کیا سری لنکا صرف کرکٹ کے میدان میں جیتا ہے؟
خزاں کا قافلہ آن پہنچا ہے۔
موسموں کے بدلنے میں قدرت کے اسرار ہیں۔ منیر نیازی نے ایک آیت کا کیا خوبصورت ترجمہ کیا ہے ؎
رات دن کے آنے جانے میں یہ سونا جاگنا
فکر والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت
یہی نشان کیا کم ہے کہ جب نصف کرۂ شمالی میں بہار اترتی ہے تو نصف کرۂ جنوبی میں خزاں کی سواری پہنچ جاتی ہے۔ ناصر کاظمی نے کہا تھا ؎
ڈیرے ڈالے ہیں خزاں نے چوندیس
گل تو گل باغ میں کانٹا نہ رہا
مارچ آتا ہے تو جنوبی بحرالکاہل کے ساحلوں پر پت جھڑ آباد ہو جاتی ہے۔ چلی میں‘ نیوزی لینڈ میں‘ آسٹریلیا میں‘ جنوبی افریقہ اور ان سارے ملکوں میں جو خطِ استوا کے جنوب میں ہیں۔
کتنی عجیب بات ہے اور کتنی دلچسپ کہ لٹریچر کے حوالے جغرافیہ کے ہاتھوں بدل جاتے ہیں۔ انگریزی شاعری جو آئرلینڈ‘ سکاٹ لینڈ اور انگلینڈ میں لکھی گئی‘ اُس بہار کے تذکروں سے بھری ہے جو مارچ میں شروع ہوتی ہے۔ آسٹریلیا‘ برطانیہ کی توسیع ہے۔ علاقائی ہونے کے ساتھ ساتھ ثقافتی بھی۔ ’’ہوم کنٹری‘‘ کا ادبِ عالیہ آسٹریلیا کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا اُن دوسرے ملکوں کے لیے جو اب بھی‘ رسماً ہی سہی‘ ملکہ کے سایۂ عاطفت میں ہیں۔ جغرافیے کی ستم ظریفی کہ مارچ اپریل کی بہار کے تذکرے پڑھتے ہوئے ادب کے شائقین اپنے ارد گرد خزاں دیکھتے ہیں! ہر طرف بکھرے ہوئے پارکوں‘ سیرگاہوں میں مخملیں سبزہ زرد ہونے لگتا ہے۔ پتے ٹوٹ ٹوٹ کر ہوا میں اڑتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی یاد آتے ہیں ؎
خشک پتے مری عمروں کے رفیق
خشک پتے مری تنہائی کے پھول
پھر کہتے ہیں ؎
خزاں دلوں میں جڑیں چھوڑنے کی دُھن میں ہے
کہاں گیا مرا پروردگارِ موسمِ گُل
کیسا المیہ ہے کہ احمد ندیم قاسمی کی شاعری قدرے پس منظر میں چلی گئی اور ان کی افسانہ نگاری اور فنون کی طویل تاریخی ایڈیٹری سامنے آ گئی۔ کتنے بڑے شاعر تھے قاسمی صاحب! ابھی انہیں دریافت ہونا ہے۔ وہ یقینا فیض صاحب سے بڑے شاعر تھے۔ فیض صاحب کی شاعرانہ عظمت میں کیا کلام ہے۔ خود کہتے ہیں ؎
کوئی یار جاں سے گزرا کوئی ہوش سے نہ گزرا
یہ ندیم یک دو ساغر مرے حال تک نہ پہنچے
ان کی شہرت میں بڑا حصہ سیاسی حوالے کا ہے۔ پھر ان کا خاندان اور ان کے پسماندگان میڈیا پر‘ خاص کر الیکٹرانک میڈیا پر چھائے رہے۔ پست طبقات کے بارے میں شاعری کرنے والے بورژوا فیض صاحب شاعری سے زیادہ دوسرے عوامل کی بنیاد پر بلند سے بلند تر ہوئے۔ یہ سب کچھ احمد ندیم قاسمی کے پاس نہ تھا‘ نہ انہیں کوئی ٹیناثانی یا ٹینا ثالث ملی۔ نہ اقبال بانو‘ نہ ہی نور جہاں‘ نہ ہی مہدی حسن کہ لوگ فیض صاحب سے فرمائش کرتے تھے ’’فیض صاحب! وہ غزل سنایئے مہدی حسن والی!‘‘ قاسمی صاحب نے جن طبقات کے لیے شاعری کی‘ زندگی انہی کے ساتھ‘ انہی کی طرح گزاری۔ درانتی چلانے والوں کے ساتھ‘ درانتی چلانے والوں کی طرح ؎
