ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کی زندگی کا کافی بڑا حصہ ورچوئل بن چکا ہے۔ واٹس ایپ گروپس، فیس بُک پوسٹس، ری ٹویٹس، بلاگز، ویڈیو بلاگز وغیرہ ہمیں اپنی شناخت کا وسیلہ لگتے ہیں۔ شاید اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔
زیادہ تر ہم فیس بُک پر بڑے ادیب، دانش ور اور ’’رائٹر‘‘ ہیں، حالانکہ یہ سوشل میڈیم نہ ہوتا تو ہم بالاصل ایک قاری تھے۔ فیکٹریوں اور بسوں کی طرح سوشل میڈیا کے ہمراہ بھی ایک نئی اخلاقیات نے جنم لیا ہے۔ فلاں نے میری پوسٹ (شعر، کوئی تصویر وغیرہ) کو لائیک کیا، فلاں نے ہارٹ کا ایموجی کمنٹ میں بھیجا، فلاں نے پوسٹ پڑھ کر ان باکس میں پیغام بھیجا، فلاں نے فلاں بدتمیزی کی اور اُسے بلاک کر دیا، فلاں کو ان فالو یا اَن فرینڈ کر دیا۔ حتیٰ کہ فیس بک پر کسی ادبی دشمن/دوست کے ادبی مقام کو گرانے یا بڑھانے کی تحریکیں بھی چلتی رہی ہیں۔
کڑوا اور کسیلاپن، جھنجلاہٹ، ناپسندیدگی، شکایت، خفگی وغیرہ ہماری زندگی کا اُسی طرح جزو ہے جیسے آج سے پہلے کے ادوار میں بھی لوگوں کا ہوا کرتا تھا۔ بس اس کا فوری، ڈسپوزیبل ’’اظہار‘‘ بہت کمینی سطح پر آ گیا ہے۔ اور دوسری طرف تعریف و تحسین کی سطح بھی اُسی قدر مصنوعی اور بے اعتنائی والی ہو گئی ہے۔ جن کی کبھی کوئی محفل میں بات نہیں سنتا تھا، جو بے چہرہ اور بے اثر تھے، فیس بک نے اُنھیں ایک چہرہ اور اثر عطا کر دیا ہے۔ یہ ’’لوگ‘‘ ہم اور آپ ہی ہیں۔
کل پوسٹ میں پانچویں کلاس کی جس میڈم کے ساتھ ملاقات کا ارادہ ظاہر کیا تھا، چند گھنٹے پہلے ان سے ملاقات ہو گئی۔ یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے کہ میرے لیے اُن کی حیثیت دیوتائی ہے، میں اپنا مشاہدہ مختصر سے مختصر الفاظ میں بیان کرتا چلوں۔
مل کر معلوم ہوا کہ چالیس سال تک جس شخصیت کے نقوش ذہن میں موجود رہے اُس کی وجہ کیا تھی؟ اور وہ یہ نقوش ثبت کرنے کے قابل کیونکر ہوئی؟ مثبت سوچ، ججمنٹل نہ ہونا، ہم دردی جیسی بازاری اصطلاحات آج عام ہیں جن سے میں ہمیشہ گریز کیا کرتا ہوں۔
میڈم نے زندگی میں چار پانچ سال تک صرف ہمیں ہی پڑھایا۔ نہ اُس سے پہلے نہ بعد۔ شادی ہوئی اور نوکری چھوڑنا پڑی، لاہور چھوڑا اور سیالکوٹ کے قریب ایک قصبے میں زندگی گزاری۔ کوئی پندرہ سال پہلے شوہر کی وفات کے بعد دوبارہ لاہور میں رہائش اختیار کر لی۔ دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کی شادی کی۔ ان کی زندگی میں بہت سے مرحلے آئے ہوں گے، مایوسیاں، ناکامیاں، خفگیاں، جھنجلاہٹیں، کراہتیں اور دشمنیاں وغیرہ سبھی کچھ محسوس ہوئی ہوں گی۔ لیکن چالیس سال بعد اُنھیں مل کر لگا کہ چالیس سال پہلے اُنھوں نے ان سب چیزوں سے گریز کرنے کی بجائے اِنھیں بطور زندگی جھیلنے کا قصد کر لیا تھا۔ اِسی لیے وہ ہمارے ذہن میں نقش ہو گئیں۔ کسی طالب علم کی والدہ فوت ہوئیں اور وہ لنچ نہیں کھاتا تھا تو اُسے اپنے لنچ میں سے سیب اور سینڈوچ دیا، کسی کا باپ فوت ہوا تو اُسے گلے سے لگایا، کسی نے بدتمیزی کی تو اُسے مزید چاہا۔ ماں جیسا کوئی نہیں ہوتا تو اچھی ٹیچر جیسا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ ماں فطرت کے ہاتھوں بھی مجبور ہوتی ہے، ٹیچر کی اچھائی اختیاری ہوتی ہے۔
نہیں، ہم اُن کی طرح یہ سب نہیں کر سکتے۔ ہمیں یہ سب اپنی اپنی طرح سے اور اپنی اپنی اوقات کے مطابق کرنا ہو گا۔ سب سے زیادہ ضروری چیز سوشل میڈیا پر ورچوئل وجود کی کمینگی کو ختم کرنا ہے۔ بلاک اور ان فالو اور خواہ مخواہ بنائے ہوئے ’’فرینڈز‘‘ کی فہرست پر نظر ڈالنے اور سوچنے کی ضرورت ہے کہ میری میڈم جیسی لوگوں جیسا بننا ہمارے لیے کتنا مشکل ہو گیا ہے۔
اُن جیسی بس دو اور ہستیاں ہی ملیں: پروین ملک اور میری ساس۔