کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی تبدیل ہورہی ہے؟
پاکستان کے بارے میں ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ یہاں کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہے ،اگر کوئی خارجہ پالیسی ہے بھی سہی تو فارن آفس میں نہیں ،کہیں اور تیار ہوتی ہے ،کہیں اور کا اشارہ تمام بھائی سمجھ ہی گئے ہو گے ۔گزشتہ چار سال میں تو اس ملک کا کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں تھا ،کہا یہی جاتا تھا کہ نواز شریف وزیر اعظم بھی ہیں اور پاکستان کے وزیر خارجہ بھی ہیں ۔اب جبکہ خاقان عباسی کا دور آیا ہے ،نئے وزیر خارجہ بھی آگئے ہیں ،جنکا نام خواجہ محمد آصف ہے ،نئے وزیر خارجہ کے بیانات سے لگ رہا ہے کہ واقعی ہی پاکستان میں کوئی خارجہ پالیسی ہے ،اگر نہیں بھی ہے تو کم از کم ان کے بیانات سے لگتا ہے کہ وہ نئی خارجہ پالیسی کی تشکیل کررہے ہیں یا ا سکے خدوخال پاکستانیوں اور دنیا کو سمجھا رہے ہیں ۔ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیانات اور بریکس اعلامیہ کے بعد خواجہ آصف صاحب نے نئی لائن لے لی ہے ۔نئی لائن یہی ہے کہ پاکستان کو پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔نیویارک میں ایشاٗ سوسائیٹی کی ایک تقریب تھی ،امریکی صحافی اور مصنف سٹیو کول اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے ،اس تقریب سے خطاب کے دوران خواجہ آصف نے کھل کر اظہار خیال کیا ،یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع تھا جب کسی وزیر خارجہ نے کھل کر ایمانداری اور دیانتداری سے کچھ باتیں کی ،کھل کر نئی خارجہ پالیسی کے خدوخال بیان کئے ۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو حقانی نیٹ ورک اور حافظ سعید جیسے لوگوں سے جان چھڑانے کے لئے کچھ وقت چاہیئے ۔یہ پاکستان کے لئے بوجھ بنتے جارہے ہیں ۔تقریب سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ پاکستان کو حقانی نیٹ ورک اور حافظ سعید کے لئے الزام مت دیں ،یہی لوگو بیس تیس سال پہلے امریکہ کے پیارے تھے ،وائٹ ھاوس میں ان کی آو بھگت کی جاتی تھی،اب دنیا اور امریکہ ہمیں کہہ رہے ہیں کہ جھنم میں جاو،تم لوگوں نے ان کو پال رہے ہو ۔۔۔خواجہ آصف کی تمام باتیں سچی تھی ،ایماندارانہ انداز میں انہوں نے دنیا اور امریکہ کو آئینہ دیکھا دیا کہ حقیقت کیا ہے ۔خیبر پختونخواہ کی ایک سیاسی جماعت کے سربراہ خان ولی خان نے ایک مرتبہ کہا تھا افغانستان کو جس آگ میں جھونک رہے ہو ،افغانستان کے بعد یہی آگ پاکستان میں جائے گی ،آج ویسے خان ولی خان تو سب کو یاد آئے ہوں گے ۔خواجہ آصف نے یہ بھی کھل کر کہا کہ سوویت یونین کے خلاف جنگ کا حصہ بننا غلط تھا ،شکر ہے کہ پاکستان کے کسی وزیر خارجہ نے تسلیم تو کیا کہ افغان جنگ میں شامل ہونا غلطی تھی ،ورنہ تو اس سے پہلے کوئی اس کو قبول کرنے کے لئے تیار بھی نہیں تھا ۔خواجہ آصف کے اس طرح کے بیانات بہت بڑی تبدیلی کا اشارہ دے رہے ہیں ،فوجی اور دفاعی حلقوں کے مطابق پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مستقبل قریب میں بہت بڑی تبدیلی آرہی ہے ۔مجھے بھی یہی لگتا ہے کہ خواجہ آصف اس طرح کی باتیں طاقتور حلقوں کی رضا مندی کے بغیر نہیں کرسکتے ،وہ یہ سب کچھ طاقتور حلقوں کی رضامندی سے ہی کہہ رہے ہیں ۔خواجہ آصف نے ایشاٗ سوسائیٹی سے خطاب میں یہ بھی کہا کہ یہ کہنا آسان ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک اور حافظ سعید کی مدد کررہا ہے ،،اتفاق کرتا ہوں کہ یہ پاکستان پر بوجھ ہیں ،مگر پاکستان کو ان سے جان چھڑانے کے لئے وقت دیا جائے ،کیونکہ پاکستان کے پاس ان سے جان چھڑانے کے لئے وسائل نہیں ہیں ۔امریکہ اور دنیا تو الٹا پاکستان پر بوجھ بڑھا رہے ہیں ۔خواجہ آصف نے جس مضبوطی سے یہ لائن پکڑی ہوئی ہے اس سے تو لگتا ہے کہ بوجھ سے جان چھڑوانے کے لئے حکومت پاکستان ،ریاست اور طاقتور حلقے زہنی طور پر تیار ہو رہے ہیں ۔عالمی مبصرین اور پاکستان کے چند نایاب تجزیہ کار بھی کہہ رہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آرہی ہے ۔خواجہ آصف نے کہا کہ یہ بوجھ ہیں ،ہم ان کو بھگت رہے ہیں ،دنیا نے اگر ہماری مدد نہ کی تو وہ بھی اس بوجھ کو بھگتے گی۔تیس سال سے کبھی ایسی باتیں نہیں کی گئی ،سب انکاری تھے ،مگر اب ایسا کہا جارہا ہے ،اپنا گھر ٹھیک کرنے کی بات ہو رہی ہے گزشتہ برس سیکیورٹی میٹینگ کے دوران نواز شریف نے بھی یہی کہا تھا کہ اگر ہم نے حقانی نیٹ ورک کو نہ نکالا تو پاکستان کی امداد بھی بند ہو جائے گی اور پاکستان پر پابندیاں بھی لگ جائیں گی ،یہ بیان ڈان لیکس کی شکل میں لیک ہوا ،اور آگے ڈان لیکس کے بعد جو ہوا ،وہ تمام کہانی ہمارے سامنے ہے ،نواز شریف وزیر اعظم نہ رہے اور بلا بلا ۔۔۔اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے یقینا کوئی بہت بڑا اشارہ ملا ہے جس کی وجہ سے خواجہ صاحب دبنگ بیانات دے رہے ہیں ،خواجہ آصف ایسی باتیں کررہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بھی ردعمل نہیں آرہا ،اس کا مطلب ہے سب آن بورڈ ہیں ۔اب دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے ،فی الحال میری طرف سے بس اتنا ہی ۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