کیا سستی اور کاہلی کسی کو کامیاب بنا سکتی ہے؟
سستی اور کاہلی کو عموماً برا سمجھا جاتا ہے۔ ایک عام تصور ہے کہ جو شخص سست اور کاہل ہے وہ کچھ نہیں کرسکتا۔
اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ دنیا کے کئی کامیاب اور مشہور افراد اپنی زندگیوں میں خاصے سست تھے۔
نظریہ ارتقا کا بانی چارلس ڈارون ایک سست انسان تھا اور اس کے ٹیچرز کو اسے اسکول کا کام کروانے میں نہایت مشکل پیش آتی تھی۔
ڈارون نے اپنی سائنسی نظریات پیش کرنے میں بھی اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ گزار دیا۔
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل بھی اپنے بچپن اور نوجوانی کے دور میں نہایت سست تھے۔
وہ کسی کھیل میں حصہ نہیں لیتے تھے اور ان کا پسندیدہ مشغلہ جھولنے والی کرسی پر بیٹھ کر سوچتے ہوئے وقت گزارنا تھا۔
اسی طرح مشہور سائنسدان آئن اسٹائن، نیوٹن، مشہور مصور پکاسو، مشہور فلاسفر کارل مارکس اور کتنے ہی ایسے مشہور افراد ہیں جو سست الوجود تھے لیکن آج ان کی ایجادات اور تخلیقات کے بغیر ہماری زندگی ادھوری ہے۔
تو کیا سست اور کاہل افراد کامیاب ہوتے ہیں؟ آئیے ان مشہور سست افراد کی عادات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
وہ اختراعی تھے
سست افراد اپنے کاموں کو سر انجام دینے کے لیے ایسا طریقہ ایجاد کرتے ہیں کہ کام بھی ہوجائے اور انہیں زیادہ محنت بھی نہ کرنی پڑے۔
وہ اپنی سستی کے باعث غیر مقصد کاموں سے گریز کرتے ہیں اور صرف وہی کرتے ہیں جو وہ کرنا چاہتے ہیں یا جو ان کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔ یہی یکسوئی انہیں ان کے مقاصد میں کامیاب کر دیتی ہے۔
ہوسکتا ہے آج ہمارے گھر میں موجود ویکیوم کلینر شاید کسی کاہل شخص کی ہی ایجاد ہو جسے اپنے گھر کی صفائی کرنے میں کاہلی آتی ہو۔ اس کی کاہلی ہمارے لیے ایک کارآمد شے بن گئی۔
تخلیقی سوچ کے حامل
سست افراد چونکہ کاموں اور ذمہ داریوں سے پرہیز کرتے ہیں لہٰذا ان کا دماغ خالی ہوتا ہے اور ان کے دماغ میں نت نئے آئیڈیاز اور پروجیکٹ پرورش پارہے ہوتے ہیں جس پر وہ وقتاً فوقتاً عمل کرتے ہیں۔
زیادہ آرام کرتے ہیں
سست افراد خود کو ریلیکس رکھتے ہیں اور زیادہ آرام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ اپنے بڑے بڑے منصوبوں پر عمل کرتے ہیں تو وہ تھکن یا بیزاری کا شکار نہیں ہوتے۔
چالاک ہوتے ہیں
سست افراد جب کسی ادارے میں کام کرتے ہیں تو وہ اپنے کاموں کو سرانجام دینے کے لیے چالاکی سے کام لیتے ہیں۔
یہ عموماً شارٹ کٹ سے اپنے کام انجام دیتے ہیں جس کے باعث ان کا کام بھی ہوجاتا ہے اور انہیں زیادہ محنت بھی نہیں کرنی پڑتی۔
ٹیکنالوجی کا استعمال
کاہل افراد ایسی تمام ٹیکنالوجیز کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں جو ان کا کام آسان بنائے۔
مثال کے طور پر اگر انہیں کسی کو کوئی دستاویز بھیجنی ہے تو عام افراد کی نسبت اسے تیار کرنے، کسی سے چیک کروانے، اور پھر بھجوانے کے بجائے وہ ایک ایڈٹ ہونے والی فائل تیار کرتے ہیں اور براہ راست اسی شخص کو روانہ کردیتے ہیں۔
تو گویا ثابت ہوا کہ سستی اور کاہلی کوئی خوبی نہیں لیکن اس کاہلی کو کارآمد شے میں بدلنا اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا خوبی ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“