شہابِ ثاقب یا شہابیے محض زمین پر نہیں گرتے بلکہ چاند، مشتری، مریخ، اور نظامِ شمسی کے دیگر سیاروں پر بھی گرتے ہیں جہاں نہ کوئی بندہ ہے نہ بندے کی ذات۔ شہابِ ثاقب کا گرنا ایک قدرتی عمل ہے۔
زمین سے ہر سال کئی راکٹ خلا میں جاتے ہیں جو خلا میں سٹیلائیٹ چھوڑتے ہیں اسکے علاوہ کئی سپیس کرافٹ مریخ، چاند اور دیگر سیاروں اور سیارچوں تک جاتے ہیں۔ جن سے راستے میں کوئی سیارچہ یا شہابیہ نہیں ٹکراتا۔ سو یہ آسانی سے خلا میں جاتے ہیں اور اپنا مشن پورا کرتے ہیں۔
شہابیے راکٹس، سٹلائثس اور خلائی مشنز کو خلا میں جانے سے نہیں روک سکتے اور نہ ہی یہ اّنکے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں اگر کہیں کوئی خطرہ ہو بھی تو مشن کی منصوبہ بندی کرنے والے راکٹس، سپیس کرافٹس یا سیٹلائٹ کا راستہ بدل کر انہیں شہابِ ثاقب، یا خلائی کچرے سے بچا لیتے ہیں۔
اب تک کے تمام خلائی تاریخ میں ہزاروں میں سے صرف ایک ایسا واقعہ ہوا ہے جس میں ایک شہابیے سٹلائٹ سے ٹکرا کر اسے ناکارہ کر گیا۔ یہ 1993 میں یورپین سپیس ایجنسی کا کمیونیکیشن سٹلائٹ “اولمپس” تھا۔
لہذا شہابیے یا آسمان سے گرنے والے پتھر انسانوں کو خلا میں جانے سے نہیں روکتے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...