ایک طرف پنجاب کے بلوچ وزیر اعلی نے حکومتی سطح پر پنجاب میں 2 مارچ کو “بلوچ کلچر ڈے” منعقد کروایا اور 6 مارچ کو “سرائیکی کلچر ڈے” منعقد کروایا۔ جبکہ پنجاب میں “سرائیکی” کے نام سے نہ کوئی زبان ھے اور نہ کوئی قوم ھے۔
پنجاب میں رھنے والے بلوچ ‘ پٹھان ‘ عربی نژاد خود کو “سرائیکی” کہلواتے ھیں۔ جبکہ انہیں پنجاب میں خود کو “سرائیکی لبادے” میں چھپانے کے بجائے بلوچ ‘ پٹھان ‘ عربی نژاد کی اپنی اصلی شناخت کے ساتھ رھنا چاھیے اور پنجاب میں بلوچ ‘ پٹھان اور عربی نژاد کلچر ڈے منعقد کرنے چاھیئں۔
دوسری طرف پنجاب کے بلوچ وزیر اعلی نے 14 مارچ کو پنجاب میں “پنجابی کلچر ڈے” کے بجائے “پنجاب کلچر ڈے” کا انعقاد کروایا۔ “پنجابی کلچر” کو نمایاں کرنا تو ھر “پنجابی تہوار” پر لازمی ھے۔ اس لیے “پنجابی کلچر” کو صرف ایک دن کی تقریب تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔
چونکہ 14 مارچ پر 1 چیت ھوتی ھے اور نیا پنجابی سال شروع ھوتا ھے۔ اس لیے پنجاب حکومت کا 14 مارچ کو پنجاب میں “Punjabi Happy New Year” اور “Punjabi Culture Day” کے بجائے “Punjab Culture Day” منانا پنجابی قوم کے ساتھ ظلم و زیادتی بھی ھے اور پنجابی قوم کے خلاف پنجاب کے بلوچ وزیر اعلی کی سازش بھی ھے۔
سندھی بھی کلچر ڈے مناتے ھیں۔ بلوچ بھی کلچر ڈے مناتے ھیں۔ پشتون بھی کلچر ڈے مناتے ھیں۔ ھندوستانی مھاجروں کا “گنگا جمنا کلچر” تو ویسے ھی پاکستان کا قومی اور سرکاری کلچر قرار دیا ھوا ھے۔ اس لیے پاکستان کے قومی کلچر ڈے اصل میں “گنگا جمنا کلچر ڈے” ھی ھوتے ھیں اور “گنگا جمنا کلچر” سارے پاکستان پر چھایا ھوا ھے۔ لیکن ابھی تک پنجابیوں نے “پنجابی کلچر ڈے” پاکستان کی سطح پر منانا شروع نہیں کیے۔
پنجابی کلچر دنیا کے قدیم ترین اور امیر ترین کلچروں میں سے ایک ھے۔ اس کا تنوع اور انفرادیت پنجابی شاعری ‘ فلسفے ‘ روحانیت ‘ تعلیم ‘ آرٹ ‘ موسیقی ‘ کھانے ‘ سائنس ‘ ٹکنالوجی ‘ فوجی جنگوں ‘ فن تعمیر ‘ روایات ‘ اقدار اور تاریخ میں واضح ھے۔
پنجابی خوشی سے پیار کرنے والے اور زندہ دل لوگ ھیں۔ ھر ایک پنجابی تہوار کو منانے کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ھیں اور ھر پنجابی تہوار پر “پنجابی کلچر” کو نمایاں کرتے ھیں۔ پنجابی تہوار پر پنجابی مرد و خواتین کے معروف لوک رقص بھنگڑا ‘ کرتھی ‘ جندھوا ‘ دنداس ھوتے ھیں۔ جبکہ پنجابی لڑکیوں کے لوک رقص سمی ‘ گدا ‘ جاگو ‘ ککلی ‘ لڈی ھوتے ھیں اور مردوں کے لوک رقص دھمال ‘ ملوائی گدا ‘ جھومر ‘ ‘ مرزا ‘ سیالکوٹی ‘ جگنی ‘ کھچن ‘ ڈنکارا ‘ گٹکا ھوتے ھیں۔
