نیو یارک شہر میں ایک ادیب اور ایک صحافی کے بیٹے اپریل 18، 1927 ء کو پیدا ہوئے سیموئیل فلپس ہنٹنگٹن سٹویویسانٹ ہائی اسکول میں شریک ہوئے، ییل یونورسٹی سے 18 سال کی عمر میں گریجویشن کیا۔ مختصر عرصے امریکی فوج میں بھی خدمات انجام دیں۔ یونیورسٹی آف شکاگو اور ہارورڈ جامعات سے اسناد بھی حاصل کی۔ ہنٹنگٹن نے 23 سال کی عمر میں ہارورڈ یونیورسٹی میں " حکومت " کے مضمون کی تدریس شروع کر دیا ۔
۱۹۹۳ء میں 'فارن افیرز جرنل' نے 'تہذیبوں کا تصادم' کے عنوان سے ہارورڈ کے پروفیسر، نیشنل سیکورٹی کونسل کے سابقہ ڈائریکٹر اور 'امریکی علومِ سیاسیہ' کی ایسوسی ایشن کے صدر سیموئیل ہنٹنگٹن کا ایک مضمون شائع کیا۔ ۱۹۹۶ء تک ہنٹنگنٹن کااپنے اس مضمون کو مکمل کتاب کی شکل دے دی جو ''تہذیبوں کا تصادم اور عالمی نظام کی تعمیر نو'' کے عنوان کے تحت شائع بھی ہوئی۔
ڈاکٹر ہنٹنگٹن نے 17 کتابوں اور درجنوں علمی مضامین لکھے جن میں سے اکثر تہذیبی، تاریخی سیاسی، فکری اور معاشرتی حوالے سے سخت تنقید ہوتی تھی جن امور متنازعہ بھی ہوتے تھے۔ ہنٹنگٹن کا انتقال ونیارڈ، میسا چوسٹس میں 81 سال کی عمر میں 24 دسمبر 2008 میں ہوا۔
ان کی کتاب کی کتانب “The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order.” کو بہت شہرہ ملی۔ مگر اب ان کے کتاب کے سازشی رموز کھلتے جارہے ہیں۔ مغرب میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے فکری حلقوں میں یہ چہ میگویان شروع ہوچکی ہیں کی انھوں نے یہ کتاب امریکی اسٹبلشمنٹ کے اشارے پر لکھی۔ جسکو " ٹوپی ڈرامہ" بھی کہا جاسکتا ہے۔ اور دینا کی انکھوں میں خوب دھول جھونکا۔
”تہذیبوں کا تصادم” بین الاقوامی تعلقات کے مطالعے میں ایک متنازع نظریہ ہے۔ سیمیوئل پی ہنٹنگٹن نے اس نظریے کو عالمگیر شہرت بخشنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ انہوں نے 1993 میں معروف جریدے "فارن افیئرز” میں ایک مضمون لکھا جس میں یہ تصور صراحت سے بیان کیا گیا تھا کہ جدید دنیا میں بین الاقوامی جنگوں کی بنیاد تہذیبی اختلاف پر ہوگی۔ تہذیبوں کے تصادم کی اصطلاح برنارڈ لیوئس نے 1990 میں معروف جریدے "دی اٹلانٹک” منتھلی کے ستمبر کے شمارے میں شائع ہونے والے مضمون "دی روٹس آف دی مسلم ریج” میں دی تھی۔ ہنٹنگٹن نے جب تہذیبوں کے تصادم سے متعلق مضمون لکھا تو دنیا بھر کے سیاسی اور علمی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا۔ اپنے مضمون پر غیر معمولی ردعمل دیکھ کر ہنٹنگٹن نے 1996 میں ایک ضخیم کتاب "تہذیبوں کا تصادم اینڈ دی ری میکنگ آف ورلڈ آرڈر” کے عنوان سے شائع کی۔ اس کتاب کو بھی عالمگیر شہرت حاصل ہوئی۔ بہت سے سیاسی مبصرین کے نزدیک جو کچھ ہنٹنگٹن نے بیان کیا اس میں زیادہ دم خم نہیں، اور کسی بھی جنگ کی اصل بنیاد مفادات کا تصادم ہے، تہذیبوں کا تصادم نہیں ہے۔
