23 اور 24 جنوری 2017 کو روس کے ہمسایہ ملک قازقستان کے دارالحکومت استانا میں، شام کے بحران کے حل سے متعلق ایک بہت اہم کانفرنس ہوئی جس میں ترکی کے وفد کی سربراہی ترکی کی وزارت خارجہ کے نائب سربراہ سیدات اونال نے کی۔ میزبان ملک قازقستان کے وفد کی سربراہی اس ملک کے وزیر خارجہ کیرات عبدرحمانوو نے کی، روس کی جانب سے وفد کی سربراہی الیکساندر لاورنتی ایو نے کی۔ اقوام متحدہ کی جانب سے وفد کی سربراہی شام کے معاملے سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی ستیفان دی میسطورا اور ایران کے وفد کی نمائندگی ایران کے نائب وزیر خارجہ حسین انصاری جابر نے کی ۔ اس میں شام کی مسلح حزب اختلاف اور شامی حکومت کے وفود بھی شامل تھے۔
اگرچہ مشترکہ اعلامیے پر شام کی مسلح حزب اختلاف اور شامی حکومت کی جانب سے دستخط نہیں کیے گئے تاہم اعلامیے کے مطابق ترکی، ایران اور روس شام میں جنگ بندی کی مانیٹرنگ کریں گے جبکہ ترکی اور ایران روس کے ساتھ مل کر شام میں جنگ بندی کو یقینی بنائے جانے کی خاطرمشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دینگے جس کے بارے میں ماہ فروری کے دوسرے ہفتے تک اعلان کر دیا جائے گا۔
شام کی مسلح حزب اختلاف کے وفد کے سربراہ یحیی' العریدی نے مشترکہ اعلامیے پر دستخط نہ کرنے کی وجہ سے متعلق صحافیوں کو بتایا کہ اس کانفرنس کے فریقین کے اپنے مفادات شام کے عوام کے مفادات سے زیادہ اہم دکھائی دیتے ہیں۔ مسلح حزب اختلاف کے گروہوں میں " جیش الاسلام" نامی گروہ، جس کے اراکین کی تعداد روس کی وزارت دفاع کی اطلاعات کے مطابق بارہ ہزار مسلح افراد ہے اور " شام کی مسلح فوج برائے آزادی" کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ دو دہشت گرد بنیاد پرست اسلامی گروہوں یعنی " داعش" اور " جبہت النصرہ" کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ کچھ عرصہ پیشتر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں گروہ " جیش الاسلام" کو بھی بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کیے جانے کی بات ہونے لگی تھی تاہم وفد میں شامل اس گروہ کے ترجمان سربراہ محمد الیوشا نے کہا کہ انکا گروہ روس کی شام کے بحران کے حل میں براہ راست شامل ہونے کی پیش رفت کا خیرمقدم کرتا ہے اور یہ گروہ کوشس کرے گا کہ مستقبل قریب میں شام میں مصالحتی عمل کو کامیاب ہونے کو ممکن بنانے میں مددگار ہو۔
یوں استانا میں ہوئی اس کانفرنس کے اثرات، ماضی میں جینیوا میں ہوئے ہفتوں پر مبنی مذاکرات کی نسبت فوری طور پر سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں جن پر اقوام متحدہ کے شام سے متعلق خصوصی ایلچی ستیفان دی میسطورا نے بھی اطمینان کا اظہار کیا۔
مزید برآں روسی وفد کے سربراہ الیکساندر لاورنتی ایو نے کانفرنس کے شرکاء کو بتایا کہ روس کی وزارت خارجہ نے شام کی مسلح حزب اختلاف کو شام کے لیے روسی ماہرین کا مدون کردہ آئین دے دیا ہے۔ روسی ماہرین نے شام کے لیے یہ نیا آئین اس لیے تیار کرکے دیا ہے تاکہ شام میں مصالحت کے عمل کو سریع تر کیا جا سکے۔ جناب الیکساندر کا کہنا تھا کہ اس کھیل میں شریک فریقین اگر چاہیں تو شام میں مصالحت کی فضا دنوں یا گھنٹوں میں نہیں بلکہ ایک گھنٹے میں پیدا کی جا سکتی ہے۔ اب جبکہ شام میں جنگ بندی کی نگرانی سے متعلق ترکی، ایران اورروس متفق ہو چکے ہیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ باقی گروہ بھی اس میں ہاتھ بٹائیں گے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی استانا میں متعین امریکی سفیر سے بات ہوئی ہے جن کا کہنا تھا کہ امریکہ کی نئی انتظامیہ کی جانب سے اس ضمن میں مثبت اشارے ملے ہیں۔
