انیس اور بیس جنوری کی درمیانی رات میں اس دنیا میں نہیں تھا ، کہیں بہت دور ، امریکہ میں چاند گرہن کا حصہ ۔ میری اس دنیا میں واپسی کئ اعتبار سے اچھی نہیں تھی ۔ ایک تو نیوجرسی کی غیر معمولی سردی ، دوسرا کچھ جسم کا روح کا ساتھ نہ دینا اور تیسرا کائنات کا اُلٹا رقص جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔ امریکہ میں ٹرمپ اور ڈیموکریٹز کی لڑائ کو چار ہفتہ ہونے کو ہیں دور دور تک صلح کے امکانات نہیں ۔ ٹرمپ بھی دیوار بنانے والے ایجینڈا پر ہی منتخب ہوا اور ڈیموکریٹز دیوار نہ بنانے کہ ایجینڈا پر۔
انہی وجوہات کی بنا پر دو دن میں بلاگ نہ لکھ سکا اور بہت سارے پڑھنے والوں نے ایک تو وجہ پوچھی اور دوسرا ساہیوال والے ایشو پر میری take ۔ ساہیوال والے ایشو پر میرا بہت ہی سادہ بیانیہ ہے ۔ چونکہ پاکستان میں پچھلے ستر سال سے سِرے سے کوئ نظام ہے ہی نہیں ، لہٰزا اس پر کسی قسم کا کمینٹ بلکل بے سُود ہو گا ۔
آج مجھے میرے میسنجر پر اسپیشل جج اینٹی کرپشن ملتان کی عدالت سے حاضری کے سمن موصول ہوئے جو میری غیر حاضری کی صورت میں وارنٹ ناقابل ضمانت گرفتاری میں بھی منتقل ہونے کے چانسسز ہیں ۔ میرا قصور یہ ہے کہ میں جب ۲۰۰۸ میں چیرمین پنجاب کواپریٹوز بورڈ فار لیکئوڈئشن تھا تو میں نے بحیثیت چیرمین ، سابقہ چیرمین بریگیڈئیر مان کے خلاف کوئ آٹھ عدد پرچہ ۱۵ ارب کی رشوت کے اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ میں کٹوائے ۔ اسی پاداش میں مجھے اور میری فیملی کو لینڈ مافیا کے ہاتھوں بدترین ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا ۔ لاہور ہائیکورٹ کے کواپریٹوز جج چوہدری اعجاز نے نہ ان تمام پرچوں کو جائز کہا بلکہ ریاست پر سنگین ترین ڈاکہ ، ان کی ججمنٹ آج بھی موجود ہے ۔ بریگیڈئیر مان ، جنرل شجاع پاشا کا کورس میٹ ہے اور بہت سارے جرنیلوں کی مٹھیاں گرم کرنے میں پیش پیش ۔ اس زہنی تشدد اور پریشانی میں ، مجھے پہلے اپنے بیوی بچوں کو ۲۰۱۱ میں امریکہ بھیجھنا پڑا اور ۲۰۱۶ سے بزات خود امریکہ میں پناہ لیے بیٹھا ہوں ۔
آج سے کوئ دو ہفتہ پہلے ڈان نیوز کے مطابق جسٹس فرخ عرفان نے بھی میرے خلاف کیس کا کہا ہے ۔ فرخ عرفان کے خلاف میں نے پناما لیکز پر سپریم جیوڈیشل کونسل میں ڈھائ سال سے کیس دائیر کیا ہوا ہے اور پاکستانی نامور وکیل اقبال جعفری اس کی باقاعدہ پیروی کر رہے ہیں ۔ فر خ عرفان نے یہ موقف لیا کہ یہ کیس بدنیتی پر مبنی ہے جس کا ثبوت نزر چوہان کا امریکہ دوڑ جانا اور وہاں غیب ہو جانا ہے ۔ لہٰزا نزر چوہان کے خلاف کیس پہلے سنا جائے ۔
پاکستان میں ہی اسحاق ڈار وزیر اعظم کے تیارے پر اشتہاری ہوا اور آج تک اربوں کھربوں کا ملک کو نقصان پہنچانے کے باوجود لندن میں خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہے ۔ پاکستان کی سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائض عسی نے حدیبیہ کیس میں شریف خاندان کو ولی اللہ گردانا اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے اطہر مناللہ نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کیس میں نیب کو مجرم ٹھہرایا ۔
ہم ۲۰۱۷ میں بندے بھی نہ گن سکے ، حالیہ census ایک بہت بڑا تماشہ تھا ۔
عمران خان پلے بوائے کو نہ صرف پاکستان کا وزیر اعظم بنوایا گیا بلکہ سارے چور اُچکے ، لفنگے اور نوسر باز لوگوں پر ٹیم عمران کی مرضی سے ۲۲ کروڑ عوام پر ٹھونسی گئ ۔ زینب قتل ہوتی ہے تو خاتون اسسٹنٹ کمشنر قصور کے گن مین دو احتجاجیوں کو قتل کر دیتے ہیں ۔ خاتون کو بجائے پھانسی کے تمغوں سے نوازا جاتا ہے اور جو شخص صیحیح سمت تفتیش کو لیجانا چاہتا تھا اسے سپریم کورٹ میں گھسیٹا جاتا ہے اور آخر کار ایک عجیب و غریب کیس میں ہتھ کڑیاں لگائ جاتی ہیں ۔
