معروف اینکر اوریا مقبول جان نے تمنا ظاہر کی ہے کہ جس طرح ہالی ووڈ میں مغربی جنگجووں پر فلمیں بنتی ہیں ویسے ہی پاکستان میں مسلم جنگجووں پر فلمیں بنیں۔ ہالی ووڈ میں تو سائنسدانوں پر بھی فلمیں بنتی ہیں۔ ایسی کبھی کوئی تمنا اوریا ٹائپ لوگوں کو نہیں ہوئی۔ ان کے ہیرو صرف جنگجو ہیں اوریا مقبول جان بالکل بے خبر ہیں غالبا” یہ ۸۰ کی دہائی اور ۹۰ میں سروس میں تھے اور پاکستان میں ایسے ڈرامے اور فلمیں بنتی رہی ہیں حیدر علی (محمد علی) ، ٹیپو سلطان (محمد علی) ، تعبیر (پی ٹی وی ) ، آخری چٹان (پی ٹی وی – اس میں طلعت اقبال میانوالی کی کھیڑی پہن کر عرب بنے تھے)۔
پی ٹی وی کا بنو عباس کی خلافت پر ڈرامہ “آبگینے” غالبا” انور مقصود کی بہن فاطمہ ثریا سے سرزد ہوا تھا ۔ اوریا اسلامی فلموں اور ڈراموں کا مطالبہ کررہے ہیں ملاحظہ فرمائیں عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے زنا کو حلال کرنے کا فتوی لیا امام ابو یوسف سے (حوالہ “تاریخ الخلفاۂ از سیوطی”)
قاضی ابو یوسف اور دیگر فقہاء بغداد و کوفہ کے کارنامے جاننے ہوں تو پیر بدیع الدین شاھ راشدی کی “حقیقت فقہ” اور امام ابن قیم کی اعلام الموقعین “ ملاحظہ ہو کہ کیسے “عباسی دور” میں سرکاری مولویوں نے قرآن و حدیث سے بغاوت کرتے ہوئے بادشاہوں کے لیئے حیلے کے زریعے حرام کو حلال کیا۔
اوریا مقبول جان کو شاید عباسی خلفاء ہر پی ٹی وی کا ڈرامہ “آبگینے” یاد نہیں۔ شکیل ہارون الرشید بنے تھے شکر ہے کہ اس میں ہارون الرشید کو امام یوسف سے زنا کو حلال کرنے کا فتوی لیتے نہیں دکھایا (بحوالہ تاریخ بغداد از خطیب بغدادی اور تاریخ الخلفاء از سیوطی) اور ایسے جنگی ڈرامے اور فلمیں بناکراس وقت ہم نے کون سا ایسا معرکا مار لیا تھا جو اب ماریں گے؟ نور الدین زنگی (پی ٹی وی) شاہین (اسپین میں مسلمانوں کی حکومت پر پی ٹی وی کی واہی تباہی بکواس) ، محمد بن قاسم (پی ٹی وی جس میں بابر علی ابن قاسم بنا تھا) اور اسی قسم کے واہی تباہی بے سراپا ڈرامے اور فلمیں ایران ، شام اور اردن نے بھی بنائے تو انہوں نے کفار و مشرکین کا کیا “اکھیڑ” لیا جو ہم ڈرامے اور فلمیں بناکر اکھیڑ لیں گے – پاکستانیوں کو چاہئیے کہ ظلماں کنگ کی طرح اسی کی طرز پر فلمیں اور سیریز بنائیں کوئی گھر سے نہ نکلے گا۔
۶۰ اور ۷۰ کے پان اسلام ازم کے رومانوی دور میں پاکستان میں غالبا” شان کے ابو نے مشرق وسطی پر “شہید” اور “زرقا” بنائی تھیں ۔ شہید میں طالش ریگستان کی ریت سونگھ کر تیل تلاش کرتے دکھایا گیا ۔ حبیبی حیا حیا۔
