رئیس صاحب جیسا قابل، پراسرار اور متحرک و ذہین و فطین انسان میں نے زندگی میں نہیں دیکھا۔ رئیس صاحب بطور شاعر معروف ہیں اور عوام کی اکثریت ان کو بطور شاعر ہی جانتی ہے۔ معروف شاعر جون ایلیا کے بڑے بھائی تھے۔
لیکن وہ پراسرار و غیبی علوم کے ماہر بھی تھے۔ بے شمار محیر العقول واقعات ان کی ذات سے منسوب ہیں۔ وہ ہاتھوں کی انگلیوں کی مقناطیسی طاقت و پریکٹس کے ایکسپرٹ تھے ۔ ان کی کتب بے مثال ہیں۔ کہتے ہیں کہ امروہوی صاحب پاکستان کے شاید واحد شاعر تھے جو عبرانی زبان بھی جانتے تھے۔ یہودیوں کا کبالہ جادو و دیگر مخفی علوم کی تمام کتب عبرانی زبان میں ہی ہیں۔ افسوس ان کے کام کو کسی نے آگے نہیں بڑھایا۔ مابعد النفسیات پر ان کی کتب ایک اتھارٹی کا درجہ رکھتی ہیں۔ رئیس صاحب ہمارے نانا بشیر درانی مرحوم اور جگر مراد آبادی مرحوم کے ہم عصر اور دوست تھے۔ ہمارے نانا اور جگر مراد آبادی بھی گہرے دوست تھے۔ نانا بھی شاعر تھے۔ ان کے دو دیوان ہیں۔ “ جذب و گُریز” اور “ نادرات” ۔نانا سے تعلقات کی بنا پر ہمارے ماموں شام درانی سے بھی ان کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ ہمارے ماموں بھی شاعر تھے۔ رئیس صاحب ان کو بیٹوں کی طرح سمجھتے تھے۔ میں اپنے بچپن میں بلکہ لڑکپن میں دو تین مرتبہ ماموں کے ساتھ رئیس امروہوی کے گھر جاچکا ہوں جو گارڈن کے علاقے میں تھا۔ تقسیم سے قبل کی پرانی ہندووں کے زمانے کی بنی وسیع و عریض کوٹھی تھی جس کے ایک حصے میں تو رئیس صاحب کے بیٹے اور بہو وغیرہ رہائش پذیر تھے جبکہ آدھے سے زرا کم حصے میں رئیس صاحب کا دفتر و بیٹھک تھی۔ اس حصے کا گیٹ بھی الگ تھا جو ایک پتلی سی سیمنٹ کے فرش والی راہداری سے ہوتا ہوا دائیں جانب رئیس صاحب کے آفس میں کھلتا تھا۔ یہ ایک کافی طویل کمرہ تھا جس کے ایک کونے میں رئیس صاحب کی میز کرسی وغیرہ رکھی تھی۔ جہاں میز کے عقب میں رئیس صاحب براجمان رہتے تھے۔ رئیس صاحب کے پیچھے کھڑکیاں تھیں جو شاید عقبی صحن میں کھلا کرتی تھیں جن پر دبیز پردے پڑے رہتے تھے۔ رئیس صاحب کی کرسی کے بائیں طرف کچھ فاصلے پر ایک چوبی دروازہ اندر گھر کی طرف کھلتا تھا۔ اسی دروازے سے رئیس صاحب گھر کے اندر اور آفس میں آتے جاتے رہتے تھے۔ اس کے سامنے اور سائیڈ میں صوفے اور کرسیاں رکھی تھیں جہاں ہر وقت پانچ چھ افراد ہوتے تھے۔ ان میں شعرا ادیب صحافی اور دیگر تقریبا” ہر مکتبہ فکر کے لوگ شامل ہوا کرتے تھے۔ سفارشی حضرات بھی ہوتے تھے۔ بالکل گھر کی بیٹھک جیسا ماحول ہوا کرتا تھا۔جس وقت میں نے رئیس صاحب کو دیکھا ان کی عمر 73برس سے کیا کم ہوگی۔ لیکن دیکھنے میں 80+ لگتے تھے۔ کلین شیو۔ یعنی ایسے کلین شیو جو اس عمر میں بھی بلاناغہ روزانہ شیو کرتے تھے۔ سفید کرتا، چھوٹی موری کا سفید پاجامہ اور اس پر سیاہ یا گرے واسکٹ پاؤں میں سلیم شاہی یا سلپرز، پان بے تحاشہ کھاتے تھے۔ یعنی پوپلا منہ ہر وقت چلتا رہتا تھا۔ لمبی خمیدہ ناک۔ چوڑی پیشانی۔ اتنی عمر کے باوجود رئیس صاحب بالکل بانس کی طرح سیدھے تھے۔ چہرے پر صرف کھال منڈھی رہ گئ تھی۔ دیکھنے میں انتہائ نحیف لیکن چلت پھرت میں انتہائ غیر معمولی پھرتی۔ شاید بھرپور نوجوان بھی اتنی پھرتی سے نہیں اٹھتے بیٹھتے ہونگے۔ کسی کی بات منہ سے نکلنے سے پہلے رئیس صاحب اس کا جواب دے رہے ہوتے تھے۔ انتہائ سبک رفتاری اور غیر معمولی تیزی سے لکھتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کا قلم ان کے ذہن و دماغ کے ساتھ سنکرونائزڈ تھا۔ رئیس صاحب کی نشست و برخاست اور چال ڈھال میں ایک عجیب سی لاپرواہی اور لاابالی پن تھا۔ گویا اتنے بھانت بھانت کے لوگوں میں گھرا رہنا ان کا معمول تھا جس کو وہ قطعی مائنڈ نہیں کرتے تھے۔ جب تخلیہ درکار ہوتا تو اٹھ کر اندر گھر میں چلے جایا کرتے جبکہ حاضرین دفتر میں ہی بیٹھے ایک دوسرے سے خوش گپیاں کرتے رہتے۔ ایسا لگتا تھا کہ رئیس صاحب سے ملنے آنے والوں کے پاس بہت فرصت ہوتی تھی۔ رئیس صاحب کی شخصیت میں جو سب سے زیادہ غیر معمولی چیز تھی وہ ان کی آنکھیں تھیں۔ انتہائ غیر معمولی طور پر چمکدار جیسے کہ شعلے دھک رہے ہوں۔ بے انتہا پرکشش۔ گویا کہ اگر آپ ان کی آنکھوں سے آنکھیں ملائیں گے تو پھر ھٹا نہیں سکیں گے۔ آفس میں چائے پان چلتے رہتے تھے۔ رئیس صاحب ایک نقرئ باکس سے لگے ہوئے پان اور ڈوری والے بٹوے سے چھالیہ نکال کر پان کھاتے تھے جبکہ خاص پان کھانے والے مہمانوں کے لئے گھر کے اندر سے پان لگ کر آتے تھے۔چائے کا فلاسک بھی ان کی میز پر دھرا ہوتا تھا۔
نثر میں رئیس صاحب نے نفسیات و فلسفۂ روحانیت کو موضوع بنایا۔ اردو اور اردو بولنے والوں سے رئیس صاحب کی محبت مثالی تھی۔ کراچی کا اورنگی ٹاؤن بھی رئیس صاحب کا کارنامہ ہے۔ اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے۔ روزنامہ جنگ میں ان کے لکھے گئے قطعات پاکستانی کی تاریخ اور سیاسی حالات کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔ فرمائش پر ایک منٹ میں قطعہ لکھ دیا کرتے تھے۔
ان کے آفس سے متصل ایک صحن اور دوسرا کمرہ تھا ۔ اس کمرے میں بھی دوچار لوگ ہر وقت پڑے رہتے تھے۔ اس آفس میں آنے جانے کے لئے بیرونی گیٹ بند نہیں ہوا کرتا تھا۔ لوگ بغیر اجازت اندر داخل ہوکر راہداری سے گزر کر آفس چلے جایا کرتے تھے۔ اور اس کھلے گیٹ کی وجہ سے ہی رئیس صاحب قاتلوں کے لئے ایک آسان ھدف ثابت ہوئے۔ وہ اسی کھلے گیٹ سے داخل ہو کر رئیس صاحب کو قتل کرکے فرار ہوگئے۔ اندازہ کیجئے کہ کیسا علم دوست اور بے ضرر انسان تھا کہ جس کے دروازے محاورۃ” نہیں بلکہ حقیقتا” کسی کے لئے بند ہی نہیں ہوا کرتے تھے۔ کم از کم میں نے اپنی زندگی میں ایسا کوئ بڑا آدمی نہیں دیکھا جس کے آفس میں جس کا جی چاہے منہ اٹھا کر گھس جائے۔ رئیس صاحب ایک درویش منش ایسی شخصیت اور طاقت و علوم کے مالک تھے کہ ایسی ھستیاں شاید صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ مجھے دو شخصیات ، حکیم سعید اور رئیس امروہوی کے ناحق خون پر شدید ترین افسوس ہوتا ہے کہ جاھل مذھبی و لسانی شدت پسند دہشت گرد جانوروں نے کن دو نابغہ روزگار ھستیوں کی جان لے لی۔ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ اس ملک کے اصلی حب وطن اور پرخلوص خدمت گزاروں کو تو قتل کیا گیا اور غداروں بئمانوں اور چوروں کو تخت پر بٹھایا گیا۔
رئیس صاحب کی شعری اور نثری تصانیف تو بے شمار ہیں لیکن ان کی نفسیات و روحانیات کی کتب کی تفصیل آپ کو دے رہا ہوں۔ کبھی وقت ملے تو پڑھئے گا۔ تب آپ کو پتہ چلے گا کہ رئیس صاحب کیا شخصیت تھے۔ان میں سے ہرکتاب آپ کو جہان حیرت میں لے جائے گی۔ رئیس صاحب کی یہ کتابیں پڑھ کر لوگ ماہر نفسیات، ماہر روحانیات، ماہر جنسیات اور ماہر غیبی علوم بنے بیٹھے ہیں۔
نفسیات و مابعد النفسیات ( 3 جلدیں)
عجائبِ نفس ( 4 جلدیں)
لے سانس بھی آہستہ ( 2 جلدیں)
جنسیات ( 2 جلدیں)
عالم برزخ ( 2 جلدیں)
حاضرات ارواح
جِنّات ( دو جلدیں)
2 ستمبر 1988کی شام حضرتِ رئیس اپنے کمرے میں محوِ مطالعہ تھے کہ کسی نامعلوم شخص نے گولی مار کر شہید کردیا. بعد میں قاتل پکڑے گئے جو مذہبی جنونی دہشت گرد تھے۔
رئیس امروہوی مقدمہ قتل
دس مارچ سنہ نواسی 89 جنگ اخبار کراچی کے مطابق
“رئیس امروہوی کے قتل کا ملزم اور اسکے تین ساتھی گرفتار
ملزم نے ایک تنظیم بنا رکھی تھی جس کا مقصد اہم شخصیات کو قتل کرنا تھا ۔
ملزمان وڈیو کیسٹ کو معاشرے میں برائی کا سبب سمجھتے ہیں انہوں نے دوسرے تین افراد کو بھی قتل کیا ۔
ڈی آئی جی ایسٹ کراچی اظہر علی فاروقی پریس کانفرنس میں ممتاز شاعر و ادیب رئیس امروہوی کے مبینہ قاتل اور اسکے تین ساتھیوں کی گرفتاری کا اعلان کیا۔ ڈی آئی جی کراچی نے کہا کہ رئیس امروہوی کا قتل نوعیت کے اعتبار سے انتہائی پیچیدہ معاملہ تھا جس کی سولجر بازار پولیس اور سی آئی اے تفتیش کر رہی تھی، حال ہی میں ایس ایس پی سی آئ اے الطاف علی خان کو خبر ملی کہ ایک طالب علم جنونی کیفیت میں پایا جاتا ہے اور اسکی مشتبہ سرگرمیاں دیکھی گئی ہیں جس پر انہونے انسپکٹر سہراب بٹ کی نگرانی میں سب انسپکٹر چوہدری منصب اور دیگر اہلکاروں کی ٹیم تشکیل دی، اس ٹیم نے طالب علم کو حراست میں لے کر تفصیلی پوچھ گچھ کی تو اس نے انکشاف کیا کہ وہ مبینہ طور پر اس تنظیم کا رکن ہے جس نے رئیس امروہوی کا قتل کیا ہے اور یہ تنظیم مزید اہم شخصیات کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ طالبعلم کی نشاندہی پر نئی کراچی سے تنظیم کے سرغنہ محمد جمیل اور دیگر دو نوجوانوں گرفتار کرکے ایک ماؤزر مع چھ کارتوس، ایک پستول مع چھہ کارتوس، ایک ریوالور مع پانچ کارتوس اور ایک خنجر برآمد کرلیا۔
