فزکس میں حاصل ہونے والی پے در پے کامیابیوں کی وجہ سے 1980 کی دہائی فزکس میں optimism کے عروج کا دور تھا۔ زیادہ تر سائنسدان یہ یقین رکھتے تھے کہ بیسیویں صدی میں ایسی آخری تھیوری مل جائے گی جو سب کھلے سوالات کے جواب دے دے گی۔ اگلا قدم اور اگلا بڑا تجربہ واضح تھا۔ جاپان میں اپریل 1983 میں ایک متروک کان میں زمین کی سطح سے ساڑھے تین ہزار فٹ نیچے بہت بڑا فولادی ٹینک بنایا گیا۔ اس میں پچاس ہزار ٹن الٹراپیور پانی بھر دیا گیا۔ اس میں تیرہ ہزار ویکیوم ٹیوب لگائی گئیں۔ (اس ٹینک کی تصویر ساتھ لگی ہے)۔ اب ڈیٹکٹر پر سگنل نمودار ہونے کا انتظار تھا۔ یہ کیا اور کیوں کیا جا رہا تھا؟ اس کے نتائج سے پہلے اس کا پس منظر دیکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سٹینڈرڈ ماڈل میں تین فورسز کو ایک اصول کے الگ اظہار کے طور پر سمجھا جا چکا تھا۔ اور یہ واضح نظر آتا تھا کہ ان کو یکجا ہونا ہے۔ تمام ذرات کو یکجا کرنے کے لئے زیادہ بڑی سمٹری کی ضرورت تھی۔ ان کو یکجا کر کے ان پر گیج پرنسپل کا اطلاق کیا جائے تو پھر تین فورسز برآمد ہو جائیں گے۔ ذرات اور فورسز میں تفریق کرنے کے لئے، اس طرح سے سیٹ کئے جانا تھا کہ نتیجے میں پیدا ہونے والی سمٹری غیرمستحکم ہوتی جبکہ اس کو ٹوٹ کر بننے والی مستحکم configuration میں سمٹری نہ ہوتی۔ ہم پہلے ہی دیکھ آئے ہیں کہ نیچر میں سمٹریکل صورتحال عام طور پر غیرمستحکم ہوتی ہیں۔ یہ سمٹری جب ٹوٹتی، تو ہمیں اپنی کائنات کے پارٹیکل مل جاتے۔ تینوں فورسز وہی خاصیتیں رکھتیں جن کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔
گرینڈ یونی فیکیشن کا آئیڈیا نہ صرف تمام فورسز کو اکٹھا کرتا ہے بلکہ کوارک (پارٹیکل جن پر سٹرونگ فورس کا راج ہے) کو لیپٹان (پارٹیکل جن پر الیکٹروویک فورس کا راج ہے) میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اور یوں دو بنیادی قسم کے پارٹیکل یکجا ہو جاتے ہیں۔ ہمارے پاس صرف ایک ہی طرح کا پارٹیکل اور ایک ہی گیج فیلڈ رہ جاتا ہے۔ اس گرینڈ یونی فیکیشن کا سادہ ترین امیدوار ایک سمٹری تھی جو SU(5) ہے۔ اس نام کا مطلب یہ ہے کہ پانچ اقسام کے پارٹیکل اس سمٹری میں ترتیب پاتے ہیں۔ تین کلرڈ کوارک اور دو لیپٹان (الیکٹرون اور نیوٹرینو)۔ نہ صرف یہ کوارک اور لیپٹان کو یکجا کرتی ہے بلکہ بے مثال خوبصورتی سے یہ کام ہوتا ہے اور اس کی بنیاد پر انتہائی اختصار سے سٹینڈرڈ ماڈل کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ اس سے بھی زبردست؟ نہ صرف یہ سٹینڈرڈ ماڈل کی تمام پیشگوئیوں کی وضاحت بھی کرتی ہے بلکہ نئی پیشگوئیاں بھی کر سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان نئی پیشگوئیوں میں سے ایک یہ ہے کہ ایسے پراسس ہونے چاہیئں جو کوارک کو الیکٹرون اور نیوٹرینو میں تبدیل کر سکیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس سمٹری میں کوارک الیکٹرون اور نیوٹرینو ایک ہی قسم کے پارٹیکل کے مختلف مظاہر ہیں۔ اور جیسا کہ ہم پہلے بارہا دیکھ چکے ہیں کہ جب دو اشیا یونی فائی ہوتی ہیں تو نئے فزیکل پراسس ہونے ضروری ہیں جن کی مدد سے یہ ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکیں۔ SU(5) ایسے پراسس کی پیشگوئی کرتی ہے۔ یہ پراسس تابکاری میں ہونے والے ڈیکے کی طرح ہے۔ یہ بہت شاندار پیشگوئی ہے۔ (اور یہ کسی بھی یونی فیکیشن کا خاصا ہے)۔ تھیوری اس کی موجودگی کا تقاضا کرتی ہے اور اس تھیوری کے سوا کسی بھی اور طرح سے یہ حاصل نہیں ہو سکتی۔ یعنی اگر یہ ہمیں مل جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے صرف تھیوری کی بنیاد پر ایک حیرت انگیز پیشگوئی کی۔ سوال فطرت کے آگے رکھا۔ اگر فطرت نے اثبات میں سر ہلا دیا تو ہمارا کام ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوارک کے الیکٹرون اور نیوٹرینو میں ڈیکے ہونے کے ایسے نتائج ہیں جن کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسا پروٹون جس میں ایسا کوارک ہو، اب پروٹون نہیں رہا۔ یہ مزید سادہ چیزوں میں بدل گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پروٹون مستحکم نہیں، ڈیکے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں کہ یہ عام ہو، ورنہ ہماری دنیا جلد ہی ختم ہو جاتی۔ کیونکہ اس دنیا کی ہر مستحکم شے پروٹون سے بنی ہیں۔ اگر پروٹون ڈیکے ہوتے ہیں تو اس کی رفتار سست ہونی چاہیے۔ اور تھیوری کی اگلی خوبصورتی یہ تھی کہ اس کی بھی بالکل یہی پیشگوئی تھی۔ اس کا ریٹ 10^33 برس تھا (ایک کے آگے تینتیس صفر)۔
اگرچہ ریٹ انتہائی نایاب ہے لیکن اس پر تجربہ ڈیزائن ہو سکتا ہے کیونکہ دنیا میں پروٹون بہت سے ہیں۔ ہمارے پاس بہترین یونیفائیڈ تھیوری تھی۔ اس کے نتائج کسی بھی ایسی چیز سے تضاد نہیں رکھتے تھے جن کو ہم جانتے ہیں اور اس اضافی تجربے سے اس کی اپنی تصدیق بھی کی جا سکتی تھی۔ پھر دیر کس بات کی؟ کیوں نہ تجربہ کر لیا جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم بہت بڑا ٹینک بنا لیں جس کو الٹراپیور پانی سے بھر لیں۔ اس امید پر کہ اتنے زیادہ تعداد میں پروٹون ہوں گے تو سال میں چند بار ایسا ہو گا۔ پروٹون کا ڈیکے بہت سی توانائی پیدا کرے گا تو ہمین اس ٹینک کے گرد بہت سے ڈیٹکٹر لگانے ہیں اور انتظار کرنا ہے۔ اس ٹینک کو ہمیں کاسمک شعاعوں سے بچانا ہو گا کیونکہ ان شعاعوں کی بمباری زمین پر مستقل ہو رہی ہے اور یہ پروٹون کو تباہ کر سکتی ہیں۔ اس وجہ سے یہ زیرِ زمین بنائے گئے اور شیلڈ کئے گئے ہیں۔
اس تجربے کے لئے فنڈ مل گئے۔ بہت بڑے ٹینک زیرِزمین بہت ہی گہری کانوں میں بنائے گئے۔ بے صبری سے انتظار کیا جانے لگا۔ ایسا واقعہ فزکس کے لئے بہت بڑی خبر ہوتا۔ یہ گرینڈ یونی فیکیشن کی تصدیق کر دیتا۔