اسپین کے مسلمان دور پر غرناطہ بھی بنی پاکستانی فلم اور اس میں کٹ چھانڑے بازی بھی خوب دکھائی گئی اور آخر میں یوسف خان جو ہیرو تھے انکو دکھایا گیا کہ انکی کمر میں خنجر ہی خنجر گھسے ہوئے ہیں مگر وہ جھنڈا لیئے کھڑے اور لشکر لڑ رہا ہے ۔ چغد مسلمان بالخصوص اپنے مسلمان مؤرخوں کو پڑھ لیں۔
اور تو اور پاکستانی تاریخی ڈرامے اور تاریخی فلمیں اس وقت اور مضحکہ خیز لگتی ہیں جب ذکر شام، بخارا ، ثمرقند اور ازبکستان کا ہورہا ہوتا ہے اور اسکی شوٹنگ گجرانوالہ ، ٹھٹھہ اور مری میں ہورہی ہوتی ہے اور اس پر اتنے بد ہیئت اور کریہہ المنظر پاکستانی عرب، ترک اور منگول بنتے ہیں۔
ماضی قریب میں تاریخی طور پر حقائق سے قریب ترین فلم ۲۰۰۷ میں بننے والی "منگول" تھی جو روس، قازقستان اور جرمنی نے ملکر بنائی اور اس میں چنگیز خان اور منگولوں کو تاریخی طور حقائق سے قریب دکھایا گیا ورنہ ماضی میں پاکستانیوں نے “ظہور احمد” کو چنگیز خان دکھایا جو کہیں سے منگول نہیں دکھے۔
جن لوگوں نے تاریخ، سماجیات، مذہب، ثقافت اور تمدن کو غور سے پڑھا ہے ان پر واضح ہے کہ عرب معاشرہ بنیادی طور پر قبائلی تھا اور سادہ تھا تکلف اور تصنع سے عاری مگر ڈرامے اور فلمیں تو ڈائیلاگ میں لکھنؤ کی طرز کی پھوپھی ، خالہ جان ، ماموں میاں ؟ کیسا تضاد ہے؟
نہ پاکستانی اور نہ ہی بھارتی فلمسازوں و دیگر کو شعور ہے کہ تاریخی موضوع پر فلمیں و ڈرامے کیسے بنائی جائیں کیونکہ دونوں چغد ملکوں کے چغد باشندوں پر حب الوطنی اور جذباتیت اتنی سوار ہوتی ہے کہ فلم و ڈرامے کے تاریخی موضوع کا کباڑہ ہوکر رہ جاتا ہے اور یہی غلطی مغل اعظم میں کے آصف اور رضیہ سلطان میں کمال امروہوی جیسے ماہر فلمسازوں سے ہوئی تو ہماشما کا تو ذکر ہی کیا یعنی جنہوں نے پدماوت اور ابدالی بنائی۔ انہوں نے جہالت انڈیلی بلکہ اس کے مقابلے میں سنجے خان (فیروز خان کے بھائی) نے “مہاڈجی سندھیا” پر بہت ہی اچھی سیریز بنائی۔
ان سب سے بھی زیادہ مضحکہ خیز یہ کہ ان تاریخی ڈراموں میں عرب کرداروں کو سر پر وہ غترہ/شماق/عقال پہنے دکھایا جاتا ہے جو اس وقت کے عربوں میں رائج نہیں تھا بلکہ عمامہ ہوتا تھا ٹوپی کے اوپر- زرا غور سے احادیث میں عربوں کے کتاب اللباس اور کھانے پینے کے ابواب ملاحظہ ہوں
پی ٹی وی کے ڈرامے “شاہین” میں عربوں کو کس قسم کی تلواریں استعمال کرتے دکھایا گیا ہے اس طرز کی تلواریں صلیبی استعمال کرتے تھے- محمد بن قاسم والے ڈرامے میں سبحانی بایونس کو حجاج بن یوسف دکھایا گیا، سبحانی صاحب کافی خوبصورت آدمی تھے ۔ جبکہ حجاج بے انتہا بدصورت کریہہ المنظر تھا۔