سیموئیل پی ہٹنگٹن نے اپنی کتاب ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ (Clash of Civilizations) لکھنے سے پہلے اپنے ایک ہم وطن دانشور ہنری کسنجر کا ایک قول پڑھ رکھا تھا جو اُس نے سرد جنگ کے زمانے میں لکھا تھا کہ ’’اکیسویں صدی میں بین الاقوامی نظام چھ طاقتوں پر استوار ہو گا یعنی امریکا‘ یورپ‘ چین‘ روس اور ممکن ہے کہ انڈیا‘‘۔ مصنف نے جب قلم اٹھایا تو سرد جنگ ختم ہو چکی تھی اور اکھاڑے میں صرف امریکا دندناتا رہ گیا تھا۔ اب مقابلہ تو بہرحال کسی نہ کسی سے کرانا تھا‘ اس لیے مصنف نے ’’طاقتوں‘‘ کا لفظ مصلحتاً کاٹ کر لفظ ’’تہذیبیں‘‘ رکھ دیا‘ اور مذکورہ چھ تہذیبوں کو پٹی پٹائی ثابت کرنے کے لیے اس نے کہا کہ:اُن چھپن ریاستوں کو نہیں بھولنا چاہیے جو بیشک الگ الگ تاریخ‘ جغرافیہ‘ زبان‘ ثقافت اور تمدنی روایات رکھتی ہیں‘ لیکن اسلام کی رسی میں بندھ کر بلائے جان بن سکتی ہیں۔ پس چونکہ مسلمان دنیا کو ’’دارالامن‘‘ اور ’’دارالحرب‘‘ میں بانٹتے ہیں‘ اس لیے امریکی دانشوروں کو بھی دنیا کو ’’امن کے علاقوں‘‘ اور ’’حرب و ضرب کے علاقوں‘‘ میں تقسیم کر لینا چاہیے۔
ہنٹنگٹن کا موقف ہے کہ" تین ہزار سال کے دوران میں ابھرنے اور ڈوبنے والی تہذیبوں کے عروج و زوال کی تاریخ اور ان کی باہمی کشمکش کی داستان پر اس کی نظر بہت گہری ہے‘ اور اسی لیے وہ دور اندیش بھی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ انسانی تاریخ میں کوئی ایسا خالی وقت نہیں آیا جب دو تہذیبیں ایک دوسرے سے متصادم نہ رہی ہوں اور طاقتور تہذیب نے کمزور تہذیب کو ملیا میٹ نہ کیا ہو‘ اور طاقتور سے طاقتور تہذیب خواہ کتنی بھی بلندی پر گئی ہو‘ ایک نہ ایک دن گری ضرور ہے۔ پس مغربی تہذیب بھی ایک نہ ایک دن ضرور گرے گی‘ لیکن اس تہذیب کو موجودہ عروج مسلسل ساڑھے پانچ صدیوں کی سخت کاوشوں کے بعد حاصل ہوا ہے‘ اس لیے اسے زوال آتے آتے بھی پوری ایک صدی لگ جائے گی۔ چنانچہ اکیسویں صدی پر تو لازماً مغرب کی برتری قائم رہے گی اور اگر وہ بائیسویں صدی میں خود کو برقرار رکھنا چاہے تو اس کی بنیادی ذمہ داری مغربی تہذیب کے موجودہ اجارہ دار امریکا پر عائد ہوتی ہے۔ امریکا مغربی تہذیب کے تحفظ اور اس کے عرصۂ زوال کو زیادہ سے زیادہ طول دینے کے لیے مندرجہ ذیل آٹھ تدابیر پر سختی سے عمل کرے:
(۱) یورپ کے ساتھ سیاسی‘ معاشی اور عسکری روابط کو وسعت دے۔
(۲) دوسرے ملکوں کے باہمی اختلافات سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی پالیسیوں کو مربوط بنائے۔
(۳) یورپی یونین اور نیٹو کو زیادہ سے زیادہ وسعت دے۔
(۴) لاطینی امریکا کو جدیدیت کے رنگ میں رنگا جائے اور اس میں شامل ملکوں کو یورپی ممالک کے قریب لاکر اُن میں سیاسی و معاشی اتحاد پیدا کیا جائے۔
(۵) مسلم ملکوں اور چین کی روایتی اور غیرروایتی فوجی طاقت کی ترقی میں ہر ممکن طریقے سے رکاوٹیں ڈالی جائیں۔
(۶) جاپان کے مغرب سے دور ہونے اور چین سے قریب ہونے کے رجحان کو سختی سے روکا جائے۔
(۷) روس کو آرتھوڈوکس عیسائیت کی مرکزی ریاست تسلیم کر لینا چاہیے۔
