(Last Updated On: )
ہر تہذیب کے ابتدائی دور میں جب کہ تحریر وجود میں نہیں آئی تھی، اس وقت شاعری کے ذریعہ اظہارِ خیال کیا جاتا تھا، چونکہ اس میں آہنگ ہوتا ہے، اس لئے اشعار کو یاد کرنا آسان ہوتا ہے۔ لٰہذا شاعری ان معاشروں میں زیادہ مقبول ہوتی ہے کہ جن کا کلچر زبانی روایات پر ہوتا ہے لیکن جب معاشرہ ترقی کرتا ہے، اس میں نئے خیالات اور افکار پیدا ہوتےہیں تو پھر ان کے اظہار کے لئے شاعری کے بجائے نثر کو اختیار کیا جاتا ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ جب معاشرہ شاعری سے نثر کی جانب جاتا ہے، تو وہ اس کی ترقی کو ظاہر کرتا ہے۔ یونان کی تہذیب کے ابتدائی دور میں ہومر کی شاعری اس کا امتیاز تھا ، مگر بعد میں ایونین فلسفی جنہوں نے دنیا کی تخلیق کے بارے میں نظریات دیئے، اور پھر سقراط، افلاطون، ارسطو اور دوسرے فلسفی آئے، جنہوں نے سماجی مسائل اور معاشرے کے بارے میں نئے نئے نظریات اور افکار دیئے۔ افلاطون نے اپنی کتاب “جمہوریت” میں شاعروں کے لئے کوئی جگہ نہیں رکھی، کیونکہ اس کے نزدیک شاعری کی بنیاد جذبات اور غیر عقلی خیالات پر ہوتی ہے۔
یورپ کی ترقی میں بھی ہم سائنسدانوں، فلسفیوں، مفکروں اور سماجی علوم کے ماہرین کا حصہ پاتے ہیں، جو معاشرے کی ذہنی حالت کو اپنے خیالات کے ذریعہ بدل رہے تھے۔
لیکن یورپ میں سماجی تبدیلی اس وقت آئی کہ جب وہاں صنعتی انقلاب آیا اور ٹیکنالوجی نے معاشرے میں معاشی، سماجی اور سیاسی تبدیلی کی اس انقلاب کی کامیابی میں فلسفیوں، مفکروں اور معیشت دانوں کا حصہ تھا جو تبدیل ہوتے معاشرے کو نئے افکار کے ذریعے اس کی راہنمائی کر رہے تھے۔ اس لئے آدم سمتھ ، ریکارڈو، مالتھوس، اور بعد میں کارل مارکس اور اینگلز نے سرمایہ داری اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کا تجزیہ کیا۔ پورے عمل میں ہمیں شاعر نظر تو آئے مگر انہوں نے اس انقلابی تبدیلی میں حصہ نہیں لیا۔
اس لئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر شاعری کیوں سماجی تبدیلی نہیں لاسکتی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ شاعری کا تعلق جذبات سے ہوتا ہے۔ وہ جذبات کو انگیختہ تو کرتی ہے مگر اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے شاعری سیاسی تحریک کے دوران لوگوں کو جزباتی طور پر ابھار تو سکتی ہے مگر انقلاب کا سبب نہیں بن سکتی ہے۔
موجودہ دور میں ٹیکنالوجی کی اہمیت بہت زیادہ ہوگئی ہے، اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک اہم ایجاد پوری سوسائٹی اور اس کے ڈھانچہ کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ ہمارے اپنے زمانے میں کمپیوٹر، ای میل، سیل فون، اور فیکس وغیرہ کی ایجادات نے نہ صرف معاشرے کو سماجی طور پر بدلا ہے بلکہ انسانی رویوں اور عادات کو بھی تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ اس وقت ٹیکنالوجی اور اس کی ایجادات میں اس قدر تیزی آئی ہوئی ہے کہ لوگوں کو اس کے ساتھ تبدیل ہونے میں دقت پیش آرہی ہے۔ مگر سماجی تبدیلی اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے آرہی ہے۔ اس سے پہلے مفکرین اور سماجی علوم کے ماہرین کے خیالات کو اولین حیثیت ہوتی تھی، اور ٹیکنالوجی کی ایجادات ان سے متاثر ہوتی تھیں، مگر اب ٹیکنالوجی کو اول حیثیت حاصل ہوگئی ہے اور خیالات و افکار اس کے تابع ہوگئے ہیں۔
