جب کوئی مجھے کہتا ہے کہ شعور پر تحقیق وقت کا ضیاع ہے اور یہ جواز پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ غیرسائنسی ہے اور رہے گا تو مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے۔ کارل پوپر نے کہا تھا کہ جو جھٹلایا نہ جا سکے، وہ سائنس نہیں۔ سائنس میں تھیوری کو ٹیسٹ کرنے کے لئے مشاہدہ کا کوئی طریقہ ہونا چاہیے۔ اگر کوئی تھیوری اگر اصولی طور پر بھی کبھی ٹیسٹ نہیں کی جا سکے تو وہ غیرسائنسی ہو گی۔ میری رائے میں یہ سوال اتنا ہی سائنسی ہے جتنا کہ فزکس کا کوئی بھی سوال۔
پہلے ہم اس سوال کے پیچھے کی مشکلات کو مختصرا دیکھ لیتے ہیں جس کی وجہ سے کئی لوگ اس کے قریب آنے سے گھبراتے ہیں۔ شعور کے سوال پر جس قدر میرے دوست ڈیوڈ چامرز نے غور ہے، اتنا شاید ہی کسی اور نے غور کیا ہو۔ اس سوال کو اگر ڈیوڈ چامرز کی نظر سے دیکھا جائے تو اس میں ساتھ لگی تصویر کی طرح سوالوں کی تہیں بنتی ہیں۔ اس سوال کی پہلی تہہ وہ ہے جس کو چامر “آسان مسئلہ” کہتے ہیں۔ یعنی یہ کہ دماغ انفارمیشن کو کس طریقے سے پراسس کرتا ہے۔ حسیات سے آنے والی معلومات سے ری ایکٹ کیسے کرتا ہے۔ اس کی اندرونی حالتیں کیسی ہیں۔ سیکھتا کیسے ہے، کمپیوٹ کیسے کرتا ہے اور یاد کیسے رکھتا ہے۔
اس سے آگے کے مشکل سوالات کو ایک سے زیادہ پرسپکٹو سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ایک فزکس کا نقطہ نظر ہے۔ اس کے حساب سے تین الگ لئیرز بنتی ہیں۔ پہلی لئیر یہ کہ پارٹیکلز کی کونسی ترتیب شعور کو جنم دیتی ہے۔ ایمرجنسی روم ڈاکٹر کیسے یہ بتا سکتے ہیں کہ کونسا مریض جو جواب نہیں دے رہا، ابھی اس کا شعور باقی ہے۔ دوسری یہ کہ “تجربے” کا مطلب کیا ہے۔ خاص طور پر “کوالیا” جو شعور کا بلڈنگ بلاک ہے، وہ کیسے بنتا ہے۔ گلاب کی سرخی، حلوے کی خوشبو، ستار کی آواز، سیب کا ذائقہ اور کانٹے کی چبھن کہاں سے آتی ہے۔ سب سے مشکل سوال یہ کہ آخر کوئی بھی چیز شعور رکھتی ہی کیوں ہے؟ میرے ایم آئی ٹی کے ساتھی سکاٹ آرنسن ان میں سے پہلے سوال کو مشکل سوال، دوسرے کو مشکل تر سوال اور تیسرے کو مشکل ترین سوال کہتے ہیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا کوئی سائنسی تھیوری ان تینوں مشکل سوالات کے سائنسی طریقے سے جواب دینے کے قابل ہے؟ اس کا جواب “ہاں” میں ہے۔ کم سے کم مشکل سوال کے بارے میں۔ فرض کیججئے کہ ہمارے پاس ایک تھیوری ہو جس کی بنیاد پر ہم ایک سسٹم کے شعور کو چیک کر کے “ہاں”، “نہیں” یا “پتہ نہیں” جیسے جواب دے سکیں۔ ہم ایک آلے کے ذریعے آپ کے دماغ کی انفارمیشن پراسسنگ کی پیمائش کر سکیں اور اسے ایک کمپیوٹر پروگرام میں ڈال سکیں جو تھیوری کے مطابق یہ پیش گوئی کر دے کہ اس انفارمیشن پراسسنگ کا کونسا حصہ شعور سے تعلق رکھتا ہے اور اپنی پریڈکشن کو سکرین پر دکھاتا جائے۔ آپ ایک سیب کے بارے میں سوچیں۔ سکرین پر یہ معلومات آ جائے کہ آپ کے ذہن میں وہ معلومات جس سے آپ اس وقت شعوری طور پر آگاہ ہیں، وہ ایک سیب کے بارے میں ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے برین سٹیم میں کسی اور چیز کے بارے میں بھی انفارمیشن ہے جس سے آپ آگاہ نہیں۔ کیا آپ اس سے متاثر ہوں گے؟ اگر یہ ٹھیک نکلا تو آپ مزید ٹیسٹنگ کریں۔ اگر آپ اپنی والدہ کے بارے میں سوچیں۔ لیکن کمپیوٹر یہ بتائے کہ آپ کے شعور میں انفارمیشن کسی چڑیا کی چہچہاہٹ کے بارے میں ہے تو یہ تھیوری بھی سائنسی تاریخ کے کچرادان میں چلی جائے گی۔ ارسطو کی مکینکس اور لیومنیفرس ایتھر جیسے ناکام خیالات کی طرح۔ یہ اس کا اہم آئیڈیا ہے۔ اگرچہ تھیوری غلط ثابت ہو گئی لیکن یہ سائنٹفک تھی کیونکہ اس کو غلط ثابت کیا جا سکتا تھا۔
اب اگر کوئی اس نتیجے پر یہ تنقید کرے کہ اس نتیجے سے آپ کو تو پتہ لگ گیا لیکن اس کو نہیں۔ اس کو کیا پتہ کہ آپ اپنی والدہ کے بارے میں ہی سوچ رہے تھے یا کہیں آپ کوئی زومبی تو نہیں جو شعور ہی نہیں رکھتا تو پھر بھی یہ تھیوری غیرسائنسی نہیں ہوتی۔ وہ شخص خود آپ سے جگہ بدل سکتا ہے اور اپنے تجربے کو سائنسی کسوٹی پر پرکھ سکتا ہے۔
لیکن اگر کوئی تھیوری اس قسم کی پیشگوئی ہی نہ کرے اور ہمیشہ “پتہ نہیں” کی صورت میں جواب دے تو پھر وہ غیرسائنسی ہو گی۔ یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے اگر اس کو ٹیسٹ کرنے کی کمپیوٹیشن بہت مشکل ہو یا دماغ کے سینسر اچھے نہ ہوں۔ آج کی سب سے مقبول سائنسی تھیوریاں بھی اسی کے بین بین ہیں۔ کچھ سوالوں کے جواب ٹیسٹ ایبل ہوتے ہیں، تمام کے نہیں۔ مثال کے طور پر ہماری فزکس کی کور تھیوری کسی ایسے سسٹم پر پیشگوئی نہیں کر سکتی جو بہت چھوٹا بھی ہو (کوانٹم مکینکس کی ضرورت پڑے) اور بہت بھاری بھی (جنرل ریلیٹیویٹی کی)۔ یہ کور تھیوری تمام ممکنہ ایٹمز کے ماس کی پیشگوئی بھی نہیں کرتی۔ کچھ جگہ پر ہمارے پاس مساوات ہیں مگر ہم ان کو حل نہیں کر سکے۔ تمام حالات کے مطابق پریڈکشن نہ کر سکے کے باوجود یہ سائنسی ہے۔ ایسی تھیوری جو اپنی گردن باہر نکال کر ٹیسٹ ایبل پیشگوئی کرنے کے قابل ہو اور غلط جواب آنے پر اس کی گردن اڑائی جا سکے، وہ اتنی ہی کارآمد ہو گی۔ اگر ہم شعور کی تھیوری سے “کچھ” بھی پریڈکٹ کر سکیں تو وہ کافی ہو گا۔ فزکس کی “تمام” تھیوریز ایسا ہی کرتی ہیں۔ اس لئے دور بیٹھ کر اس بات پر وقت ضائع کرنا کہ ہم سب کچھ ٹیسٹ نہیں کر سکتے، مجھے مضحکہ خیز لگتا ہے۔ ہم ایسے اعتراض فزکس پر تو نہیں کرتے۔
