ایک تعلیم یافتہ لبرل امن پسند انسانیت دوست شخص کی حیثیت سے میرا جواب ھوگا۔۔۔یس۔۔ کرنل ناصر جیسا۔۔کرنل قذافی جیسا۔۔کپٹن اتاترک جیسا۔۔ فرانس کے جنرل ڈی گال جیسا۔۔امریکی جنرل آیزن آور جیسا۔۔۔———————————- یعنی جنرل اعظم جیسا۔۔۔۔
وعدے اور ارادے کے مطابق بحالیات ک کام سمیٹنے اور کورنگی کا شہرآباد کرنے کے بعد۔۔ (یا شاید اس سے پہلے)۔۔جنرل اعظم نے کہا"اور کیا حکم ہے میرے آقا؟"۔آپ نے وہ لطیفہ تو سنا ہوگا کہ میرے جیسے کسی "کم مایہ و کم ہمت وکم عقل" شخص کو الہ دین کا چراغ مل گیا ۔جو کام اسے بتایا جاے وہ پلک جھپکتے میں کرے اور پھر سامنے آکھڑا ہوا اور یہ سوال کرے کہ اور کیا حکم ہے میرے آقا؟ پریشانی میں اسے ایک خیال آیا۔اس نے اپنی بیوی کا ایک بال دیا جو گھونگریالے تھے اور کہا"اسے سیدھا کر لاو"۔۔جن لوٹ کے نہیں آیا
لیکن ایوب خاں کے پاس کام بہت تھے اور جواسے معلوم تھا کہ یہی جن کر سکتا ہے۔۔اس نے کہا" پاکستان کا نیا داراؒلخلافہ بنانا ھےاور فلاں جگہ۔۔ "اور ایک سو ایک صفات گنا دیں جو کسی جدید کیپٹل میں ہوتی ہیں۔۔ شاید سوچا ہوگا کہ یہ خالص فوجی دماغ رکھنے والا جدید ٹاون پلاننگ خاک کرے گا ؎ بستی بسانا کھیل نہیں ہے بسستے بستے بستی ہے۔۔ مگر صاحبو۔۔اب یہ ناچیز اسی شھرکے حسن کا اسیر ہے اور ؎ ناطقہ سر بگریباں کہ اسے کیا کہۓ۔
نصف صدی قبل کا منظر میری آنکھوں میں ہے۔ہم لڑکے ( بخدا کبھی میں بھی لڑکا تھا ٗ) گرمیوں کے کسی بھی اتوار کو سایکلوں پر نکلتے تو پنڈی کے "چوک بنی مایؑ ویرو" سے گزر کے ( جہاں دو منزلہ 4 نمبر بس خلاص ھوتی تھی ) اصغرمال روڈ پر آتے تھے۔بنی یہاں کہتے ہیں تالاب کو جو کسی مسماۃ مایؑ ویرو کا تھا۔وہ کبھی تھا شہر سے باہر۔آبادی میں آیا تو اکا دکا واقعات ڈوبنے کے ہوۓ تو اسے بند کر دیا گیا۔ اب اس تالاب میں الیکٹرونکس اور سی ڈی مارکیٹ ھے آگے سید پوری روڈ پرجو سید پور جاتی تھی گورنمنٹ کالج سے آگے ویرانہ تھا،یم پتلی سی سڑک پر دونو جانب کے درختوں سے تازہ پکی خوبانی اور آلو بخارے کھاتے جاتے تھے۔اب نہ وہ سڑک ہے نہ سید پور ہے ۔۔اسلام آباد The Magnificient ہے۔ٹاون پلاننگ کا شہکار۔۔بنایا گیا گھنا جنگل جس میں ترتیب گلستاں ہے۔ملکہؑ کوہسار مری کےپہاڑہیں جن سے (جغرافیے کے اصول کے مطابق) کراچی کے سمندر سے اٹھنے والے بادل 1800 کلومیٹرکی پرواز کے بعد ٹکراتے ہیں تویہاں اتنا پانی برساتے ھیں کہ بارش کا اوسط سب سے زیادہ ہے،درخت اور سبزہ و گل کی فراوانی بڑھتی جاتی ھے۔اسلام آباد کا حسن ملک بھر سے آنے والوں کو مسحور کرتا جاتا ھے
یہ شہربےوفا اعظم خان کو یاد نھیں کرتا۔۔ جو ایک سیدھا سادا فوجی تھا،حکم کی تعمیل کرنا جانتا تھا،جسے ٹاون پلاننگ کا خاک علم نہیں تھا لیکن عقل تھی۔۔قوت ارادی تھی۔پرواز تخیل تھی۔۔یعنی "امے جی نیشن"۔۔ خواب کو تعبیر دینے کی لا محدود صلاحیت تھی مگر ؎ نہ ستایش کی تمنا نہ صلہ کی پروا۔۔ جس کا انجام بہادر شاہ ظفر سے مختلف نہ ہوا۔۔؎ دو گززمین بھی نہ ملی کوۓ یار میں۔۔ نہیں معلوم وہ کہاں دفن ہے ورنہ اس شھربے مثال میں اس کا نام ہوتا ذکر ہوتا۔ یادگار ہوتی۔ شاندار مدفن ہوتا۔تاریخ میں اس کا ذکر ہوتا۔ اس کا یا وارثوں کا کاروبارہوتا۔بیرون ملک اثاثے ہوتے
