تھیوری آف ایوری تھنگ؟
کئی سائنسدان بھی ہیں جو واقعی میں ایسا سمجھتے ہیں کہ سائنس ایک اچھی طرح ڈیفائنڈ ایک ہی قسم کی ایکٹیویٹی ہے۔ اصولی طور پر ہر شے فزکس ہے اور اصولی طور پر کوئی “تھیوری آف ایوری تھنگ” کی تلاش کی جا سکتی ہے۔ (یہ پوزیٹوسٹک فلسفے کا ایک خیال ہے)۔ سائنس کے کئی شعبے فزکس کی نظر سے سمجھے جا چکے ہیں اور ماضی کی کامیابی مستقبل کی ضامن ہے۔
ایسا کہنے کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ اگر کوئی کہے کہ دنیا کا تمام علم “اصولی” طور پر فزکس تک ریڈیوس ہو سکتا ہے تو اس پر ہم پوچھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ وہ کس اصول کا حوالہ دے رہے ہیں؟ فزکس سے سوشیولوجی، اکنامکس، سائیکولوجی، بائیولوجی یا دیگر سائنسز کا راستہ کیا ہے؟ (ایسا کوئی معلوم اصول نہیں ہے)۔ لیکن ہم پہلے تجزیہ کر لیں کہ ہمارے سوال کا مطلب کیا ہے۔
فرض کیجئے کہ میں آپ کو کہوں کہ اگر وقت اور ہمت ہو تو میں اصولی طور پر سب سے بڑے معلوم پرائم نمبر بتا سکتا ہوں اور ایسا کرنے سے انکار کر دوں کیونکہ یہ تیرہ ملین ہندسوں پر مشتمل ہے۔ تو اگرچہ میں نے جواب دینے سے انکار تو کیا اور میں عملی طور پر ایسا نہیں کر کے نہیں دکھا سکا، لیکن اس دعوے میں غلطی نہیں۔ لیکن اگر میں آپ کو کہوں کہ میں ثابت کر سکتا ہوں کہ لامحدود پرائم نمبر موجود ہیں۔ آپ مجھ سے پوچھ سکتے ہیں کہ ایسے کسی ثبوت کا خاکہ کیا ہو گا (ویسے، یہ ثبوت موجود ہے) اور آپکو بالکل مطمئن نہیں ہونا چاہیے، اگر میں صرف یہ کہہ دوں کہ “مجھے “اصولی” طور پر کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ یہ لامتناہی نہ ہوں”۔
اس لئے صرف کہہ دینا کافی نہیں کہ ہر شے فزکس کے عدسے تک ریڈیوس ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس نینسی کارٹ رائٹ کا تھیوری اینٹی رئیلزم یہ کہتا ہے کہ ایسا کرنا ممکن ہی نہیں۔ اور اگر نینسی درست ہیں تو پھر ہر سائنس ایک شے نہیں۔ اس کی ایک مثال فزسسٹ لی سمولن نے تھیوری آف ریلیٹیویٹی کے بارے میں پیش کی ہے لیکن آسان مثال ارتقا ہے جس کو فنڈامنٹل فزکس تک نہیں لے جایا جا سکتا۔ یا اکانومکس کی تھیوریوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔
کیا فوڈور، کارٹ رائٹ، لی سمولن وغیرہ اس بارے میں درست ہیں؟ پتا نہیں۔ لیکن کم از کم اس خیال پر سنجیدگی سے غور کیا جا سکتا ہیں۔
اور اس پر اتفاق کر سکتے ہیں کہ “سخت” اور “نرم” سائنسز میں سے کوئی کمتر یا برتر نہیں یا پھر ایسا نہیں کہ اگر ماہرینِ نفسیات فزکس کے طریقے استعمال کرتے تو بہتر نتائج حاصل ہو سکتے تھے۔
اور اس پر تو بہت آسانی سے اتفاق کر سکتے ہیں کہ کہ اگر ہم فزکس میں تھیوری آف ایوری تھنگ تک پہنچ بھی جائیں اور اگر بالفرض یہ ثابت بھی کر دیا جائے کہ اصولی طور پر فزکس تک جایا جا سکتا ہے تو بھی اس کا مطلب یہ بالکل بھی نہیں ہو گا کہ اس کی مدد سے سائنس کے تمام شعبوں کے جوابات حاصل کئے جا سکیں گے۔ بچوں کی نگہداشت کی سائنس کے جواب ہمیں بچوں کی نگہداشت کی سائنس سے ہی ملیں گے۔ اہم سوالات اور انکوائری کے بہت سے علاقے سائنس میں ہر سطح پر ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیری ہیجز نے 1987 میں ایک تجزیہ کیا۔ یہ فزکس (سخت سائنس کی ملکہ) اور نفسیات (نرم سائنس کی سنڈریلا) کا مقابلہ تھا۔ کیا یہ درست ہے کہ فزکس نفسیات سے بہتر پرفارم کرتی ہے؟ اس کو دکھانے کے لئے پہلا سوال تھا کہ کس لحاظ سے بہتر؟ ہیجز نے اس کا معیار consistency رکھا۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ اگر زمین کا قطر 12700 کلومیٹر ہے تو مختلف طریقوں سے پیمائش کو اس کے قریب قریب نتیجہ دینا چاہیے۔ اگر ایک طریقے سے یہ تین ہزار کلومیٹر نکلتا ہے اور دوسرے سے ایک لاکھ تو پھر کچھ سنجیدہ مسئلہ ہے۔ (سوڈوسائنس کے ساتھ یہ بڑا مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر دس الگ نجومیوں سے قسمت کا حال پوچھ کر موازنہ کرنا ایک ایسی مثال ہو گی)۔
ہیجز نے پارٹیکل فزکس اور نفسیات کے مختلف شعبوں کو لیا۔ شائع ہونے والے جرائد سے کئی سال کا ڈیٹا اکٹھا کیا۔ اور نتیجہ نکالا جو حیران کن تھا۔ اگر تجربات کو دہرانے پر نتائج کی مماثلت کو معیار بنایا جائے تو ان دونوں میں خاص فرق نہیں تھا۔ “فزکس کے تجربات دہرائے جانے پر ایک ہی نتائج دیتے ہیں” ۔۔۔ اس خیال کی حمایت ڈیٹا نہیں کرتا۔
ہیجز نے اپنے تجزیے کیلئے الیکٹرون اور پروٹون کے ماس کے نتائج لئے۔ ان میں توقع کی جا سکتی تھی کہ نتائج یکساں یا قریب قریب ہوں گے۔ یہ 60 اور 70 کی دہائی میں کئے گئے تجربات تھے۔ نتائج کا کانفیڈنس انٹرول عام طور پر اوورلیپ نہیں کرتا تھا۔ یعنی کہ نتائج شماریاتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف تھے۔
اس ڈیٹا کا یہ مطلب نہیں کہ فزکس میں ہمیں کچھ پتا نہیں کہ الیکٹرون یا پروٹون کا ماس کیا ہے۔ اس وقت سے اب تک بہت سے مزید تجربات ہو چکے ہیں۔ نتائج اب ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں۔ (وقت کے ساتھ ہونے والی پروگریس اچھی سائنس کی ایک اور اہم نشانی ہے)۔ اور ایسا نہیں تھا کہ ہیجز جن نتائج کا تجزیہ کر رہے تھے، ان میں اتنی ویری ایشن تھی کہ نیوکلئیر فزکس کے بنیادی اصولوں پر ہی شک کیا جائے۔ لیکن بنیادی نکتہ باقی ہے۔ سائنس کی ملکہ میں بھی کئی برسوں تک نتائج میں عدم مطابقت رہتی ہے اور نرم سائنس کی سنڈریلا بھی کئی بار معاملات میں بار بار دہرانے پر بالکل یکساں نتائج دیتی ہے۔ تو کیا ان میں فرق نہیں؟
ابھی ہم آگے چلتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پر تجزیہ جارج ہاورڈ نے کر کے دکھایا کہ فزکس میں آئندہ آنے والے نتائج کی پیشگوئی اور وضاحت کی طاقت بہت زیادہ ہے اور یہ وہ چیز ہے جو نرم اور سخت سائنس کو الگ کرتی ہے۔
ہاورڈ نے یہ بھی دکھایا کہ پارٹیکل فزکس میں ہم نوے فیصد سے زائد فرق کی وضاحت تجربات میں پیمائش کے نقص کی وجہ سے کر لیتے ہیں۔ جبکہ سوشل سائنس میں نہیں۔ اور اس میں فیکٹرز “نامعلوم” رہتے ہیں۔ اور یہ وہ چیز ہے جو انہیں “نرم” بناتی ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ پیشگوئی کی طاقت سخت سائنسز میں زیادہ ہے۔
اب سوال یہ کہ نرم سائنسز میں وضاحت کی طاقت کم کیوں ہے (یہاں موازنہ سوڈوسائنس سے نہیں، جن کی وضاحتی طاقت صفر ہے)۔ آخر کیوں تجربات ہر بار دہرانے پر وہی نتائج نہیں دیتے؟ کیا اس کی وجہ درمیان میں آ جانے والی انسانی ایجنسی ہے جو یہ طے کر دیتی ہے؟
نہیں۔ یہاں پر ایک اور تصور ہے جو سائنس کے تصورات میں سے سب سے پرسرار ترین ہے۔ یہ کازیلیٹی کا تصور ہے۔