عالمی تعاون کے ساتھ ہونے والے بائیولوجی کے سب سے بڑے پراجیکٹ ہیومن جینوم پراجیکٹ نے اپنے نتائج 2001 میں شائع کئے۔ یہ جس قدر کامیاب تھا، اتنا ہی ناکام بھی۔ کامیاب اس لئے کہ اس سے ہمیں زندگی کی پروگرامنگ کا پتہ لگا۔ ناکام اس لئے کہ اس سے ہمیں ان سوالوں کے جواب نہیں ملے جن کی ہم توقع کر رہے تھے۔
اس پراجیکٹ سے ہمیں پتا لگا کہ انسان کا جینوم بھی دوسرے جانداروں کی طرح ہی تھا اور کوئی یونیک چیز نہ رکھتا تھا۔ مثال کے طور پر مینڈک اور انسان کے جینوم میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔ اگرچہ مینڈک اور انسان میں بہت زیادہ فرق ہے لیکن آنکھوں، ہڈیوں، جلد، جگر بنانے کے لئے ویسی ہی انسٹرکشنز تھیں۔ یہ ویسے ہے جیسے ہم ٹوسٹر بنانے والی فیکٹری کو دیکھیں یا واشنگ مشن بنانے والی تو اس میں نٹ اور بولٹ ایک ہی جیسے ملیں گے۔ اس حوالے سے ان میں کوئی فرق نہیں۔
دوسرا یہ کہ جینز نفاست اور ترتیب سے لگے سوئچ نہیں جیسے کسی فیکٹری میں لگے ہوں اور ہمارے بارے میں اتنا نہیں بتاتے جو توقع تھی۔ ہنٹنگٹن کی بیماری کا انحصار ایک جین پر ہے لیکن یہ ایک استثناء ہے۔ ایک جین پر منحصر چیزیں نایاب ہیں۔ زیادہ تک چیزوں کا تعلق درجنوں یا سینکڑوں جینز کے ساتھ ہے۔ بہتر تکنیک کے ساتھ اب ہم یہ سمجھتے جا رہے ہیں کہ نہ صرف ان کا تعلق کوڈنگ جینز سے ہے بلکہ اس حصے سے بھی جس کو ایک وقت میں ناکارہ ڈی این اے کہا جاتا تھا۔ اکثر بیماریوں کا تعلق بہت سی جگہ پر ہونے والی چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں سے آنے والے پیچیدہ کمبی نیشن سے ہوتا ہے۔ لیکن صورتحال ملٹی جین پرابلم سے زیادہ خراب ہے۔
اس کی مثال شٹزوفرینینا سے دیکھ لیتے ہیں۔ اس پر کئی دہائیوں سے تحقیق جاری ہے۔ کیا ہم اس کی جین تک پہنچ چکے ہیں؟ جی بالکل۔ سینکڑوں جینز کی شناخت ہو چکی ہے جن کا تعلق اس عارضے سے ہے۔کیا ان جینز کی حالت دیکھ کر ہم پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ کس کو شٹزوفرینیا ہو گا؟ ان کی مدد سے ہم اس بات کا بتا سکتے ہیں کہ کس کو شٹزوفرینیا ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ لیکن اس عارصے کا اتنا ہی تعلق اس چیز سے ہے کہ کسی کے پاسپورٹ کا رنگ کیا ہے۔
پاسپورٹ کے رنگ کا اس بیماری سے کیا تعلق؟ اس پر تحقیق ہمیں یہ بتاتی ہے کہ نئے ملک میں جا کر بسنے کا سوشل سٹریس اس بیماری کے امکان میں اضافہ کر دیتا ہے۔ مختلف ممالک میں تارکینِ وطن پر کی جانے والی سٹڈیز بتاتی ہیں کہ نئے ملک میں جا کر رہنے والوں میں شٹزوفرینیا ہو جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب کلچر میں فرق زیادہ ہو۔ اگرچہ ہمیں معلوم نہیں کہ کیوں لیکن اس سے ہارمونل سسٹم پر فرق پڑتا ہے۔
اور یہ بھی پوری کہانی نہیں۔ اس گروپ کے لوگوں میں بھی آپس کے فرق زیادہ تھے اور اس کا تعلق اس سے تھا کہ کون اپنی شناخت سے کتنا مطمئن ہے۔
کیا شٹزوفرینیا جینیاتی بیماری ہے؟ اس کا جواب ہے کہ ہاں، جینز بھی کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر جینز ایسے نٹ اور بولٹ فراہم کریں جو کچھ عجیب شکل کے ہوں تو امکان زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن انسان صرف ڈی این اے میں لکھی مالیکیولر تجاویز پر ہی منحصر نہیں۔ ماحول کی موافقت بھی امکان پر اتنا ہی اثر ڈالتی ہے۔
