کچھ مفکرین کا خیال ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں تاریخ کا کوئی فائدہ نہیں رہا۔ کیوں کہ زمانہ اس قدر ترقی کرچکا ہے کہ ماضی کے پاس اس کو سکھانے کے لئے کچھ نہیں رہا۔ قدیم دانش مندی جس کو ایک زمانے میں بہت اہمیت دی جاتی تھی، جیسے کنفیوشس، فیثا غورث یا گوتم بدھ۔ جدید زمانہ ان کی دانشمندی سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا ہے اس لئے ان مفکرین کی دلیل ہے کہ اب ہمیں ماضی کی بجائے مستقبل کی ترقی کی کوشش کرنی چاہیئے۔ تاریخ کے بارے میں ایک اور مفکر کارل پاپر (Karl Popper) نے اپنی کتاب “آزاد خیال معاشرہ اور اس کے دشمن” (The Open Society and Its Enemies) میں تاریخ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ایک بے معانی مضمون ہے جس کے نہ تو کوئی قوانین ہیں کہ جن کی بنیاد پر تاریخ کے عمل کو سمجھا جائے۔ کچھ مورّخوں میں یہ سوال بھی اہمیت کا ہے کہ اگر تاریخ کا مضمون مفید ہوتا تو اس سے ہم سیکھ سکتے تھے۔ لہٰذا ایک برطانوی مورّخ B. H. Liddell Hart نے اپنی ایک کتاب میں سوال کیا ہے کہ “ہم تاریخ سے کیوں نہیں سیکھتے؟”
اس بحث سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ تاریخ کا مضمون محض ماضی کی معلومات کو اکٹھا کرنا ہے اور یا اس کے واقعات سے وقت گزاری کے لئے لطف اٹھانا ہے۔ اس نقطہ نظر نے تاریخ کی اہمیت کو گھٹا کر اسے بے معنی کردیا ہے۔
یہاں ہم ان اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کریں گے کہ درحقیقت سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود تاریخ کے علم کی اہمیت گھٹنے کی بجانے بڑھتی جارہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک وقت میں تاریخ کا علم سیاست تک محدود تھا پھر اس میں معیشت کا اضافہ ہوا اور اس کا دائرہ کار بڑھتے بڑھتے سماجی اور ثقافتی شعبوں تک آگیا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی بھی تاریخ کی حدود میں آجاتی ہیں۔ کیوں کہ ان کو بغیر تاریخ کی مدد کے نہیں سمجھا جاسکتا۔
تاریخ کے علم کا سب سے اہم موضوع انسان اور تہذیب کا ارتقاء ہے۔ کیوں کہ اس دنیا میں زندگی کے ہر شعبے میں ارتقائی عمل جاری ہے جس سے تبدیلیوں کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔ کوئی علم یا کوئی شے بھی اپنی جگہ مکمل نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے اگر سائنس میں علم ِ حیاتیات (Biology) ، کیمسٹری یا فزکس کا مطالعہ کریں تو ہم ان کو ان کے ارتقائی تبدیلیوں کے نتیجے سے سمجھ سکیں گے اور اس کے لئے ہمیں ان کی تاریخ کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ ڈاکٹر بھی کسی بیماری کو اس وقت تک نہیں سمجھ پاتا ہے جب تک اس کی تاریخ معلوم نہ ہو۔ یہی صورت حال ٹیکنالوجی کی ہے۔ جس کی مرحلہ اور ترقی کو بیان کیا جائے تو اس صورت میں موجودہ ٹیکنالوجی کو سمجھا جاسکتا ہے۔
لہٰذا سائنس ہو یا ٹیکنالوجی یا انسانی معاشرہ۔ ان کی تاریخ بے معنی نہیں ہے۔ تاریخ اس پر روشنی ڈالتی ہے کہ لوگوں کی فطرت کن حالات میں بدلتی ہے اور کن حالات میں وہ نیکی اور بدی کا باعث ہوتی ہے۔ جنگ، قحط سالی اور خشک سالی جہاں انسان کی زندگی کا سوال ہوتا ہے وہاں اخلاقیات کی پابندی نہیں ہوتی۔ چین میں قحط سالی کے دوران ایسے واقعات بھی ہوئے کہ ماں باپ نے اپنے بچوں کو مارکر ان کا گوشت کھایا۔ کچھ صورتوں میں چوں کہ اپنے ہی بچوں کو مارنا مشکل تھا تو اپنے بچوں کا تبادلہ ہمسائے کے بچے سے کرلیا۔