(۸) دوسری تہذیبوں پر امریکی تہذیب کی فوجی اور تکنیکی برتری کو برقرار رکھا جائے اور فوجی مقابلے کی دوڑ میں کسی اور تہذیب کو اپنے سے آگے نہ بڑھنے دیا جائے۔"
ہنٹنگٹن نے اپنی کتاب میں دنیا کو سات تہذیبوں میں تقسیم کیا ہے۔ آئیے، اس تقسیم پر ایک نظر ڈالیں۔
· یورپ، شمالی امریکا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پر مشتمل عیسائی تہذیب۔ (عیسائی دنیا میں روس بھی شامل ہے تاہم وہ آرتھوڈوکس ہے۔ قدامت پرست عیسائیوں کے عقائد کیتھولک یا پروٹیسٹنٹ عیسائیوں کے خیالات سے یکسر مختلف ہیں۔ روس اور مشرقی یورپ کے دیگر ممالک بھی ایک تہذیبی علاقہ تشکیل دیتی ہیں ۔ سابق سوویت یونین کی ریاستیں خود فیصلہ کریں گی کہ انہیں یورپ اور شمالی امریکا کے ساتھ رہنا ہے یا روس کے ساتھ۔ روس اور اس کے زیر نگیں علاقوں کو ایک علاحدہ تہذیبی علاقہ اب تک تو تصور نہیں کیا جاتا، ممکن ہے آگے چل کر اس کی راہ ہموار ہو۔ جن علاقوں میں آرتھوڈوکس عیسائی رہتے ہیں انہیں باضابطہ تہذیب بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔)
· مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، جنوبی ایشیا، ملائیشیا اور انڈونیشیا پر مشتمل اسلامی تہذیب
· ہندوستان اور نیپال پر مشتمل ہندو تہذیب
· صحرائے صحارا کے زیریں علاقے پر مشتمل تہذیب
· چین، ویت نام، سنگاپور، تائیوان وغیرہ پر مشتمل چینی تہذیب
· تھائی لینڈ، کمبوڈیا، ویت نام، بھوٹان، منگولیا، لائوس، تبت، میانمار، نیپال اور شمالی بھارت سے تعلق رکھنے والے بدھ باشندوں پر مشتمل بدھ تہذیب
· اور آخر میں جاپان۔ بہت سوں کو حیرت ہوتی ہے کہ ہنٹنگٹن نے جاپان کو علاحدہ تہذیب شمار کیا ہے۔ انہوں نے اس کی ٹھوس وجوہ بھی بیان کی ہیں۔
ڈاکٹر ہنٹنگٹن ایک متنازعہ مگر ذہین مصنف ہیں۔ جن کی تحریروں میں امریکی خیالات پر سویلین فوجی تعلقات، سیاسی ترقی، تقابلی حکومت اورجو انھون نے نائن الیون کے حملوں کے بعد دیا ایک مخصوص تناظرمیں 1996 میں اپنی کتاب " تہذیبوں کے تصادم "کا عالمی فکری خاکہ اور فریم ورک پیش کیا۔ ہنٹنگٹن تاحیات ر ڈیموکریٹ اور لبرل زہن کا مالک کہا جاتا ہے۔ جس کا مخاطبہ امریکہ کی اندرونی سیاست ہوا کرتا تھا۔ مگر وہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک قدامت پسند اور نیو کان نظرئیے سے زیادہ قریب ہیں۔
اس بحث کو شروع کرنے کے لیے ہنٹنگٹن جو وضاحت یا عالمی سیاسی ترتیب کو حقیقت کو غیر مؤثر ثابت کیا جس کا مرکز " ماضی" تھا ۔ ہنٹنگٹن کا کہنا ہے کہ ہمیں ایک نقشے کی ضرورت ہے۔ جس مین حقیقت کاو بریقہ کار اور مقاصد کو سہل طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ۔ ہنٹنگٹن نے ترقی دینے کے ماڈل کی کوششیں کرتے ہوئے نئے "تہذیب اندازِ عمل" کے بعد سرد جنگ ایک نئی تفہیم پیدا کرنے اور پہلے سے موجود برمروجہ کے خلا کو پر کرنے کی کوشش کی۔ ہنٹنگٹن دنیا آٹھ "بڑے" تہذیبوں میں تقسیم کیا ہے :
چین : جنوب مشرقی ایشیا میں چین اور چینی کمیونٹیز حاوی ہے۔ ہے ۔جس میں کوریا اور ویت نام بھی شامل ہے ۔