کیا امریکہ شام میں مصالحت کے عمل کو کامیاب ہوتا دیکھنا چاہے گا اس بارے میں تاحال کسی کو یقین نہیں بلکہ شک ہے۔ اس کھیل کے دو بڑے شریک ملک سعودی عرب اور قطر سے متعلق بھی اگرچہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا البتہ قرائن کے مطابق یمن کے ساتھ سعودی عرب کی جنگ کے اخراجات اور تیل کی قیمتوں کے مسلسل گرنے کے سبب سعودی عرب کی معیشت پر بہت زیادہ بوجھ پڑنے کے باعث لگتا یہی ہے کہ اس ملک کو طوعا" و کرہا" سہی لیکن شام کے حالات کو بگاڑنے سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔
شام میں خانہ جنگی کو روکنے میں روس کی براہ راست شمولیت کا سبب وہ ہرگز نہیں ہے جو عام لوگ خیال کرتے ہیں کہ روس امریکہ کو باز رکھنے کی خاطر ایسا کر رہا ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ روس اپنی بحری طاقت کی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔
مغرب، خاص طور امریکہ نے سب سے پہلے یوکرین میں " نارنجی انقلاب" برپا کرنے میں مدد دے کر روس سے اس کی بحریہ کا صدر مقام سیویستوپل چھڑانے کی ایک کوشش کی تھی۔ یہ اتفاق تھا کہ کریمیا میں بیشتر آبادی روسی النسل تھی جس کی وجہ سے روس نے وہاں ریفرنڈم جیت کر کریمیا کو خود سے ملحق کر لیا تھا۔ اس کی پاداش میں روس پر مغرب اور امریکہ نے اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں جن کی وجہ سے روس کی معیشت پر بہت بوجھ پڑا۔ علاوہ ازیں روس کو کریمیا اور یوکرین کی اپنے طور پر آزادی کا اعلان کرنے والی دو خود مختارمملکتوں کی اقتصادی امداد کا بوجھ بھی برداشت کرنا پڑا۔
اس پر مستزاد امریکہ نے سعودی عرب کی مدد سے تیل کی عالمی قیمتیں گرانی شروع کر دیں۔ روس جو اوپیک سے باہر تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، اس سکتی کو بھی سہتا رہا البتہ اوپیک میں شامل سب سے زیادہ تیل نکالنے والا ملک سعودی عرب اس بڑبولے پن پر زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ ستمبر کے اوائل میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد ایک بڑے وفد کے ساتھ ماسکو تشریف لائے۔ صدر روس ولادیمیر پوتن سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اور تیل کی نکاسی کو کم کرنے کا معاہدہ کرکے گئے جس کے تحت اب تیل کی نکاسی کم کرکے 80% کی جا چکی ہے۔
امریکہ سستا چھوڑنے والا نہیں تھا۔ اس نے داعش کے خلاف لڑائی کا بہانہ بنا کر عرب ملکوں کی مشترکہ فضائیہ کے ساتھ مل کر شامی فوج پر بم برسانے شروع کر دیے۔ اب جبکہ واضح ہو چکا ہے کہ افغانستان کی جنگ میں امریکہ نے سوویت یونین کو کھینچا تھا جس سے سوویت یونین کا نقصان ہوا تھا اس بار امریکہ نے روس کو شام کی جنگ میں کھینچ لیا۔
وجہ یہ تھی کہ امریکہ کے جنگی بحری اڈے دنیا بھر میں ہیں لیکن روس کا کوئی بحری اڈہ نہیں ماسوائے شام کی بندرگاہ طرطوس کے جہاں روس کے وہ جنگی جہاز جو بحیرہ اسود سے نکل کر بحیرہ قلزم میں متعین ہوتے ہیں ان کا عملہ استراحت کر سکتا ہے یا جنگی بحری جہازوں کی شکست و ریخت کی مرمت کی جا سکتی ہے۔ اگر روس کے جہاز بحیرہ روم یا قلزم میں متعین نہیں رہ پاتے تو وہ عالمی بحور میں بھی نہیں نکل سکتے۔ چنانچہ روس کی مجبوری تھی کہ وہ اپنی بحریہ کی بقاء کی خاطر اس جنگ میں براہ راست شریک ہو۔ داعش اور جبہت النصرہ جیسے بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں کا قلع قمع کرے اور طرطوس میں اپنے اڈے کو بچائے۔ طرطوس کے اڈے اب جبکہ ایسا کیا جا چکا ہے تو روس نے طرطوس میں اپنے بحری اڈے کو وسیع کیے جانے کا اعلان کر دیا ہے اور ترکی اور ایران کے ساتھ مل کر جنگ بندی یا مصالحت کی نگرانی کیے جانے کی خاطر شام میں اپنے مسلح دستوں کی تعداد بڑھانے کی بات بھی کی ہے۔
لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے تحت مشرق وسطی میں جنگ کے بادل ہٹائے جانے پر ایک ان لکھا سمجھوتہ ہو چکا ہے تبھی روس اور امریکہ کے مشترکہ دوست ملک میں یہ اہم کانفرنس منعقد کی گئی۔ دیکھتے ہیں کہ فروری کے وسط سے شام میں سیاسی تبدیلیوں کے عمل کا آغاز کس طرح سے ہوتا ہے۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1746022395423863
“