پاکستان free for all ریاست ہے ۔ آپ کے ہاتھ میں ایک آئ ایس آئ کا ایجنٹ ، ایک پُلسیا اور ایک وکیل ہو تو آپ کسی کو قتل کر سکتے ہیں ، کسی کی بھی املاک پر قبضہ کر سکتے ہیں اور کسی کی بھی ماں بہن اور بیٹی کی عزت تار تار کر سکتے ہیں ۔ ریاست کہ زمہ صرف آپ کو لُوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت کے لیے لیول playing field دینا تھا وہ ریاست پچھلے ستر سال سے فراہم کررہی ہے اور بہت ہی خوش اسلوبی سے ۔ پچھلے دنوں فواد چوہدری نے رانا ثناءاللہ کے کان میں یہی کہا تھا ۔ سب خوش ہیں ، حکمران بھی ، رعایا بھی اور تمام تماشبین ۔
پچھلے دنوں میں امریکہ کی مشیگن اور ہارورڈ کے لاء اسکولز سے فارغ التحصیل ایک اٹارنی کا ناول A Good Killing
کے عنوان سے پڑھ رہا تھا ۔ امریکہ کا عدل کا نظام بھی perfect نہیں اور نہ ہی کسی اور ریاست کا ۔ لیکن پچھلے دو سو سال سے یہ نظام بہتری کی طرف evolve ہو رہا ہے ۔ اس ناول میں الیسن لیوٹا تین عورتوں کے ہاتھوں ایک سیریل قاتل اور pedophile کے قتل کا بطور اٹارنی اینا کے نام سے دفاع کرتی ہے ۔ اس کے نزدیک کوئ بھی vigilante killing کی قانون اجازت تو نہیں دیتا لیکن نظام کو ہائ جیک ہونے سے بچانے کے لیے کئ دفعہ ایسا کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے ۔ اس serial rapist جو کہ فٹبال کا نامور کوچ بھی ہوتا ہے اور ایک چیریٹی بھی چلاتا ہے کو کس طرح لوکل پولیس اور ڈسٹرکٹ اٹارنی ہمیشہ بچاتے آئے ہیں بھی بہت دلچسپ ہے ۔ یہاں تک کہ اس کے قاتلوں کا ٹرائیل جس جج کہ پاس لگتا ہے وہ بھی اس سے نہ صرف مالی فوائد لے چُکا ہوتا ہے بلکہ جب وہ ڈسٹرکٹ اٹارنی ہوتا ہے تو اس کے سارے ریپ کے کیس ناقابل قانونی پیروی قرار دیتا ہے ۔ اور اسی بنا پر بالآخر ایف بی آئ جج کو کام کرنے سے روک دیتی ہے اور ٹرائیل اینا کے حق میں ختم ہو جاتا ہے ۔
لیوٹا نے اس ناول میں تمام کیسوں کا ایک بہت دلچسپ پہلو لکھا ۔ اس کے نزدیک ہر عوامی اہمیت کے کیسوں میں دو ٹرائیل ہو رہے ہوتے ہیں ۔ ایک عدالت کے اندر اور دوسرا باہر ۔ اور اس کیس میں باہر کے ٹرائیل والے جیت جاتے ہیں ۔ اس کے اپنے الفاظ میں ۔
“Outside, the trial was about the failure of the system, the rape kits untested, the child sex abuse charges unbrought, and how one man has managed to victimise so many girls for so long”
اور ایک اور ٹرائیل جو اندر ہو رہا ہوتا ہے
“Inside the killer’s Attorney was prohibited from introducing evidence of the coach’s prior sex assaults.
Outside, anonymous protestors called for the trial to stop, because Judy had killed the right man. Inside Anna tried to convince the jurors that Judy had killed no one .. “
یہ ناول ۲۰۱۵ میں لکھا گیا اور اس پر ایک فلم بنانے کا بھی سوچا جا رہا ہے ۔ اس ناول کے حقائق سچ پر مبنی ہے صرف کرداروں کے نام بدلے گئے ہیں ۔
پاکستان میں بھی اس طرح کی تحریک کی اشد ضرورت ہے ۔ حدیبیہ اور ایون فیلڈ میں inside والے جیت گئے تھے اور جو ٹرائیل outside ہو رہا تھا اسے حدیبیہ کیس میں سپریم کورٹ نے بلیک آؤٹ کروایا تھا اور اطہر مناللہ ولا فیصلہ سوائے ہٹ دھرمی کے کچھ نہیں تھا کہ جو کرنا ہے کر لو ۔
میں اپنے تاریخی اور روحانی علم سے جو بہت واضح دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم سب ۲۲ کروڑ پاکستانی اجتماعی خودکشی پر تُلے ہوئے ہیں ۔ اور بہت خوش اور مطمئن بھی دکھائ دے رہے ہیں ۔ کیونکہ نہ بجلی ہے ، نہ پانی ، نہ نوکری ہے نہ عزت ، نہ تحفظ اور نہ ہی زندگی ۔ اندھیرے ہی اندھیرے ، جی کر کیا کرنا ۔ مولانا حالی کی دہلی کی تباہی پر ایک غزل کے شعر پر ختم کروں گا ۔
مٹ گئے تیرے مٹانے کے نشاں بھی اب تو
اے فلک اس سے زیادہ نہ مٹانا ہرگز
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...