اگر میں غلط ہوں تو درست کیجیئے گا کہ لالہ سدھیر نے مرزا غالب کا کردار ادا کیا ہے اور مرزا غالب پر کاری ضرب لگائی ہے – اور یہی لالہ سدھیر پھر Godather کی مزاحیہ پیروڈی “ان داتا” میں Don Vito Corleone بنے ہیں ، Sonny سلطان راہی اور Michael محمد علی تھے اور Diane Keaton ممتاز ۔
اسی طرح لیلی مجنوں پر ایک گانا پاکستان میں بہت مشہور ہو۔ا اب نوٹ فرمائیں کہ لیلی مجنوں خالص عرب داستان ہے مگر پاکستانی گانا ۹۰ فیصد فارسی میں ہے اور انڈین فلموں کا اور برا حال ہے وہاں تمام مسلمانوں کو ہر وقت ٹوپی پہنے اور شرعی سلام کرتے دکھایا جاتا ہے جبکہ پاکستان اور بھارت کے مسلمان شاید ہی مکمل شرعی سلام کرتے ہوں ، اور یہ کہ جو بھی مسلمان بھارتی فلموں اور ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے وہ ۱۹ویں صدی کی پرانی دلی کی ٹکسالی اردو بول رہا ہوتا ہے جوکہ اب اہل زبان کوشش کریں تب بھی نہیں بول سکتے۔
اگر غور سے طبقات ابن سعد ، طبری ، ابن خلدون کی تاریخ ، وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان از ابن خلکان اور اسماء الرجال پر تصانیف اور الذہبی کی سیئر اعلام النبلاء پڑھ لی جائیں تو عرب حلیہ جو پاکستانیوں نے شہزادے سیف الملوک کا تصور کیا ہے چھناکے سے ٹوٹ جائے گا۔
یہ تمام عرب و ایرانی تواریخ میں سیاسی بیانیئے کی آمیزش کی غیر منقسم ہندوستان میں شدید احساس کمتری کا شکار اقلیتی مسلمان حکمران اشرافیہ تھی جنہوں نے اسلامی تاریخ میں دلی کی ٹکسال اور پورا لکھنؤ کے آداب پھوپھی اماں ، خالہ جان ، چچا میاں گھسیڑ دیئے۔
اگر کسی نے Yul Bryner کی فلم Taras Bulba نہیں دیکھی تو دیکھیں اس میں جو Cossacks دکھائے ہیں تو جو مسلمان حملہ آور ہوئے بشمول مغل جو ماورالنہر سے ہندوستان پر حملہ آور ہوئے انکے آداب حرکات و سکنات ویسی ہی نیم وحشیانہ تھیں جن میں ہندوستان میں آمد کے بعد ارتقاء ہوا ۔ اس فلم سے اندازہ ہوگا۔ تاریخی طور پر بھارتی فلم ڈائریکٹر نے اپنی فلم “شطرنج کے کھلاڑی” میں نواب واجد علی شاہ ، اودھ کی تاریخ و ثقافت کیساتھ پورا انصاف کیا اور وہی دکھایا جیسا تاریخ میں ہے یا یوں کہیں کہ قریب ترین تھا
اسی طرح اتر پردیش اور ہمالیہ کی ترائی کے علاقوں کا مشہور تاریخی کردار “سلطانہ ڈاکو” جس پر لالہ سدھیر کو لیکر اردو میں اور Long Duel میں Yul Bruner کو لیکر انگریزی فلمیں میں بنیں ؟ اب کہاں ایک اتر پردیش کا شخص ، کہاں لالہ سدھیر اور کہاں Yul Bryner . سب ہی سٹھیا گئے تھے۔