“سائنسدان آجکل اس شائستہ فکشن کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تمام سائنس برابر ہے۔ ہر سائنسدان کا شعبہ اور طریقے ایک ہی جتنے مفید کام کرتے ہیں (سوائے کسی حریف کے، جو غلط سمت میں کام کر رہا ہے)”۔
یہ اقتباس 1964 میں “سائنس” کے جریدے میں جان پلاٹ کے آرٹیکل سے ہے۔ اور یہ “سخت” اور “نرم” سائنس کے درمیان بحث کی جھلک ہے۔ پلاٹ کا نکتہ تھا کہ سائنس کے کچھ شعبے تیزی سے ترقی کر رہے ہیں جبکہ کچھ دوسرے شعبے وقت ضائع کر رہے ہیں۔ انہوں نے (اور کئی دوسروں نے) فزکس، کیمسٹری اور مالیکیولر بائیولوجی کو سخت سائنس قرار دیا۔ ایکولوجی، ایولیوشنری بائیولوجی، نفسیات، سوشیولوجی کو نرم سائنس۔ ان کا استدلال تھا کہ نرم سائنس میں کام کرنے والوں کو فزکس سے راہنمائی لینی چاہیے۔
پلاٹ نے اچھا نکتہ اٹھایا تھا کہ عام تاثر کے برعکس سائنس کوئی ایک شے نہیں۔ اس کا ایک طریقہ کار نہیں۔ تاہم نرم اور سخت سائنس کے بارے میں معاملہ اتنا سیدھا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا پلاٹ کا یہ دعوٰی درست ہے کہ مختلف اقسام کی سائنس میں ترقی کی رفتار فرق ہے؟ کسی حد تک ایسا ہے۔ لیکن یہ پیٹرن سیدھی لکیر کی صورت میں نہیں جو نرم اور سخت کو تقسیم کر دیتی ہے۔ پارٹیکل فزکس اور مالیکیولر بائیولوجی نے بیسویں صدی میں زبردست پیشرفت کی۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ کچھ مسائل میں طویل عرصے تک پیشرفت نہیں ہو سکی۔ نیوٹن اور آئن سٹائن کے درمیان کے وقت میں گریویٹی کے بارے میں پیشرفت نہیں ہوئی تھی۔ جنرل ریلیٹیویٹی اور کوانٹم مکینکس کی آپس میں دوستی کروانے پر ایک صدی کے قریب کی ناکامی ہے۔
آرگانزمل بائیولوجی (ایکولوجی اور ایولیوشنری بائیولوجی) کو “تقریباً نرم” سائنس سمجھا جاتا ہے لیکن اس میں تیزرفتار پیشرفت کے کئی دور رہے ہیں۔ جبکہ مالیکیولر بائیولوجی میں 1953 میں ڈی این اے کا سٹرکچر معلوم کرنے کی کامیابی سائنس کا بڑا سنگِ میل ہے لیکن دوسری طرف انسانی جینوم سیکوئنسنگ کی کامیابی نے ماہرینِ حیاتیات کو توقع سے بہت ہی کم جوابات دئے۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مختلف سائنسی شعبوں میں ترقی کی رفتار مختلف رہی ہے اور ہر شعبے اور مسئلے میں کبھی تیز پیشرفت ہوتی رہی ہے اور کبھی ناکامیاں رہی ہیں جو تھیوریٹیکل (نئی انسائٹ نہ ملنا) اور ایمپیریکل (نئی دریافت نہ ہونا)، دونوں نوعیت کی ہیں۔
اس کی وجہ کیا ہے؟ کئی امکانات ہو سکتے ہیں۔ زیرِ بحث مسئلے کی پیچیدگی، تحقیق کی گرانٹ کے سائز، شعبے میں کسی قدآور شخصیات کا ہونا یا اچھی قسمت ۔۔۔ سبھی کا کردار رہتا ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد فزکس کو پبلک فنڈنگ کا بڑا حصہ ملا۔ ضروری نہیں کہ زیادہ فنڈ کا لازمی مطلب تیزرفتار ترقی ہو (کینسر کے علاج کی تحقیق پر بھاری فنڈنگ کے باوجود ہونے والی سست پیشرفت اس کی مثال ہے)۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ بہتر آلات بنائے جا سکتے ہیں، بہتر دماغ اس شعبے کی طرف آ سکتے ہیں۔ یا پھر آئن سٹائن جیسی شخصیات کا فزکس میں ہونا اس شعبے کو پرکشش بنا دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنسز کا ایک اور پہلو پیچیدگی ہے۔ ایک طرف پارٹیکل فزکس میں ہم سادہ ترین آبجیکٹس، ایٹم اور ان کے ذرات کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ دوسری انتہا پر بائیولوجی پیچیدہ ترین اشیا، جو اربوں خلیات پر مشتمل جانداروں یا دسیوں ہزار ویری ایبل پر مشتمل ایکوسسٹم کی سٹڈی ہے۔ ان کے درمیان میں کیمسٹری، فلکیات یا ارضیات آتے ہیں۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ فزکس میں کامیابی کی ایک وجہ اس میں پیچیدگی کے عنصر کا کم ہونا ہے۔ اس کا مطلب فزکس یا کیمسٹری میں بڑی کامیابیوں کی اہمیت کم کرنا نہیں ہے۔ صرف یہ کہ ان عوامل کی وجہ سے فزکس میں اس قدر اچھی پیشرفت تعجب کی بات نہیں۔
مالیکیولر بائیولوجی میں ڈی این اے کے سٹرکچر، ڈی این اے ریپیلکیشن، جینیاتی کوڈ، خلیاتی مشینری کی گہری دریافتیں بہت زبردست کامیابی رہی ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں سے مالیکیولر بائیولوجی جینومکس کے شعبے میں داخل ہو رہی ہے اور اس کا نتیجہ بہت زیادہ ڈیٹا حاصل کئے جانا اور شماریاتی طریقوں سے تجزیہ ہے۔ اور شماریاتی طریقے سے تجزیہ نرم سائنس کا خاصا سمجھا جاتا رہا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ پیچیدگی کی سطح بڑھنے کے ساتھ ساتھ سائنس کا یہ شعبہ اپنی ہئیت تبدیل کر رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک مسئلہ سائنس کرنے کے طریقہ کے بارے میں عام پائی جانے والی غلط فہمی ہے۔ ہایپوتھیسس بنایا، تجربات ڈیزائن کئے، ڈیٹا اکٹھا کیا۔ جو ہائپوتھیسز ناکام ہوئے، ان کو مسترد کر دیا اور ہمیں اچھا جواب مل گیا۔ ٹھیک؟
تو پھر ایسا کیوں ہے کہ فزکس کرنے والے تو ایسا کرتے ہیں لیکن ایکولوجسٹ یا سائیکولوجسٹ وغیرہ اتنا سادہ کام نہیں کر پاتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ طریقہ صرف کچھ طرح کے سوالات کے لئے کام کر سکتا ہے۔ یہ طریقہ نصابی کتابوں میں تو ٹھیک ہے لیکن اصل دنیا میں سوالات سادہ نہیں۔ سائنسی طریقہ خود کوئی آفاقی حقیقت نہیں۔ قابلِ اعتبار علم تک پہنچنے کے کئی طرح کے طریقے بنانے پڑتے ہیں۔