کیا پاکستان کا مطلب صرف مسلمان پاکستانی؟
چودہ اگست کو گزرے تین دن ہو گئے ہیں ،لیکن 14 اگست کے اثرات ابھی بھی باقی ہیں ۔اس لئے یوم پاکستان کے حوالے سے گفتگو کو جاری رکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔یاد دہانی کے لئے ایک بات کہنا ضروری سمجھتاہوں کہ جس ملک میں ہم رہتے ہیں ،اس ملک کا نام پاکستان ہے ،یہاں مسلمانوں کے علاوہ ہندو،سکھ ،عیسائی اور باقی اقلیتیں بھی آباد ہیں ۔مسلمانوں کے علاوہ باقی اقلیتیوں نے جنہیں غیر مسلم کہا جاتا ہے ،انہوں نے بھی 14 اگست کا دن پورے جوش و خروش سے منایا تھا ۔پاکستان کا ایک شہر ہے پشاور جو خیبر پختونخواہ کا دارالحکومت ہے وہاں پاکستانی سکھوں نے یوم آزادی کے دن ریلی نکالی ،جس میں سینکڑوں سکھوں نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے ۔اس کے علاوہ پاکستان کا ایک صوبہ ہے جسے سندھ کہا جاتا ہے ،اس صوبے کے شہروں تھرپارکر ،مٹھی اور عمر کوٹ میں ہندو پاکستانیوں کی اکثریت ہے ،وہاں پر بھی ہندو پاکستانیوں نے آزادی کا دن جذبہ حب الوطنی کے ساتھ منایا ،ریلیاں نکالی گئی اور ان شہروں کی فضاوں میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ گونجتا رہا ۔یوم آزادی کے دن بڑی تقریرں کی گئی ،صوبہ سندھ کے ڈی جی رینجرز میجر جنرل محمد سعید صاحب نے بھی ایک تقریر کی ۔جن میں انہوں نے فرمایا کہ کراچی کے لوگ پہلے مسلمان ہیں ،پھر پاکستانی ہیں اور اس کے بعد کراچی کے باشندے ہیں ۔یہ تو انہوں نے سو فیصد درست فرمایا کہ ہم سب پہلے پاکستانی ہیں ،پھر یہ کہا کہ مسلمان ہیں ،اس ملک میں جسے پاکستان کہا جاتا ہے ،یہاں پر صرف سو فیصد مسلمان نہیں رہتے ،یہاں پر باقی مذاہب کے انسان بھی بستے ہیں ۔اس شہر کراچی میں جمشید نصروان بھی رہتے تھے ،وہ ایک پارسی تھے اور بابائے کراچی کہلاتے تھے ،اسی طرح ایک اور پاکستانی شہری تھے ،جن کا نام سیٹھ ہر چند رائے تھا ،وہ اٹھارہ سال تک کراچی شہر کے مئیر رہے ۔اس انسان نے کراچی شہر میں بے شمار فلاحی کام کرائے ۔کراچی کا ایک اور شہری تھا جس کا نام موزز سومیک تھا ،جس مٹھا رام ہاسٹل میں جنرل صاحب کا دفتر ہے ،وہ انہوں نے ڈیزائن کیا تھا ۔دینا ہال جس میں جوہر برادران پر آزادی کا مقدمہ چلا تھا ،اسی یہودی ماہر تعمیرات نے ڈیزائن کیا تھا ۔اسی طرح ڈی جی کالج ،این ائے ڈی یونیورسٹی اور مٹھا رام کراچی کے ان لوگوں نے تعمیر کئے تھے جو دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے تھے ۔فلیگ اسٹاف ہاوس جس پر ہر سال پچیس دسمبر کو فاتحہ پڑھی جاتی ہے اور پھول چڑھائے جاتے ہیں جسے قائد اعظم کی رہائش گاہ بھی کہا جاتا ہے ،اس کو ڈیزائن کرنے والا بھی پاکستانی یہودی شہری موزز سومیک تھا ۔ایک زمانہ تھا جب کراچی طرح طرح کی قومیتوں ،،نسلوں اور مذاہب کا گہوارہ تھا ،اس وقت اس شہر کیو جنت نظیر کہا جاتا تھا ۔اور آج اس شہر میں پچانویں فیصد مسلمان آباد ہیں ،جو صورتحال ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔بھیا شہر کراچی میں پندو ،سکھ ،مسیحی ،پارسی بھی آباد ہیں ،لیکن معلوم نہیں کہ شعوری طور پر ہماری زہنیت ایسی بنادی گئی ہے کہ جب بھی ہم پاکستانی کہتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے مسلمان ۔سوچیئے جب باقی ہندو ،سکھ ،عیسائی اور پارسی پاکستانی ہیں ،ان کے دل پر کیا بیتتی ہوگی ۔بھیا یہ بھی تو ڈی جی رینجرز صاحب فرما سکتے تھے کہ دیکھیئے ہمیں اپنی شناخت نہیں بھولنی چاہیئے ۔ہم اچھے مسلمان ہیں ،اچھے مسلمان شہری ہیں ،اچے ہندو شہری ہیں ،اچھے سکھ شہری ہیں ،اچھے عیسائی شہری ہیں ،اچھے پارسی شہری ہیں ۔اس کے بعد کچھ اور ہیں ۔یہ بیانیہ بھی تو ڈی جی رینجرز صاحب دے سکتے تھے ۔لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہم پانچ فیصد شہریوں کو ہمیشہ بھولتے آئے ہیں ،بھائی مزار قائد پر جاکر سیلیوٹ تو ٹھوکتے ہیں ،جس جھنڈے کو سلیوٹ ٹھوکتے ہو ،اس جھنڈے میں سفید رنگ بھی ہے ،جو اقلیتیوں کی نمائندگی کا ترجمان ہے ۔