ہندوستان میں قحط سالی کے دوران غذا کی خاطر اپنی لڑکیوں کو فروخت کرنا عام تھا۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسانی فطرت اپنے ماحول کے تابع ہوتی ہے۔ اگر معاشرے میں خوشحالی ہوتو اس کے ردِ عمل میں انسانی فطرت بھی نیکی کا عمل کرے گی۔
تاریخ میں انسان ٹیکنالوجی سے ڈر اور خوف کھاتا رہا ہے کہ اس کا یہ خیال ہوتا تھا کہ ٹیکنالوجی اس کی شناخت اور وجود کو ختم کردے گی۔ اس سے انگلستان میں جب صنعتی انقلاب آیا اور فیکٹریوں میں مزدوروں کی جگہ مشینوں نے لینی شروع کی تو اس ٹیکنالوجی کے خلاف ایک تحریک چلی جو Luddite کہلائی۔ اس میں مزدوروں نے مشینوں کو توڑنا شروع کیا تاکہ وہ ان کی جگہ نہ لے سکے۔ لیکن اس قسم کی تحریکوں نے ٹیکنالوجی کو نہیں روکا اور اس میں مسلسل تبدیلیاں آتی چلی گئیں۔ اس وقت ٹیکنالوجی جس مرحلے میں ہے۔ اس میں انسان کی اہمیت برابر گھٹ رہی ہے اور اس پر ٹیکنالوجی مسلط ہورہی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس تسلط کے دور میں تاریخ ہمیں کیا سبق دیتی ہے۔ تاریخ کا ایک اہم سبق یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو تو نہیں روکا جاسکتا مگر اس کے ساتھ سوسائٹی کی ساکھ کو بھی بدلنا ہوگا۔ تاکہ سائنس اور ٹیکنالوجی پر سرمایہ داری کا قبضہ ہوکر وہ صرف ان کے فائدے کے لئے رہے اور اس کے نتیجے میں عوام بے روزگاری اور بھوک کا شکار رہے۔ اس لئے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور سوسائٹی کی معاشی اور سماجی تبدیلی دونوں کو برابر ہونا چاہیئے۔
اس عمل کو ہم انگلستان کے صنعتی انقلاب میں دیکھتے ہیں جب فیکٹریوں میں مزدوروں کا استحصال ہوا اور ان کی صحت، رہائش، اور غذائی مسائل پیدا ہوئے تو انگلستان کی پارلیمنٹ سے مزدوروں کی اصلاح کے لئے قوانین پاس کئے۔ جن میں صحت، تعلیم ، رہائشی علاقوں کی صفائی، پینے کا صاف پانی اور ان کے کام کے اوقات گھٹائے تاکہ وہ فرصت کے اوقات میں سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیں۔ مزدوروں کو ٹریڈ یونین بنانے کا حق دیا گیا جس نے متحد ہو کر اپنے حقوق کی جدوجہد کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انگلستان میں کوئی خونی انقلاب نہیں آسکا۔
انگلستان کے بعد جرمنی نے صنعت و حرفت کے لئے سائنس اور ٹیکنالوجی کا سہارا لیا۔ انگلستان کے اس صنعتی انقلاب میں ابتدائی دور کی تمام ایجادات مستریوں کی تھیں جو فیکٹریوں میں کام کرتے تھے اور ان کی باضابطہ تعلیم بھی نہ تھی۔ جرمنی میں پہلی مرتبہ انہوں نے یونیورسٹیوں میں سائنس کی لیبارٹری قائم کی جنہوں نے پیشہ وارانہ سائنس داں اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کو پیدا کیا۔ ان یونیورسٹیوں کی تحقیقات کو جرمن انڈسٹری سے ملایا گیا تاکہ وہ اس کی ضرورت کے مطابق ایجادات کرے۔ جرمنی کے اس طریقہ کار نے اسے انگلستان کے مقابلے میں ترجیح دی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی جرمنی نے سب سے پہلے بالغ رائے دہی کا حق دیا۔ سیاسی پارٹیوں کو آزادی دی اور مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کیا۔ لہٰذا اگر سائنس اور ٹیکنالوجی کو ترقی کے ساتھ ساتھ سماج بھی تبدیل کیا جائے تو اس صورت میں سوسائٹی پسماندگی سے نکلتی ہے۔ تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے۔ اس لئے اس کی آج بھی اتنی ہی اہمیت ہے۔
مشمولہ:
کتاب: تاریخ کے نشیب و فراز
مصنف : ڈاکٹر مبارک علی
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...