جاپانی: جاپانی ثقافت کے طور پر تصریحاً باقی ایشیا سے مختلف ہے ۔
ہندو: بنیادی طور پر ہندوستانی تہذیب کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ۔
جزیرہ نما عرب پر اسلامی اثرات : جس، شمالی افریقہ، جزیرہ نما آئبیریا اور سنٹرل ایشیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے ۔ عرب، ترک، ایرانی اور مالے میں اسلام کے اندر بہت سے مختلف مزاج اور ثقافتیں ہیں۔۔
راسخ العقیدہ: روس میں مرکوز ہوتے جارہے ہیں۔ ۔جس میں مغربی مہاجرین سے علیحدہ ہے ۔
مغربی: یورپ اور شمالی امریکہ میں مرکوز ہے ۔
لاطینی امریکہ: وسطی اور جنوبی امریکی ممالک کے ساتھ منسلک ہے۔ جہاں مطلق العنان ثقافت کا ایک ماضی ہے ۔ اکثر ممالک میں کیتھولک مذھب کی اکثریت ہیں ۔
افریقہ: براعظم ایک بین افریقہ کی شناخت کا احساس موجود نہیں جبکہ ہنٹنگٹن افریقہ بھی تیزی سے افریقی شناخت کا احساس کو ابھرتا محسوس کرتا دیکھتے ہیں۔ اور یہ دعوی بھی کرتے ہیں۔ ہنٹنگٹن کی نظر میں ابلہ فریبی تعارض کہ شکل میں ابھرتی ہے۔ جو غلطی سے لائن تنازعات اور کلیدی ریاست تنازعات ہیں ۔
سرحدی تنازعات کو مقامی سطح پر سر اٹھا رہے ہیں اور مختلف تہذیبں امریکہ کے اندر مقامی ریاستوں کے درمیان واقع مختلف تہذیبوں سے گھرآنا اور آباد ھونا ہے ۔
بنیادی ریاستی تنازعات بڑی ریاستوں کی مختلف تہذیبوں کے درمیان عالمی سطح پر ہیں ۔ بنیادی ریاستیں تنازعات پیدا کر سکتے ہیں ۔
ان جھگڑوں اور تنازعات سے کئی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔: جس میں متعلقہ اثر و رسوخ یا طاقت (فوجی یا اقتصادی), ایک مختلف تہذیب، خاص طور پر ایک تہذیب اپنی اقدار ایک مختلف تہذیب کے عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جو ایک مختلف تہذیب یا ثقافت اور مختلف قدروں میں جھانکے اور مداخلت ، شخصیات کے ساٹھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔
مغرب کی طاقت زوال پزیر ہے۔ ایشیائی تہذیبیں اپنی بڑھتی ہوئی معاشی اور فوجی طاقت جبکہ مسلمان اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کی بنا پر مغرب کے لیے چیلنج پیدا کردیں گے۔ تیسرے حصے میں مصنف بتاتے ہیں کہ نیا عالمی نظام تہذیبی بنیادوں پر جنم لے رہا ہے اور لوگ تہذیب و ثقافت کی بنیاد پر ہی جڑ اور کٹ رہے ہیں۔چوتھے حصے میں مصنف براہ راست تہذیبوں کے تصادم کو موضوع بنا کر یہ بتاتے ہیں کہ مغرب کا ٹکراؤ ممکنہ طور پر چین اور مسلم دنیا سے ہوگا۔ پانچویں اور آخری باب میں مصنف اہل مغرب کو یہ بتاتے ہیں کہ وہ اپنی مغربی شناخت پرقائم رہیں۔ اسی بنیاد پر امریکہ اور یورپ متحد ہوکر غیر مغربی معاشروں کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ ان کا کہنا ہے مغرب کی طاقت زوال پزیر ہے۔ ایشیائی تہذیبیں اپنی بڑھتی ہوئی معاشی اور فوجی طاقت جبکہ مسلمان اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کی بنا پر مغرب کے لیے چیلنج پیدا کردیں گے۔ تیسرے حصے میں مصنف بتاتے ہیں کہ نیا عالمی نظام تہذیبی بنیادوں پر جنم لے رہا ہے اور لوگ تہذیب و ثقافت کی بنیاد پر ہی جڑ اور کٹ رہے ہیں ۔ چوتھے حصے میں مصنف براہ راست تہذیبوں کے تصادم کو موضوع بنا کر یہ بتاتے ہیں کہ مغرب کا ٹکراؤ ممکنہ طور پر چین اور مسلم دنیا سے ہوگا۔ پانچویں اور آخری باب میں مصنف اہل مغرب کو یہ بتاتے ہیں کہ وہ اپنی مغربی شناخت پرقائم رہیں۔ اسی بنیاد پر امریکہ اور یورپ متحد ہوکر غیر مغربی معاشروں کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔۔۔ ہنٹنگٹن کا " تہذیبی تصادم " کا خیال 1957 میں ان کے ایک مقلے "فوجی اور ریاست،" شہریوں اور فوج کے درمیان طاقت کے توازن،" کے بعد آیا۔ جس میں وہ عوامی سطح پر کوریائی جنگ کی امریکی حکمت عملیوں کے ساتھ متفق تھے۔ جس میں جنرل ڈگلس میکآرتھی کے صدر ہیری ایس ٹرومین کے مابین 1951 میں ہوںے والے سخت سیاسی اور فوجی نوعیت کے شدید اختلافات تھے۔ جس میں صدر ٹرومین {جو امریکی فوج کے سپہ سالاربھی تھے} کی مریضانہ " انانّیت" بھی تھی۔ کیونکہ ایک تقریب میں جزل ڈگلس میکارتی نے صدو ٹرومین کو سلیوٹ {سلامی} پیش نہیں کیا تھا۔ جس نے ٹرومین نے اپنی عزت کا مسئلہ بنالیا تھا ۔
ایم ایچ ابرہیم خان نے اپنے مضمون "تہذیبوں کے تصادم " میں لکھا ہے"ہنٹنگٹن کے ناقدین روایتی تہذیب کو یہ کہتے ہوئے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ وہ جدید دور کے تقاضے نبھانے سے قاصر ہیں۔ ان کے خیال میں اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بیشتر قدامت پسند تہذیبیں اپنے آپ کو تبدیل کرنے سے گریزاں ہیں۔ ان کی نظر میں بہتر یہ ہے کہ اپنی حدود میں رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ فروغ کی کوشش کی جائے۔ اس کوشش میں وہ زیادہ کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ اس ذیل میں جاپان ایک ایسی مثال ہے جسے بنیاد بناکر کئی پس ماندہ تہذیبیں اپنے لیے نیا جہان پیدا کرسکتی ہیں۔ جاپان نے مغرب سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ حالات کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل کرکے اس نے ترقی کی متعدد منازل طے کی ہیں اور اب وہ عالمی معیشت میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ جاپان نے آزاد معیشت کو فروغ دیا ہے، جمہوریت کو اپنایا اور اس کے باوجود مغرب سے یکسر جدا تہذیبی شناخت برقرار رکھی ہے۔ چین بھی ابھرتی ہوئی غیر مغربی معیشت ہے۔ روس کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جو غیر مغربی جدیدیت کی عمدہ مثال ہیں۔ روس کے لیے ابتدا ہی سے شناخت کا مسئلہ موجود رہا ہے۔ اب تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ وہ مشرقی ملک ہے یا مغربی۔ مغربی دنیا اسے اپنا حصہ بنانے کے معاملے میں کبھی سنجیدہ دکھائی نہیں دی۔ " ہنٹنگن کی کتاب کو ڈاکٹر سہیل انجم نے " تہذیبوں کا تصادم — اورعالمی نظام کی تشکیل نو " کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