یکم چیتر کو نیا پنجابی سال شروع ھوتا ھے۔ نیا پنجابی سال پنجابیوں کا Happy New Year ھوتا ھے۔ جبکہ پنجابی بہت سارے موسمی تہوار جیسے بیساکھی ‘ دیوالی ‘ لاھوری ‘ بسنت (پتنگ بازی) اور بہت سے دیگر تہوار بھی مناتے ھیں۔ اس لیے کہتے ھیں کہ؛ پنجابیوں نے “پنجابی کلچر ڈے” باقاعدگی کے ساتھ پاکستان کی سطح پر منانا شروع کیے تو پاکستان نہیں رھنا۔
پاکستان نہیں رھنا سے مراد یہ نہیں ھے کہ؛ پاکستان میں سے زمین کے کسی حصے نے ویسے ھی الگ ھوجانا ھے۔ جیسے مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کا حصہ الگ ھوگیا تھا اور بعد میں مغربی پاکستان کا نام پاکستان کرنا پڑا۔
پاکستان نہیں رھنا سے مراد ھے کہ؛ پنجابیوں نے “پنجابی کلچر ڈے” باقاعدگی کے ساتھ پاکستان کی سطح پر منانا شروع کیے تو پنجاب کی سب سے بڑی آبادی ‘ خیبر پختونخوا کی دوسری بڑی آبادی ‘ بلوچستان کے پختون علاقے کی دوسری بڑی آبادی ‘ بلوچستان کے براھوئی علاقے کی دوسری بڑی آبادی ‘ سندھ کی دوسری بڑی آبادی ‘ کراچی کی دوسری بڑی آبادی پنجابی کے ھونے کی وجہ سے پھر پاکستان نے لگنا ھے کہ “پنجابستان” بن گیا ھے۔
پاکستان میں پنجابی کی آبادی چونکہ %60 ھے۔ اس لیے زراعت ‘ صنعت ‘ تجارت ‘ سیاست ‘ صحافت ‘ ھنرمندی کے شعبوں ‘ بری و بحری و فضائی افواج اور سول سروسز کے محکموں ‘ تعلیمی اداروں جبکہ بڑے بڑے شھروں میں سماٹ ‘ براھوئی ‘ گلگتی بلتستانی ‘ کوھستانی ‘ چترالی ‘ سواتی ‘ گجراتی ‘ راجستھانی ‘ پٹھان ‘ بلوچ اور ھندوستانی مھاجر کے مقابلے میں؛ پنجابی چھائے ھوئے نظر آتے ھیں۔ لیکن پنجابیوں نے “پنجابی کلچر ڈے” باقاعدگی کے ساتھ پاکستان کی سطح پر منانا شروع کردیے تو پھر؛
1۔ پنجابی زبان اور پنجابی ثقافت نے بھی پاکستان میں ھر جگہ چھایا ھوا ھی نظر آنا ھے۔
2۔ پنجابی قوم کو اپنے قدیم تاریخی پس منظر ‘ شاندار تہذیبی ورثے اور عظیم شخصیات سے بھی آگاھی ھونا شروع ھو جانی ھے۔
3۔ پنجابی قوم میں اتفاق ‘ اتحاد اور اعتماد مزید بڑھ جانا ھے۔
4۔ پنجابی قوم نے مزید منظم ‘ متحد اور مظبوط قوم بن جانا ھے۔
اس لیے پاکستان کا آئینی نام تو پھر بھی پاکستان ھی رھے گا۔ جبکہ پاکستان نے سماجی اور سیاسی طور پر مستحکم ‘ معاشی اور اقتصادی طور پر ترقی یافتہ ‘ انتظامی اور دفاعی طور پر بہترین ملک بن جانا ھے۔ لیکن عملی طور پر پاکستان نے “پنجابستان” بن جانا ھے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...