یہ نوجوان بیس سے چوبیس سال کی عمر کے ہیں جنہوں نے ایک تنظیم بنا رکھی تھی جس کا مقصد معاشرے سے ہر قسم کی برائی کا خاتمہ قرار دیتے ہیں۔ سی آئی اے کی تفتیش کے مطابق ملزمان نے ایسی اہم شخصیات کے قتل کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی جو مختلف لسانی گروہوں کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں اور اس ہی سوچ کے پیش نظر ملزمان نے بائیس ستمبر انیس سو اٹھاسی کو رئیس امروہوی کے قتل کی منصوبہ بندی کی ۔اس مقصد کے لیئے ملزم محمد جمیل نے اس روز تین بجے سہہ پہر فون کرکے تصدیق کی کہ ریئس امروہوی گھر پر ہیں اور باہر جانے کا ارادہ نہیں رکھتے، جس کے بعد نئی کراچی سے کرائے کا موٹر سائیکل لے کر وہ اپنے ساتھی کے ہمراہ ریئس امروہوی کی رہائشگاہ پر پہنچا جہاں اپنے ساتھی و باہر موٹر سائیکل پر کھڑا کرکے ملزم محمد جمیل نے دفتر کے اندر جا کر کرسی پر بیٹھے ہوئے رئیس امروہوی کے سر پر ماؤزر سے فائر کیا اور واپس اگیا، رئیس امروہوی گولی لگنے سے جاں بحق ہوئے اور انہیں قتل کرکے دونوں ملزمان بآسانی فرار ہوگئے۔
تفتیش کے دوران دیگر جرائم کا انکشاف ہوا ہے جن کے مطابق ملزمان ویڈیو پر فلم دیکھنے کو معاشرے میں برائی کا سبب سمجھتے ہیں اس سوچ کے پیش نظر پندرہ فروری انیس سو اٹھاسی ملزم محمد جمیل اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گلبرگ کے علاقے میں واقع تین عدد وڈیو کی دکانوں پر گیا اور وڈیو کیسٹ واپسی کےلئے لانے والے دو افراد حامد بٹ اور مشتاق کو فائر کرکے ہلاک کردیا اس ہی طرح پندرہ ستمبر انیس سو اٹھاسی کو سیریل کلر محمد جمیل نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک دکاندار محمد حنیف کو ہلاک کردیا جو کہ مبینہ طور پر لڑکیوں کو خراب کرنے کا زمہ دار تھا علاؤہ ازیں ملزم جمیل نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گلشن اقبال کے علاقے سے ایک نوجوان کامران صدیقی سے موٹر سائکل نمبر کے اے ایم 7205 چھیننے الزام ہے، ملزم نے ایک ہینڈ بل بھی شائع کرکے تقویم کیا تھا جس پر ہم بے حیائی ختم کرینگے اور پہلی جہالت کی طرح بناؤ سنگار نہ کرتی پھرو، تحریر تھا، ملزمان جانباز فورس کے تربیت یافتہ ہیں اور جہاد افغانستان میں شرکت کے لیے مجاہدین میں شامل ہونے کی بھی کوشش کر چکے ہیں تاہم انہیں واپس کردیا گیا تھا وہ تینوں پرائیویٹ تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔”
یہ جنگ اخبار کی خبر کا تراشہ ہے۔ اس کے بعد رئیس امروہوی کے قاتلوں پر کیا مقدمہ چلا، سزا ہوئ یا نہیں۔ اس بارے میں کوئ خبر نہیں۔ اگر احباب میں سے کسی کو اس بارے علم ہوتو ضرور آگاہ کیجئے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...