خلاصہ یہ کہ کوئی بھی تھیوری ہو جو یہ پیشگوئی کر سکے کہ کونسا سسٹم شعور رکھے گا، بالکل سائنسی ہے، اگر وہ یہ بتہ سکے کہ دماغ کے کونسے پراسس شعور سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سوال سے جب ہم مشکل تر سوالوں کی طرف جاتی ہیں تو ٹیسٹ ایبیلیٹی کا طریقہ بھی مشکل تر ہو جاتا ہے۔ لیکن صرف اس وجہ سے کہ سوال مشکل ہے، اس کا یہ قطعا مطلب نہیں کہ ہم ان سے نظریں چرائیں۔ اس وقت ایم آئی ٹی میں میری ٹیم اس مشکل سوال پر کام کر رہی ہے۔
اور یہاں پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ سائنس کے دائرہ کار میں کیا ہے، یہ خود وقت کے ساتھ بدلتا رہا ہے۔ چار صدیاں پہلے گلیلیو اپنی ریاضیاتی فزکس کی تھیوری سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اس نے کہا کہ کائنات ریاضی کی زبان میں لکھی کتاب ہے۔ اگر ایک انگور اور ایک بادام کو اچھالا جائے تو اس کی ٹھیک پیشگوئی کی جا سکتی ہے کہ وہ کب زمین پر گریں گے۔ لیکن اس وقت گلیلیو کو یہ علم نہیں تھا کہ ایک سبز کیوں ہے اور ایک بھورا کیوں۔ ایک نرم کیوں ہے اور ایک سخت کیوں۔ اس وقت یہ سوال سائنس کی حد سے باہر تصور ہوتے تھے۔ لیکن ایسا ہمیشہ نہیں رہا۔ جب میکسویل نے اپنی مساوات دریافت کیں تو پھر ہم رنگوں اور روشنیوں کو بھی ریاضی کے ذریعے سمجھنے کے قابل ہو گئے۔ شروڈنگر کی مساوات آنے کے بعد سختی اور نرمی بھی ریاضی میں ڈھل گئیں۔ جس طرح تھیوری آگے بڑھتی رہی، اس کو ٹیسٹ کرنے کے طریقے بھی پیچھے آتے گئے۔ آج ہم جو بھی ٹیلی سکوپ، مائیکروسکوپ یا کولائیڈر میں سٹڈی کرتے ہیں، ایک وقت میں سائنس کے دائرہ کار میں نہیں سمجھا جاتا تھا۔ گلیلیو کے دنوں سے، جب ایک انتہائی تھوڑی سی معلومات سے لے کر آج تک ہمارے علم کا کینوس انتہائی وسیع ہو چکا ہے۔ سب ایٹمک پارٹیکلز، بلیک ہول، کائنات کے چودہ ارب سال جیسی چیزیں ہمارے علم میں آ گئی ہیں، سوال اٹھتا ہے کہ باقی کیا بچا ہے؟
میرے لئے، کمرے کا ہاتھی شعور ہے۔ نہ صرف آپ یہ جانتے ہیں کہ آپ شعور رکھتے ہیں بلکہ صرف یہی چیز ہے جو آپ مکمل اعتماد سے جانتے ہیں۔ باقی اس سے نکلے نتائج ہیں۔ جیسے ڈیکارٹ نے تفکر کا اظہار کیا تھا کہ کیا سائنسی ترقی اسے بھی سائنس کی ڈومین میں لے آئے گی؟ ہمیں نہیں معلوم۔ لیکن گلیلیو کو بھی نہیں معلوم تھا کہ ہم روشنی اور مادے جیسی چیزوں کو بھی جاننے کے قابل ہو جائیں گے۔ صرف ایک چیز کی گارنٹی ہے۔ اگر ہم کوشش نہیں کریں گے تو ناکام رہیں گے۔ اس وجہ سے میں اور دنیا بھر میں کئی اور سائنس دان اس مسئلے پر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گلیلیو پر معترض لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں تھی۔
نوٹ: یہ ترجمہ اس کتاب کے ایک حصے کا۔
Life 3.0 by Max Tegmark