آج کل سوشل میڈیا خصوصاً پاکستانی صارفین میں یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ ناول کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دنیا بھر میں جاری لاک ڈاؤن کے باعث اوزون تہہ ایک بار پھر بحال ہو رہی ہے۔
چلیے جانتے ہیں کہ اس خبر میں کتنی حقیقت ہے کتنا افسانہ۔۔۔
آگے بڑھنے سے پہلے مختصراً بتاتا چلوں کہ اووزون زمین کے گرد سات سے پچیس میل کے فاصلے پر چہار جانب پھیلا ایک ایسا ہوائی غلاف ہے جو سورج سے آنے والی بالائے بنفشی شعاعوں کو زمین پر پہنچنے سے روکتا ہے۔ یہ شعاعیں زمینی زندگی کے لیے انتہائی مضر ثابت ہو سکتی ہیں۔ سائنسدان گزشتہ صدی سے یہ خبردار کر رہے ہیں کہ زمین سے خارج ہونے والی گیسوں کے سبب اس غلاف کو نقصان پہنچا ہے۔
واپس خبر کی جانب آتے ہیں۔ تو حقیقت یہ ہے کہ حال ہی میں بین الاقوامی سائنسی جریدے "نیچر" میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق اووزون تہہ واپس اپنی پہلے والی پوزیشن میں بحال ہو رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ گزشتہ صدی میں ہونے والا ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے۔ جسے "مونٹریال پروٹوکول" بھی کہا جاتا ہے۔
قارئین کو بتاتے چلیں کہ مونٹریال پروٹوکول میں دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ اووزون کو نقصان پہنچانے والے مادے کلوروفلوروکاربن کے اخراج کو کم کیا جائے گا۔
درجہ بالا تحقیق کے مطابق رواں صدی کی شروعات یعنی سال 2000 سے ان مادوں کا اخراج کم ہوا ہے۔ نتیجہ یہ کہ نہ صرف اووزون تہہ کو پہنچنے والا نقصان بند ہو گیا ہے بلکہ یہ تہہ الٹی چال چلتے ہوئے واپس بحال ہو رہی ہے۔
مضمون کی طوالت کو مدنظر رکھتے ہوئے رپورٹ میں موجود مزید تکنیکی تفصیلات کو ایک طرف رکھتے ہیں۔ اور بات کریں افسانے کی جو ہمارے سوشل میڈیائی ماہرین نے گھڑ لیا ہے۔ اور وہ یہ کہ لاک ڈاؤن کے باعث دنیا بھر میں کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج میں کمی آئی ہے۔ اس لیے اووزون تہہ واپس اپنی سطح پر بحال ہو رہی ہے۔
قارئین کرام۔۔۔ یہ درست ہے کہ کاربن ڈائی آکسائڈ بھی نقصان دہ گیس ہے۔ اور اس کا کم اخراج بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن ان اثرات کو ظاہر ہونے میں وقت لگتا ہے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آدھی حقیقت کے ساتھ آدھا فسانہ ملا کر ایک تحقیقاتی نوعیت کی خبر کو من مرضی کا لبادہ اوڑھا دیا گیا ہے۔ فی الحال جو تحقیق سامنے آئی ہے وہ یہ کہ اووزون تہہ کی بحالی گذشتہ تیس سال سے مسلسل کیے جانے والے اقدامات ہیں۔
خبر سے متعلقہ تحقیقی مقالہ پڑھنے کے نیچر کا ربط:
https://www.nature.com/articles/s41586-020-2120-4
“