لیکن اس کے کارناموں کی کہانی ابھی ختم تو نہیں ہوٰیؑ۔۔۔۔۔ پھر اس نے لاہور کا فورٹریس اسٹیڈیم بنایا۔۔عین اس شہر کی تاریخی روایات کے مطابق ۔ مغل طرز تؑمیر کا وہ نمونہ کہ دیکھو تو لگے "انجییڑ بادشاۃ" شاہجہاں نے بنایا ہوگا۔ یہاں اس نے "ہارس اینڈ کیٹل شو" شروؑع کیا جو پاکستان کا سب سے بڑااسپورٹس اینڈ کلچرل شو بن گیا۔۔ وہ کلچر جو واقعی عوامی تھا۔۔جس میں ہر گاوں اور قصبے سے مویشی لاۓ جاتے تھے۔ شہسواری کے مقابلے ہوتے تھے۔ جس میں عوام اور فوج یک جان دو قلب ہو جاتے تھے۔فوج اپنے کمالات دکھاتی تھی۔پیراشوٹ جمپ کے دلیرانہ اور ناقاب ہقین کارنامے۔آرمی کے جوان ایک موتر سایکل پرسوار ہوکے اتے تھے تو اندازہ کرنا مشکل ہوتا تھا کہ آٹھ ہیں دس یا بارہ۔ وہ سولہ ہوتے تھے،آخری اور سب سے پر کشش ہوتا تھا Police Tatoo۔۔اصٹیڈیم مکمل اندھیرے نیں ڈوب جاتا تھا اورسیںکڑوں کی تعداد میں روشنیوں کے ساتھ نمودار ہوتے تھے پھر وہ روشنیاں کیسے کیسے کرتب دکھاتی تھیں لوگ گھپ اندھیرے میں دم بخود بیٹھے رہتے تھے
لیکن اس شو نے وہ کیا تھا جو اب ناممکن ہے۔اس نے گاوں کو شہر سے اور عوام کو فوج سے جوڑ دیا تھا۔۔ہم ایک ہیں کی عملی صورت میں۔۔محض نغموں اور نعروں کی حد تک نہیں۔۔ عملا"۔۔۔ ؎ کیوں حاکم و محکوم میں حایل رہیں پردے۔۔ کی عملی تفسیر ۔۔۔ کیا آج اس یگانگت کا تصور بھی ممکن ھے؟" سول اور ملٹری ایک پیج پر ھیں"
ایسا تو نظر آنا چاہۓ۔۔۔ ۔لیکن اعظم خان کا آخری "جرم" وہ بنا جوسول ا ور ملٹری کی اشرافییہ کیلۓ ناقابل معافی بن گیا، اسے بطور سزا کے تمغہؑ ناپسندیدگی دے کروہاں بہیج دیا گیا تھا جہاں اس کی غیر مقبولیت اور ناکامی یقینی تھی۔اسے مشرقی پاکستان کا گورنر بنا دیا گی۔مجھے نہیں معلوم وہاں اسے کس قسم کی چیلنج درپیش ہوۓ ،میں نے سنا کہ اس نے "دشمنوں" کے دل جیت لۓ۔۔ کیسے۔۔ ؟ پتا چلا کہ وہاں سیلاب نے شہر اور بستیوں میں تباہی مچا دی ھے۔کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ پینے کا پانی دستیاب نہیں۔ایک تو اس نے ذخیرہ اندوزوں کے ٹھکانوں پر قبضہ کیا اورسامان رسد کی مسلسل فراہمی نہ کرنے والون کو نمونہ عبرت بنایا۔پھر تمام واٹر سپلایؑ کے ٹینکرز تحویل میں لۓ اور فوج کو پینے کا پانی سپلایؑ کرنے پر لگایا۔وہ خود اس کام کی دن رات نگرانی کرتا رہا۔لوگوں نے اسے آدھی رات کو بھی دیکھا کہ نیکر پہنے گھٹنے گھتنے پانی میں کھڑا ہے۔اس کے چھاپے سے سب ڈرتے تھے جو وہ آدھی رات کو بھی مار سکتا تھا۔اکیلا بھی۔۔کسی جگہ بھی۔ایک رات اس نے کسی فوجی یونٹ میں دوٹینکر کھڑے دیکھے۔وہ اندر جاکے پوچھنا چاہتا تھا کہ ایسا کیون ہے مگر گیٹ پر کھڑے سنتری نے اسے روک دیا اور شناخت مانگی۔اس نےکہا"میں گورنر ہوں،جنرل اعظم" سنتری نے خاکی نیکر اور سفید بنیان والے پیدل شخص کی بات نہیں مانی،ایسے ہوتے ہیں گورنر اور جنرل؟۔۔اعظم خان نے کہا کی اچھا او سی یا ایڈجوٹنٹ کو بلاو ۔میں یہاں کھڑا ہوں۔ کویؑ افسر آکۓ اٹن شن ہوگیا تو سنتری کی حالت غیر ہوگیؑ کہ ؎ دم واپسیں بر سر راہ ہے۔۔عزیزو اب اللہ ہی اللہ ہے ۔۔ مگر اعظم خان نے اس کو فرض شناسی پر شاباش دی اور اس کی ترقی کردی