ایک سال گزرا اور دو، تین اور چار ۔۔۔ توقع امید میں بدلی، امید آس میں۔ چار دہائیاں برس گزر گئے۔ پروٹون ڈیکے نہیں ہوا۔ ایک بار بھی نہیں۔ اگلی دہائی تک بھی یہ انتظار جاری رہے گا۔ اس کے بعد شاید کسی اور سمت دیکھنا پڑے گا۔ (اس تجربے سے پروٹون ڈیکے تو نہیں ملا لیکن نیوٹرینو کی سٹڈی میں مدد ملی ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اتنی دیر گزر چکی ہے کہ ہم بہت اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ SU(5) گرینڈ یونی فیکیشن غلط تھی۔ یہ بہت خوبصورت خیال تھا لیکن فطرت نے اس کو نہیں اپنایا۔
ایڈورڈ فرحی، جو ایم آئی ٹی میں تھیوریٹیکل فزکس سنٹر کے ڈائریکٹر تھے، کہتے ہیں کہ، “میں بڑی سے بڑی شرط لگانے کو تیار تھا کہ پروٹون ڈیکے ہو گا۔ یہ اتنی خوبصورت تھیوری تھی۔ ہر شے معمے میں فٹ ہو رہی تھی۔ لیکن یہ ٹھیک نہ نکلا۔ اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی مجھے یقین نہیں آتا کہ یہ تھیوری غلط ہو سکتی ہے۔ یہ کیسے ہو گیا؟ پارٹیکل فزکس کیلئے یہ ٹرننگ پوائنٹ تھا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھیورٹیکل فزکس میں یہ بڑی مایوسی تھی۔ اس کی ناکامی کی وضاحت کیلئے نئی سمٹری اور پارٹیکلز کا اضافہ کیا گیا۔ کانسٹنٹ ایڈجسٹ کئے گئے۔ اس بارے میں ایک کے بعد اگلی پیشگوئی کی تصدیق تجربے سے نہیں ہو سکی۔ کانسٹنٹ مزید تبدیل کئے جا سکتے ہیں۔ مزید وضاحت کی جا سکتی ہے۔ اس واقعے کو آسانی سے مزید نایاب بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے جو نقصان پہنچنا تھا، وہ ہو چکا ہے۔ ایک گہرے خیال سے کی گئی زبردست اور منفرد پریڈکشن کی ہو جانے والی تصدیق سے زیادہ شاندار کیا ہو سکتا تھا۔
اگر گرینڈ یونی فیکیشن درست ہے لیکن پیچیدہ ہے اور پروٹون ڈیکے کا ریٹ کچھ بھی ہو سکتا ہے تو اس کی وضاحتی طاقت ختم ہو جاتی ہے۔ اگر بالفرض یہ آئیڈیا خود میں درست ہے تو اپنی کسی نئی شکل میں نئے وضاحت طلب کانسٹنٹ متعارف کروا دے گا، جو تجربے کے تھیوری سے غیرمتفق ہونے کو ٹھیک کرنے کیلئے ہاتھ سے ایڈجسٹ کئے گئے ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم پارٹیکل اور فورس کو یکجا کرتے ہیں تو کسی غیرمستحکم چیز کو متعارف کرواتے ہیں۔ یہی پراسس اس یونی فیکیشن کا ثبوت ہوتے ہیں۔ سوال صرف اتنا ہے کہ کیا ہمارا خیال ٹھیک ہے یا نہیں۔ سٹینڈرڈ ماڈل نے بالکل غیرمبہم پیشگوئیاں کی تھیں جن میں ہر ایک کی جلد تصدیق ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اتنا اہم کیوں ہے؟ اگر پروٹون واقعی مستحکم ہے اور واقعی کبھی ڈیکے نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سٹینڈرڈ ماڈل سے آگے کے بہت سے خیالات غلط ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گرینڈ یونی فیکیشن کی تھیوریاں، سپرسمٹری، سپرگریویٹی اور سٹرنگ تھیوری سمیت کئی خیالات ہماری کائنات کی وضاحت نہیں کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فزکس میں 1780 سے لے کر 1970 کی دہائی تک ہمیں ہر اوسطاً ہر دہائی میں ایک بڑا آئیڈیا نظر آتا ہے جس کا تعلق فاونڈیشنل فزکس سے ہے۔ تجربے اور تھیوری کا ایک سائیکل ملتا ہے۔ اس کے بعد سے کوئی بھی ایک بڑا آئیڈیا نہیں ہے۔ پچھلی نصف صدی میں کور فزکس کی بڑی دریافتوں میں نیوٹرینو کا ماس اور سٹینڈرڈ ماڈل کی تجرباتی تصدیق ہی کہی جا سکتی ہے۔