چمک رہے ہیں درانتی کے تیز دندانے
خمیدہ ہَل کی یہ الہڑ جوان نورِ نظر
سنہری فصل میں جس وقت غوطہ زن ہو گی
تو ایک گیت چھڑے گا مسلسل اور دراز
ندیمؔ ازل سے ہے تخلیق کا یہی انداز
ستارے بوئے گئے آفتاب کاٹے گئے
ہم آفتاب ضمیرِ جہاں میں بوئیں گے
تو ایک روز عظیم انقلاب کاٹیں گے
ہم انقلاب ضمیرِ جہاں میں بوئیں گے
زمیں پہ خلدِ بریں کا جواب کاٹیں گے
ظفر اقبال کی گلافتاب‘ ناصر کاظمی کی برگِ نے‘ مجید امجد کی شبِ رفتہ کے ساتھ‘ احمد ندیم قاسمی کی دشتِ وفا بھی اس لکھنے والے کو حفظ تھی۔ یاد تو عدم اور جوش کی شاعری بھی بہت سی تھی لیکن وہ وقت کا ساتھ دے سکی نہ عمر کا۔ قاسمی صاحب کی شاعری پر تفصیلی بات پھر کبھی۔
خزاں زدہ شہر میں اپنے وطن کا دارالحکومت یاد آتا ہے۔ مدتوں پہلے ڈھاکہ میں بیٹھ کر کہا تھا ؎
یاد آتی ہے سلگتی ہوئی راتیں اظہارؔ
اب کے پنڈی کی ہوائوں میں ٹھٹھر بھی نہ سکے
دارالحکومت میں سرما ہے۔ سرما وہاں ہمیشہ خوبصورت ہوتا ہے اور اس کے ساتھ جُڑا ہوا بہار کا موسم بھی ؎
اتاری ہم نے سرما کی سنہری دھوپ دل میں
مگر اس سیرگہ میں کوئی آیا ہی نہیں ہے
جہاں زندگیاں پتوں کی طرح شاخوں سے ٹوٹ کر جھڑ رہی ہیں۔ جہاں ہول اور دہشت نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ جہاں کمیٹی کمیٹی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ شاید اس لیے کہ وہ طبقہ جو سکیورٹی کے سات پردوں میں رہتا ہے اور فصیل اندر فصیل حصار اندر حصار حفاظتی سپاہ جس کے ملازمین تک کو گھیرے میں لیے رہتی ہے‘ وہ طبقہ اُن لوگوں کی کیا حفاظت اور کیا دلجوئی کرے گا جن کی ڈھالیں اُن کے سر اور سینے ہیں۔ حافظؔ شیرازی نے کہا تھا کہ وہ جو ساحل پر کھڑے ہیں‘ انہیں کیا خبر کہ اندھیری رات میں اُن بیچاروں پر کیا گزر رہی ہے جو بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں۔
دارالحکومت پر اضافی اداسی بھی چھائی ہوئی ہوگی کہ ایشیا کپ سری لنکا اٹھا کر لے گیا۔ اب سیدھے سادے بھولے بھالے پاکستانیوں کو یہ کون بتائے کہ اصل کپ تو سری لنکا نے اس وقت جیتا تھا جب دہشت گردی کو ختم کیا تھا‘ اور بزورِ شمشیر ختم کیا تھا۔ پرابھا کرن جو دہشت گردوں کا سپریم کمانڈر تھا‘ سری لنکا کی فوج کے ہاتھوں مارا گیا۔ سری لنکا خوش بخت تھا کہ ساری قوم دہشت گردوں کے خلاف متحد تھی۔ دہشت گردوں کو کوئی بھی ’’اپنے بچے‘‘ کہہ کر بچانے کی کوشش نہیں کرتا تھا۔ ریاست کو یہ نصیحت بھی کوئی نہیں کرتا تھا کہ مذاکرات سو بار بھی ناکام ہوں تو پھر بھی مذاکرات ہی کیے جائیں۔ اور یہ تو کوئی محبِ وطن وہاں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دہشت گردوں کو ایک علاقہ دے دیا جائے یا فلاں علاقے سے فوج واپس بلا لی جائے یا سینکڑوں انسانوں کو مارنے والے قاتلوں کو رہا کردیا جائے۔ سری لنکا کو اس لیے بھی شاباش ہے کہ اس کی فوج دنیا کے بہترین عساکر میں شمار ہوتی تھی‘ نہ ہی سری لنکا ایٹمی طاقت تھا۔