بنگالی اس کے دیوانے ہو گۓ اس کا دور حکومت خلافت راشدہ کا نمونہ تھا۔باتیں سن کر یقین نہ آتا تھا۔میرے ایک دوست ضمیرالدین جعفری فلپس کمپنی میں ڈایریکٹر مارکیٹنگ تھے،کمپنی نے ایک بینڈ کا ٹرانسسٹر ریڈیو لانچ کیا سروے کرنا تھا کہ مغربی اور مشرقی حصوں میں کون سا رنگ چلے گا۔وہ ایک صبح گاڑی میں سوکیلنڈر اور سو ریڈیو لے کر آگۓ کہ یہ سوال بنگالی دوستوں سے پوچھنا ھے۔میرے والد کے ملٹری اکاونٹس کے محکمے میں ادھے بنگالی تھے۔ایک کیلنڈر اور ریڈیو دے کر سب سے پوچھا گیا کہ انھیں کون سا رنگ پسند ہے؟ سبز یا نیلا۔۔اور میں حیراں رہ گیا جب سو فیصد بنگالیون نے ھرا رنگ پسند کیا اور سو فیصد مغربی پاکستانیوں نے نیلا رنگ۔ مگر میں نے موقعے سے فایدہ اٹھاتے ہوۓ ایک اضافی سول کر دیا۔کیا یہ سچ ہے کہ جب جنرل اعظم خاں کو کسی ناکردہ گناہ پر معزول کر کے واپس بلایا گیا تو بنگالیوں نے سخت احتجاج کیا وہ اس ٹریں کے سامنے پٹری پر لیٹ گۓ جو اعظم خاں کو لے کر جانے والی تھی۔۔ ؟ یہ حقیقت کیسے ہو سکتی ہے۔۔ مگر خود بنگالیوں نے کہا کہ یہ سچ ھے۔۔۔ پس یہی اس کا جرم ہوا
اعظم خاں کو پہلے کینٹ اور پھر گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ مہمان خصوصی کویؑ بھی ہو۔۔جنرل اعظم کی سواری فورٹریس اسٹیڈیم میں آتی تھی توراونڈ پورا ہونے تک سارا اسٹیڈیم کھڑا رھتا تھا اور تالیوں سے گونجتا رہتا تھا۔یہی وجہ بنی اس کے گھر میں نظر بند کۓ جانے کی۔اس کا گھر اسٹیڈیم کے مقابل مال روڈ کے پیچھے
چھوٹی ذیلی سڑک پر تھا۔ مال کے کونے پر جسٹس انوارالحق کی کوٹھی کے بالکل پیچھے۔میں اٖفس جاتا تو سایکل پر اس سڑک سے گذرتے ہوۓ جنرل اؑظم کو خاکی نیکر اور سفیڈ بنیان میں پودوں کو پانی دیتا دیکھتا تھا۔ایک دن میں ہمت کرکے رک گیا اور اندر جاکے اس سے ہاتھ ملایا اور کہا " سر۔ مجھے آپ سے ملنے کا بہت شوق تھا" اس نے کلایؑ کی گھڑی دیکھی اور کیا"نوجوان۔تم پہلے ھی آفس کیلۓ لیٹ ہو"۔ شاید وہ روز مجھے ایک ھی وقت پر گزرتا دیکھتا تھا۔
اللہ اللہ۔۔۔ کیا یہ جھوٹ ہے؟کہانی ہے؟ پرواز تخیل ہے؟ ایسے انسان ہوتے ہیں ؎
جن سے مل کر زندگی سے پیار ہو جاۓ وہ لوگ
آپ نے دیکھے نہیں ہوں گے مگر ہوتے تو ہیں
اب بتاییۓ کیا آج پاکستان کو ایسا ہی جنرل اعظم پاکستان بنا سکتا ہے یا کویؑ جمہوریت کا خود ساختہ چیمپیؑن۔اور وہ آجاۓ تو جو خلافت راشدہ کو لانا چاہتے ہیں۔ان کو اپنے سامنے اس کا نمونہ نظر نہ آۓؑ گا ؟۔۔۔۔لیکن۔۔ ؎ ایسا کہاں سے لاییںؑ کہ تج سا کہیں جسے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...