یہ وہ وجہ ہے کہ لارج ہیڈرون کولائیڈر سے بہت توقعات وابستہ تھیں۔ اس کے آغاز سے پہلے بہت سے بڑے سائنسدانوں نے شرطیں لگائی تھیں کہ کیا کچھ نیا دریافت ہو گا۔ اس کے آپریشن کے آغاز سے پہلے تبصرہ کرتے ہوئے لی سمولن نے 2007 میں کہا۔
“لارج ہیڈرون کولائیڈر سے بڑی توقعات وابستہ ہیں کہ یہ ہمیں پارٹیکل فزکس کے موجودہ بحران سے نکالے گا۔ سب سے پہلے تو اس میں ہم ہگز پارٹیکل دیکھنا چاہیں گے۔ لیکن جو آئیڈیا سب سے زیادہ داوٗ پر لگا ہے، وہ سپرسمٹری ہے۔ اگر لارج ہیڈرون کولائیڈر نے سپرسمٹری دیکھ لی تو یقینی طور پر نوبل پرائز ملیں گے۔ اگر نہ ہوا تو پھر سب کیلئے ناکامی کی ٹوپیاں ہیں۔ اس تصور کے موجدین کیلئے نہیں کیونکہ نئی قسم کی تھیوری ایجاد کرنے میں کوئی شرمندگی کی بات نہیں لیکن میری جنریشن کے ان تمام سائنسدانوں کیلئے جنہوں نے اپنا تمام کیرئیر اس تھیوری کو آگے بڑھانے میں لگایا ہے۔
ہمیں لارج ہیڈرون کولائیڈر میں کیا دیکھنے کو ملے گا؟ تھیوریٹیکل فزکس میں ہمارے پاس تیس سال تھے کہ ہم مشین کے کام شروع کرنے پر اس بارے میں تیار ہوتے۔ کیا ہم تیار ہیں؟ بالکل نہیں۔
یہ حیران کن ہے کہ ہمارے سیارے کے ہزاروں ذہین ترین انسان اس میں ناکام رہے ہیں کہ کوئی اچھا اندازہ لگا سکیں کہ تجربات سے آخر ہم توقع کیا رکھتے ہیں۔ کوئی واضح پیشگوئی نہیں ہے۔ آپسی مقابلے میں کوئی تھیوریز نہیں ہیں جن کو ٹیسٹ کیا جا سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ مشین بنیادی طور پر امید پر چلائی جا رہی ہو گی”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ وجہ ہے کہ لارج ہیڈرون کولائیڈر سے کچھ بھی نیا نہ ملنا ایک مایوس کن خبر تھی۔ پچاس سال پہلے کے ہمارے بڑے سوالات بالکل ویسے ہی کھلے پڑے ہیں۔
برائن گرین اس بارے میں 2021 میں اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں۔
“جب میں طالبعلم تھا تو ہر ایک کو سپرسمٹری کے درست ہونے کا یقین تھا۔ بحث صرف یہ تھی کہ یہ کس شکل میں ملے گی۔ میرے اپنے کیرئیر کے تقریباً تمام پیپر سپرسمٹری کی ازمپشن پر لکھے گئے ہیں۔ اس میں تجرباتی ناکامیوں کے بعد مجھے اب اتنا یقین تو نہیں لیکن شاید میں اس خیال کو ترک نہ کر سکوں”۔
اس سے سوال نکلتا ہے کہ آنے والی برسوں میں کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ آئندہ دہائیوں کی فزکس میں ممکنہ راستوں کے لئے یہ دلچسپ وقت ہے، کیونکہ انٹلکچوئل لحاظ سے زرخیز وقت وہی ہوتا ہے جب پچھلے خیالات کام نہ کر رہے ہوں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...