کیا ریاست پاکستان اس بدبخت قاتل کو دس بار سزائے موت کی سزا دے گی؟
یاد رکھئے گا کہ اگر اس بدبخت قاتل کو پھانسی پر نہ لٹکایا گیا تو پھر اس ملک میں جنگل سے بھی بدتر قانون رائج ہوگا- جس کا جب اور جہاں دل چاہے گا اپنی مرضی کی اسلام کی تشریح کر کے کسی بھی بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتار کر “اسلام کی خاطر مارا ، اسلام کی خاطر مارا “ کی رٹ لگا کر بچ جائے گا- اس بدبخت کو تو ایسی سخت ترین سزا دینی چاہئے کہ جو آئندہ کے لئے مثال بن جائے-
کیسی انکوائر کمیٹی کیسی تفتیش! چشم دید گواہ ہیں اور قاتل خود بار بار اعتراف کر چکا- آپ کیا انکوائری کریں گے؟ یہی کہ کیا استاد واقعی اسلام کے خلاف بولتا تھا؟ اگر بولتا تھا تو یہ قاتل معاف کردیا جائے گا؟ تو پھر آپ نیوزی لینڈ کے درندے کی طرح ایسے قاتلوں کو جدید اسلحے کا لائسنس بھی جاری کردیں- آپ یقین کیجئے کہ یہ اس قاتل سے بھی زیادہ سنگدلی سے مسلمانوں کو اسلام کے نام پر نہ صرف قتل کریں گے بلکہ اس کی وڈیوز بھی بنائیں گے- مزہب کے نام پر دھشت گردی کرنے والوں کے لئے الگ اسپیڈی ٹرائل کورٹس بنائیں اور ان کو جلد از جلد کیفرکردار تک پہنچایا جائے- یاد رکھئے جتنی مہلت دیں گے جتنا طول کھینچیں گے اتنا ہی یہ شیطان اپنے بچاؤ کے حربے آزمائیں گے- Sheema Khan
ان جیسوں کے گرو گھنٹالوں کو ریاست کی طرف سے پروٹوکول ملتا رہے گا، جب تک ہمارے قوانین میں سقوم موجود ہیں یہ بچتے رہیں گے- یہ اسمبلیوں میں بیٹھے لوگ کیوں قانون سازی نہیں کرتے۔ کیوں قانون میں موجود ان تمام سقوم کو ختم نہیں کرتے جو ایسے قاتلوں کو قانون کے جال میں جگہ جگہ راہ فرار فراہم کرتی ہیں- پاکستان کے قانون میں غیرت اور مذہب کے نام پر قتل کے سلسلے میں جو رعایات فراہم کی جاتی ہیں ان کو یکسر اور فی الفور ختم کیا جائے-
————————————————————-
بہاولپور میں دولے شاہ کے چوہے کے ہاتھوں شہید ہونے والے استاد کے ہی ایک شاگرد کی تحریر پڑھ لیجے میرا سلام ہو اس طالب علم پر جس نے وقت پر اپنے حصے کا سچ بولا اور جرات سے لکھ دیا ( حیدر جاوید سید)
پروفیسر خالد حمید
دنیا میں انسان بہت سے لوگوں کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرتا ہے لیکن ان میں سے چند ہی ہوتے ہیں جو آپکو زانو سے پیروں پر کهڑا ہونا سکهاتے ہیں اور پهر اڑنا، سر خالد حمید بهی وہی استاد تهے.. کتنا عجیب لگ رہا کہ اس انسان کے نام کے آگے بهی "تها" لگانا پڑا.
آج کا دردناک اور لرزه خیز واقعہ ہم سب کے سامنے ہے ایک مذہبی جنونی طالبعلم نے اپنے ہی استاد کا خنجر سے قتل کردیا، یہ دکھ اس قدر بڑا ہے کہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل کہ ایهی اس عظیم ہستی کو سپردخاک کر کےآیا ہوں، طبیعت اجازت نہیں دے رہی لیکن سوشل میڈیا پر جس طرح اس واقع کو رنگ دیا جا رہا ہے تو مجبورا لکهنا ضروری ہے سب سے پہلے آپ کو مختصر سر کا اور اس بدبخت قاتل کا تعارف اور پهر اس واقع کی مسلم روداد سناتا ہوں.
سر خالد حمید ایس ای کالج شعبہ انگلش کے مایہ ناز استاد تهے آپکی علمی استعداد، آپکا انداز بیان، بہاولپور کا ہر وه طالب علم جس نے آپکا ایک لیکچر بهی لیا آپکا گرویده ہوگیا،یہ بات آج ایس کالج کے گراؤنڈ میں جنازے میں موجود نوجوان طلبا کی تعداد نے ثابت بهی کردی، صوم و صلواة کے پابند، نفیس لہجہ، سٹوڈنٹ کے حق کی خاطر خود تکالیف برداشت کرنی، ہر لحاظ سے انکو سپورٹ کرنا کوشش کرنا کہ کوئی کولیگ تو دور سٹوڈنٹ بهی آپ سے خفا نہ ہوجائے کسی کولیگ کی بلواسطہ بهی برائی نہیں کی ، ڈائس سے کبهی کوئی غیر اخلاقی یا مذہب کے خلاف کوئی بات نہیں کی بلکہ کبهی مذہب کو چهیڑا تک نہیں یہ بات میں تبهی کر رہا ہوں کہ 3سال انکے پاس پڑها ہے وقت گزارا ہے سفر کیا ہے حال دل سنا اور سنایا ہے یہ باتیں محض لیپا پوتی نہیں انکا ہر سٹوڈنٹ تائید کرے گا.