جو اس بات کا ضامن ہے کہ اقلیتیں پاکستان کا ھصہ ہیں اور پاکستان کے برابر کے شہری ہیں ۔کیا پھر وہ پاکستانی نہیں کہلائیں گے ؟اگر پاکستانی ہیں تو ڈی جی رینجرز صاحب کیوں بھول گئے ۔ہم ہمیشہ تمام پاکستانیوں کو ایک یونیفارم پہنانے پر کیوں تلے رہتے ہیں ،یہ ملک ہے ،کوئی ریجمنٹ نہیں ،کوئی چھاونی نہیں ،پاکستان اکثریت کے جبر سے نجات کی وجہ سے وجود میں آیا ،اگر اکثریت کا جبر پاکستان میں بھی نافذ کرنا تھا تو ہندوستان سے بھاگ کر یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی ؟یہ سکھ ،یہ عیسائی ،یہ ہندو اور یہ پارسی بھی اس باغ کے خوبصورت اور دلکش پھول ہیں جسے پاکستان کہا جاتا ہے۔لیکن یہاں پر بھی ڈی جی رینجرز بھیا کا کوئی قصور نہیں ،اس کی وجہ یہ کہ اس بھائی صاحب نے بھی وہی نصابی کتابیں پڑھ رکھی ہیں جو ہم سب نے پڑھ رکھی ہیں ۔لاشعوری طور پر ہماری زہنیت یہ بنا دی گئی ہے کہ پاکستانی کا مطلب صرف مسلمان ہوتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کا مطلب صرف مسلمان ہے ؟اب آتے ہیں چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کی کوئٹہ کی گیارہ اگست کی تقریر کی طرف ۔کوئٹہ میں وکیلوں کی تقریب سے خطاب کے دوران جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب نے فرمایا کہ پاکستان کی تخلیق دو قومی نظریہ پر رکھی گئی ،سر سید احمد کان نے نظریہ پاکستان کا تصور دیا ،کہ دو قومیں ہیں ایک مسلمان اور دوسرے وہ جن کا وہ زکر کرنا بھی نہیں چاہتے ۔اگر یہ بات ان کی زبان سے لاشعوری طور پر نکل گئی ہے تو ٹھیک ہے ،اگر شعوری طور پر یہ یہ کہا گیا ہے تو انتہائی سنجیدہ بات ہے ۔اگر جان بوجھ کر چیف جسٹس نے ایسا کہا ہے تو اس خیال پر نظر ثانی اور وضاحت کی ضرورت ہے ۔اس کی وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ جو عدالت ہوتی ہے ،اس کے سامنے سائل کا مذاہب یا کوئی اور تعصب نہیں ہوتا ۔اگر اب اگر کوئی ایسا ہندو سائل چیف جسٹس کے سامنے پیش ہوگا اور جس نے ان کی یہ تقریر سن رکھی ہوگی ،تو وہ کیا سوچے گا اور انصاف کی کس قدر توقع رکھے گا ۔قرار داد مقاص میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اقلیتیوں کو برابر کا درجہ ملے گا ۔ان کے تحفظ کے لئے قانون سازی کی جائے گی ۔اگر جناح صاحب کی گیارہ اگست کی تقریر کو سی ایس ایس اکیڈمی ،ضوڈیشل اکیڈمی اور کاکول اکیڈمی کا حصہ بنا دیا جائے ،ٹریننگ کے دوران یہ دستاویز پڑھائی جائے تو نہ ہی ڈی جی رینجرز صاحب ایسی بات کرتے اور نہ ہی چیف جسٹس صاحب کی زبان سے یہ بات پھسلتی ۔ہو سکتا ہے ان دونوں شخصیات نے جو کہا ،اس کا مطلب یہ نہ ہو جو میرے جیسا کم عقل اور جاہل انسان سمجھ رہا ہے ،لیکن ان دونوں نے ہندو ،عیسائی ،پارسی اور سکھ کمیونیٹیز کا دل دکھایا ہے ۔اس ملک میں ایسے بھی پاکستانی گزرے ہیں جنہوں نے ملک کے لئے جان قربان کردی ،ایک فوجی لال چند تھا جو وزیرستان میں دہشت گردوں کے ساتھ لڑتے ہوئے مارا گیا تھا ۔لال چند نے پاکستان کے بارے میں کہا تھا کہ پاکستا اس کا گھر اور وطن ہے جو اس پر حملہ آور ہوں گے وہ ان کے خلاف جنگ کرے گا ۔سندھ کئ آئی جی ہیں جن کا نام ائے ڈی خواجہ ہیں ،فرماتے ہیں ان کی پرورش ایک ہندو نے کی تھی ،اگر وہ ہندو انسان ان کی پرورش نہ کرتا تو وہ آج ایک اچھا اور ایماندار شہری اور پاکستانی نہ ہوتا ۔ایک تھے جسٹس بھگوان داس جو اس ملک کے ایکٹنگ چیف جسٹس رہ چکے ہیں ،اگر آج وہ زندہ ہوتے تو چیف جسٹس ثاقب نثار کی حالیہ تقریر پر کتنے دکھی ہوتے ،اس ملک میں ایک دانش کنیریا بھی ہے جو پاکستان کا کرکٹر رہ چکا ہے ،وہ کیا سوچتا ہوگا ۔ایک ڈپلومیٹ گیان چند بھی تھے ،دو دو ستارہ جرات حاصل کرنے والے جسٹس کورنئیل بھی تھے ،جن کے بغیر پاکستان کی عدالتی تاریخ نہ مکمل ہوگی ۔اب بندہ مزید کیا کہے ۔اب تک کے لئے اتنا ہی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