز کو بھی ایوان نمائندگان کی آشیرباد درکار ہوتی ہے۔ چنانچہ یا تو یہ کہا جائے کہ ریپبلیکن پارٹی امریکہ کی تباہی کے حق میں رہے گی یا یہ سوچنے میں کہ محض ٹرمپ امریکہ کو نقصان پہنچانے کا موجب بنیں گے احتیاط برتی جانی چاہیے۔
مان لیا کہ ٹرمپ سیاست سے نابلد ہیں اور کاروبار میں طاق لیکن کیا ان کی پوری کی پوری ٹیم نااہل ہوگی۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر امریکی منتخب نمائندگان کے علاوہ امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور دفاعی ادارہ پنٹاگون نہ صرف بہت مضبوط بلکہ محب وطن سے بڑھ کر کچھ اور ہیں۔ چاہے مختلف معاملات پہ ان دونوں اداروں کے اختلاف ہوں لیکن یہ امریکہ کے پاوں میں ہلکی سی لغزش برداشت نہیں کریں گے اور اپنے کندھوں کا سہارا دے کر امریکہ کی چال کو متوازن بنا لیں گے۔
سوال یہ ہے غوغا کیوں ہے کہ ٹرمپ امریکہ کی تباہی کا باعث بنیں گے اور وہ کون ہیں جو یہ غلط فہمی پھیلا رہے ہیں۔ ان میں سب سے پہلے تو خود ڈیموکریٹ ہیں اور ان سے وابستہ میڈیا، دوسرے امریکہ کی تباہی کے خواہاں لوگ جو دنیا میں کچھ کم نہیں، تیسرے وہ ملٹی نیشنل اور ٹرانس نیشنل کمپنیاں جنہوں نے ڈیموکریٹس سے امیدیں باندھی ہوئی تھیں۔ اس کے برعکس ٹرمپ کی کامیابی پر روس اور اسلامی بنیاد پرستوں کی جانب سے جعلی خوشی منائے جانے نے بھی بہت سوں کو یہ سوچنے کی جانب راغب کیا ہے کہ ٹرمپ ان دونوں کے حق میں بہتر ہونگے۔ کیا ایسا ہوگا؟ روس کے خلاف مسلسل محاذ آرائی یقینا" ایک بڑا اور منفی تاثر دیتی ہے چنانچہ روس کے ساتھ رویہ کسی حد تک مفاہمانہ رکھتے ہوئے تگ و دو کی کیفیت برقرار رکھے جانے کی امید ہے۔ بنیاد پرستوں کے خلاف سرگرمی کو مختصر، محدود، متشدد اور منضبط و موثر ترین بنانے کے لیے روس اور چین کے ساتھ ہم جہتی کی فضا بنائے جانے کی توقع ہے۔
امریکہ خواہشوں کی بنیاد پر تباہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کبھی کوئی ملک ہوا ہے۔ کسی بھی ملک کی تباہی میں اس کے اندرونی عناصر و عوامل کہیں زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ امریکہ نہ تو سوویت یونین ہے جس کے خلاف پوری دنیا تھی اور اس کے اندر کے عوام کی اکثریت بھی ، نہ ایران، عراق یا شام و لیبیا ہے جہاں کسی نہ کسی طرز کی آمریت تھی اس کے علاوہ بیرونی طاقتیں بھی ان آمروں کی مخالف تھیں۔ امریکہ ایک مضبط فیڈریشن ہے جسے آیندہ نصف صدی میں کچھ نہیں ہونے والا۔ یہ ذاتی خواہش نہیں کیونکہ خواہش سے امریکہ مضبوط نہیں رہ سکتا۔
“