اس پر سٹیفن سومی نے بندروں پر سٹڈی کر کے ماحول اور جینز سے مل کر نکلنے والے جارحیت کے رویے پر دلچسپ سٹڈی کی (اس کا لنک نیچے)۔ جینز اور ماحول کے ملاپ سے جارحیت کے امکان کا بڑا کوریلیشن تھا۔ کیپسی نے 2001 میں ڈپریشن پر کی جانے والی سٹڈی سے ایسا ہی نتیجہ نکالا۔
مارپیٹ میں گزرنے والا بچپن یا نشہ کرنے والے والدین کے بچوں میں ایک اچھا بچپن گزارنے والوں کی نسبت نفسیاتی عارضے ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ مارپیٹ کے اور ڈانٹ ڈپٹ کے ماحول میں بڑا ہونے والا بچہ جب خود والد بننے کی سٹیج پر آئے گا تو اس کا امکان زیادہ ہے کہ اس کا اپنا رویہ ایسا ہو گا۔ لیکن ایسا ہر کوئی نہیں کرتا۔ اس پر کیسپی کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ کئی جینز کے ایکسپریشن میں معمولی سے فرق بھی اس امکان کو کنٹرول کرتے ہیں۔ “بری” جینز اور “برا” بچپن مل کر اس امکان میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ اس امکان کا تیسرا اہم جزو کلچر ہے۔ یعنی کس رویے کو کس گروپ میں قابلِ قبول سمجھا جاتا ہے۔
جینیات کسی رویے کا امکان بڑھا دیتی ہیں۔ بچپن کا ماحول بھی ایسا کرتا ہے۔ انسان کی زندگی کے واقعات بھی۔ انسان کی “فائنل پراڈکٹ” نہ صرف جینز سے ہے اور نہ صرف ماحول سے۔
یاد رہے کہ نہ انسان اپنی جینز کا خود انتخاب کر سکتا ہے اور نہ ہی ماحول کا۔ جب آپ دنیا میں آئے تھے تو جو جیناتی بلیوپرنٹ آپ کو ملا، وہ آپ کے ساتھ ہی خاص تھا۔ جیسے والدین، جیسا بچپن، جو ماحول اور جو نیٹ ورک آپ کو ملا، وہ بھی آپ کے اختیار میں نہیں تھا۔ یہ تاش کا کھیل کھیلتے وقت آپ کے ہاتھ میں پتے ہیں۔ اچھے یا برے، آپ کا اختیار ان پر صفر ہے۔ جین اور ماحول کی پیچیدہ انٹر ایکشن کا مطلب یہ ایک شخص کے رویے کا انحصار اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پتوں پر ہے۔ یہ پتے اس کی بائیولوجی، اس زندگی کے تجربے، اس کے دوست، اس کی خوشیاں، اس کا کھانا پینا، اس کی دوائیاں، اس کو دی جانے والی گالیاں اور مارے جانے والے تھپڑ، اس کی تعلیم، والدین اساتذہ وغیرہ ہیں۔
شٹزوفرینیا پر کی جانے والی تحقیق ہمیں اس کو دیکھنے کیلئے ایک اور زاویہ بھی دیتی ہے۔ تارکینِ وطن گروہوں کے اپنے اندر شٹزوفرینیا کے ریٹ میں فرق ہے۔ وہ لوگ جو یا تو اپنے پرانے کلچر سے شرمندہ تھے اور احساسِ کمتری کا شکار تھے یا پھر وہ جو نئے کلچر سے الگ تھلگ ہو کر رہتے تھے، یہ ریٹ ان میں زیادہ تھا۔ اپنے شناخت سے مطمئن لوگوں میں ایسا نہیں تھا۔
بُرے پتوں سے بھی اچھی بازی کھیلنا مشکل ضرور ہے۔ کیا یہ ناممکن ہے؟ یہ سوال اوپن ہے لیکن تحقیق کا یہ پہلو اس پر ایک کھڑکی کھلی چھوڑتا ہے۔ اسی طرح کی امید ہمیں مشکل زندگی گزارنے والی ماوٗں کی سٹڈی میں ملی تھی (لنک نیچے سے)۔
سب انسان برابر ہیں۔ یہ جملہ حقوق اور فرائض کے اعتبار سے کسی حد تک ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن ایسا ہے نہیں۔ ہر کوئی منفرد ہے۔ اپنے مختلف جینز اور زندگی کے تجربوں کی وجہ سے انسانوں میں بیرونی طور پر جتنے زیادہ فرق ہیں، اندرونی طور پر اس سے زیادہ ہیں۔ بزنس، میڈیسن، ایجوکیشن، قانون اور سیاست میں ہم اسی مفروضے کی بنیاد پر کام کرتے ہیں لیکن یہ غلط ہے۔
سٹیفن سومی کی بندروں پر جینز اور ماحول کے تعلق پر کی گئی تحقیق
شٹزوفرینیا پر تحقیق کے لنک