پهر آخر اس پیارے انسان کو انہی کے سٹوڈنٹ نے مارا کیوں؟
خطیب حسین 5th سمسٹر کا لڑکا ہے یعنی میرا جونئیر، یزمان کا رہائشی یہ لڑکا مولانا خادم حسین کا پیروکار ہے اسکے کلاس فیلوز بتاتے ہیں کہ پچهلے چھ مہینوں سے اس کا انداز تهوڑا مختلف ہو گیا مذہبی انتہاپسندی پر مبنی باتیں کرتا واٹس ایپ گروپ میں دوستوں کی ہنسی مزاق کی گپ شپ گو بهی حرام قرار دیتا اور ایک بار تو مولانا خادم کا فتوی پیش کیا کہ ہنسنا حرام ہے پڑهنے میں بہتر تها کلاس میں خاموش رہتا.
سر نے پانچویں سمسٹر میں انکو پڑهانا شروع کیا یعنی ابهی 2ماه ہی ہوئےتهے.
ہماری اینول پارٹی کا وقت آن پہچا پارٹی سے 2دن پہلے پورے کالج میں پروپیگنڈا کے تحت پمفلٹ لگے ہوئے پائے گئے کہ انگش ڈیپارٹمنٹ کی ہونے والی پارٹی کنجرخانہ ہے یہاں فحاشی ہوتی ہے یہاں یورپیین کلچر کو لایا جا رہا یہ اسلام کے منافی ہے اور نیچے منجانب طلبہ لکها ہوا تها یہ پمفلٹ نہیں معلوم کس نے بنوایا جس نے بهی بنوایا اس سے میرے دو سوال ہیں
1-جب پارٹی ابهی ہوئی نہیں تم پر وحی اتری کہ پارٹی میں یہ سب ہونے جا رہا ہے؟
2-اتنی سلیس اردو میں لکهے پمفلٹ میں محض انگلش ڈیپارٹمنٹ کا نام کیوں باقی ڈیپارٹمنٹس کی پارٹی پر سانپ سونگھ گیا تها؟
(پارٹی دراصل ایک اینول ڈینر ہوتا ہے جس کی تیاری سر خالد کے ساتھ مل کر ہم سبهی طلبہ و طالبات مل کر کرتے جس کا آغاز تلاوت قران پاک اور نعت سے ہوتا ہے)
اس پمفلٹ واقعےکے اگلے دن صبح جب سر آفس میں آئےتو خطیب حسین انکے پیچهے کمرے میں چلا آیا اور اور نیچے گرا کر پہ در پہ خنجر کے وار کرتا رہا ہمارے چونکہ لیکچرز دیر سے ہوتے تو صبح کے وقت زیاده تعداد نہیں ہوتی ایک لڑکی نے جیسےدیکها تو چیخ مار کر بیہوش ہوگئی اسکی چیخ کی آواز سے لڑکے بهاگ کر گئے تو دیکها وه جنونی خنجر سےمار کر خود اطمینان سے کرسی پر بیٹها ہے ایمبولینس آگئی ڈولفن پولیس پہنچ گئی سر تو اسی وقت دم توڑ گئے اسی قتل کے وقوعہ پر جب ایک اہلکار نے خطیب سے پوچها کہ تم نے وار کیوں کیا تو اسکا کہنا تها کہ یہ اسلام کے خلاف بولتا تها،
اس بدبخت نے سراسر جهوٹ بولا ہے،سر کو پڑهاتے20 سال سے اوپر ہوگئے ہوں گے آج تک کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وه ایسا کچھ کہیں گے سر نے 10 سال سعودی عرب میں گزارے ہیں 3 سے 4 بار حج کر رکها ہے، ہر جمعہ ایک خوبصورت شلوار قمیض میں آتےاور لیکچر کے آغاز میں خدا کی نعمتوں کا ذکر اور اسکا شکریہ ادا کرنے کی تلقین ہوتی یہ انکی فطرت تهی انکا بس جرم یہ تها کہ وه منافق نہ تهے میں نے تین سالوں میں اس جیسا خوبصورت انسان نہیں دیکها جو ایک وقت میں انگریزی ادب کا بہترین معلم، اسی لمحےایک اچها مسلمان، ایک اچها دوست اور شفیق والد تها.
خطیب حسین نے یہ سب خود نہیں کیا یقین اس کے پیچهے وه سوچ کار فرما ہے جس سے نہ مشعال خان بچ سکا اور نہ اب سر خالد. یہ عجیب بات ہے کہ آپ کسی ذاتی عناد کی وجہ سے سے اسے اسلام دشمن کہیں اور قتل کر دیں یہ کونسا اسلام اجازت دیتا ہے ایسے تو اب جس کا دل چاہے وه نوٹس لگائے اور اگلے دن اسے قتل کردے کیا یہی وه اسلام تها جو فتح مکہ کے موقع پر دیکهنے کو ملا؟ نہیں یہ اسلام نہیں بلکہ اسلام کا استعمال ہے اپنی رنجشوں کی آڑ میں آخر کب تک ہم ان جهوٹے انتہا پسند مولویں کی وجہ سے جانیں گنوائیں گے، کب تک ہم اپنے معلم، دانشور کهوئیں گے؟
آج صرف سر خالد کا قتل خطیب حسین کے ہاتهوں نہیں ہوا بلکہ علم کو جاہل نے خنجر سے مار ڈالا
اس واقع کی انکوائری جاری ہے، اس پوسٹ کو لکهنے مقصد یہ ہے کہ آپ غلط پروپیگنڈا میں مت آئیں نہ اسے آگے پهیلائیں، بلکہ آواز بلند کریں ایک معلم آج اس معاشرے میں انصاف مانگ رہا ہے.