سب سے پہلے یاد رکھیں جب خلافت عثمانیہ کی حکومت فلسطین میں تھی تو بیت المقدس کی زمین مسلمانوں کے لیئے وقف ہوتی تھی اور اس کا خرید و فروخت ممنوع تھا
اسے الارض المقدسة کے نام سے پکارا جاتا تھا
جو مسلمان بیت المقدس میں رہتا تھا اس کے اور عثمانی خلافت کے درمیان میں ایک عقد contract ہوتا تھا
اس کے کئی شروط ہوتے تھے جیسے کہ وقف اور اس زمین کی خرید و فروخت نہیں ہوگی
انہیں اس زمین سے زبردستی بے دخل نہیں کیا جائے گا وغیرہ وغیرہ
اس کونٹریکٹ کا نام (کوشان) کے نام سے مشھور تھا
یہ دستاویزات کے ساتھ ایک چابی پر بھی محمول ہوتا تھا
اسی طرح ایک فرد کے پاس ایک سے زیادہ کوشان بھی ہوتے تھے
یاد رہے فلسطین میں مسلمانوں سمیت یھودی اقلیت میں بھی بستے تھے جن کی کل آبادی %3 فیصد تھی
خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد برطانیہ جب قابض ہوا تو انگریز نے قابض کے بجائے لفظ (انتداب) mandate کا اصطلاح استعمال کیا اور یہ باور کروایا کہ گویا عثمانی قابض تھے ہم آزادی دلوانے آئے ہیں
عثمانیوں نے فلسطین سے نکلتے وقت کوشان کے دستاویزات جو ان کے مالکان تھے ان کے حوالے کیئے اور جو مالکان جلد بازی یا مسائل کی وجہ سے نہیں مل سکے ان کے دستاویزات عراقی شاہ فیصل کے حوالے کردیئے گئے تھے جو بعد ازاں شاہ فیصل نے اردن کے موجودہ بادشاہ کے دادا عبداللہ الأول کے حوالے کردیئے تھے
برطانوی قبضے کے بعد برطانیہ نے دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین میں اکٹھا کرنا شروع کیا اور زمینیں ان کے حوالے کرنی شروع کردیں
ظاہر ہے جب حکومت نہیں رہی ریاست نہیں رہی تو برطانوی حکومت کوئی بھی جھوٹ گھڑ لے کیا فرق پڑتا ہے
سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ اردن کے شاہ عبداللہ الأول نے کوشان کے دستاویزات برطانیہ کو بیچے تھے یا اپنی وفاداری میں ان کے حوالے کیئے تھے
اور جو موجودہ دستاویزات ہیں وہ صرف وہی منظر عام پر آسکے جو فلسطینیوں کے خود کے پاس تھے
1924 سے لے کر 1948 تک برطانیہ یہودیوں کو فلسطین میں جمع کرتا رہا اور نکلنے سے پہلے اسرائیل مملکت کا اعلان کرکے نکلا جبکہ فلسطینیوں کے پاس کوئی سلطنت تھی نہ ریاست نہ حکومت نہ فوج نہ عدلیہ
بس دنیا میں ایک نام تھا کہ فلسطین ایک ملک ہے
اور اگر کسی کو اپنی زمین حاصل کرنے کے لیئے انصاف کی ضرورت تھی تو تب بھی ان کے سامنے صرف اسرائیلی عدالتیں عفریت بن کر کھڑی تھیں
ایسی صورت میں اپنی زمینیں بیچنے والا بیانیہ اور عثمانی کوشان دستاویزات کے بجائے برطانوی دستاویزات کو مصدر موثوق سمجھ کر فیصلہ کرنا کہ فلسطینیوں نے اپنی زمین خود بیچی سوائے اسرائیلی اور برطانوی استعماری بیانیئے کے سوا کچھ نہیں
اور جو بھی ایسا کہتا پایا جائے ان کے منہ پر یہ تھپڑ رسید کرنا چاہیے کہ عثمانی کوشان دستاویزات پر بات کرو
اسرائیلی اور برطانوی دستاویزات ناقابل قبول ہیں
جو فلسطینی اپنے زمین کی خاطر سینے پر گولی کھاسکتا ہے وہ اپنی زمین کو یہودیوں کو کیسے بیچ سکتے ہیں ؟
دوسری بات جو زمین فلسطینیوں کے لیئے بیچنا ممنوع تھا وہ یہودیوں کو کیسے بیچا جاسکتا تھا؟؟
“