لیکن جن معاشروں میں ٹیکنالوجی کو حاصل کرلیا جاتا ہے مگر اس کا نتیجہ میں ہونے والے عمل کو سمجھنے کے لئے ذہن تبدیل نہیں ہوتے ہیں۔ ایسے معاشرے تہذیبی طور پر اور زیادہ پس ماندہ ہوجاتے ہیں، ٹیکنالوجی تو ہے، مگر وہ خیالات و افکار نہیں کہ جو ٹیکنالوجی کے عمل کو سمجھ سکیں۔
پاکستانی معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ایک طرف تو شاعروں کو ہی دانشور سمجھا جاتا ہے۔ لبرل اور ترقی پسند خیالات کے لوگ بھی انقلابی شاعری کو پڑھ کر یا سن کر جھوم جاتے ہیں اور ان خوابوں میں گم ہوجاتے ہیں کہ انقلاب آنے والا ہے، یعنی شاعروں کے گیتوں اور نغموں سے انقلاب آجائے گا، اس کے لئے انہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ان کا یہ انقلاب شاعروں کے دیوانوں اور ان کو گانے والوں کے کیسٹ میں گم ہوجاتا ہے۔
حبیب جالب انقلابی شاعر تھے اور ان کی شاعری آج بھی لوگوں کے جذبات کو ابھارتی ہے، اس زیادہ نہیں ۔ مثلاً ان کی مشہور نظم کے “ایسے دستور کو صبح بے نور کو۔۔۔ میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا” یہ اشعار تو ٹھیک ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سا دستور ؟ اور اس دستور میں کیا خرابی تھی کہ جس کی وجہ سے وہ اس کو ماننے سے انکاری تھے؟ محض اس نظم سے دستور اس کی دفعات اور اس کے اثرات کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہوتا ہے ، لوگ جذباتی ہو کر نعرے لگا دیتے ہیں، مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلتا ہے۔
اسی طرح فیض صاحب کی نظم “ہم بھی دیکھیں گے” بڑی انقلابی اور جذباتی ہے، لوگ اس کے انتظار ہی میں ہیں کہ جب تخت گرائے جائیں گے اور تاج اُچھالے جائیں گے، اگر ان نظموں کو اچھا گانے یا گانے والی ہو تو پھر یہ محض تفریح کا حصہ بن کر رہ جاتی ہیں، یہ نہ تو لوگوں کے ذہن کو بدلتی ہیں اور نہ معاشرے میں کوئی سماجی تبدیلی کا باعث ہوتی ہیں۔
اس پس منظر میں اگر پاکستان کے معاشرہ کو ترقی کا راستہ اختیار کرنا ہے تو اول تو اس کے لئے نئی ٹیکنالوجی کا حصول ہوگا مگر محض ٹیکنالوجی کا حصول کافی نہیں ہے، اس کی ایجادات میں بھی حصہ لینا ہوگا تاکہ اس کا انحصار دوسرے ملکوں پر نہ ہو بلکہ ہمارے سائنسدان نئی ایجادات کے بعد ہماری بنیاد کو مضبوط بنائیں، اس کے بعد جب ہم سماجی تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسی تبدیلی جو سماجی رویوں، عادات، ماحول، زبان اور روزمرہ کی زندگی پر اثر انداز ہو۔ یہ سماجی تبدیلی ٹیکنالوجی کی ایجادات کے سبب ہورہی ہے، شاعری کا اس تبدیلی میں کوئی دخل نہیں ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ شاعری جذبات کو ابھارنے اور تفریح کا ایک ذریعہ تو ہے مگر اس کے ذریعے کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے۔ یہ تبدیلی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایجادات لے آتی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ان تبدیلوں کو سمجھنے کے لئے نئے نظریات اور افکار کو پیدا کرنا ہوتا ہے جو سماجی تبدیلی سے ہونے والے مسائل کو سمجھ سکیں۔ اس لئے سائنس دانوں اور مفکروں کو ساتھ ساتھ چلنا ہوتا ہے تاکہ ٹیکنالوجی کے اثرات سے معاشرے میں انسانی احساسات کا خاتمہ نہ ہو۔ نئی فکر ان کے ذہنوں کو تازگی دیتی رہے۔ اس مرحلہ پر شاعری انسان کے جمالی احساسات کو پرورش کرنے اور زندہ رکھنے میں ایک موثر ذریعہ ہے جو اسے فطرت کے قریب پہنچا کر سکون دیتی ہے لیکن محض شاعری معاشرے میں سیاسی شعور اور تبدیلی کا ذریعہ نہیں ہوتی۔