نظریہ ارتقاء ایک سنجیدہ سائنسی موضوع ہے۔ اس نظریے کے حوالے سےفیس بک یا سوشل میڈیا پر بات تو کی جا سکتی ہے مگر اسے کسی مناظرے میں غلط یا صحیح ثابت کرنے سے اس نظریے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسکی کئی وجوہات ہیں جو میں اکثر و بیشتر بیان کر چکا ہوں۔ وجہ بے حد سادہ اور اصولی ہے۔ سائنس میں کسی بھی نظریے کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کے لیے مروجہ طریقہ کار موجود ہے۔ اور وہ یہ کہ اس نظریے سے بہتر کوئی نیا نظریہ لایا جائے جو بہتر سائنس کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ نیوٹن کے گریویٹی کے نظریے میں جو سقم تھے وہ آئین سٹائن نے اُس زمانے کے میڈیا پر منہ سے جھاگ نکال کر دور نہیں کیے بلکہ باقاعدہ پندرہ برس تک نظریہ اضافیت پر کام کیا تب جا کر ایک تھیوری پیش کی جسے بعد میں تجربات و مشاہدات کے ذریعے ثابت کیا گیا۔ بالکل یہی حال نظریہ ارتقاء کا یے۔ گو اسے منسوب ڈارون سے کیا جاتا ہے مگر اس نظریے کا بنیادی خیال یعنی انواع میں ارتقاء کا عمل اس سے قبل کے زمانوں میں بھی چلا آ رہا تھا۔ البتہ اس نظریے کی بہتر وضاحت ڈارون نے کی۔ اس نظریے کو ڈارون نے 1859 میں ایک کتاب On the Origin of Species میں پیش کیا۔ تب سے اب تک ڈیڑھ سو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا۔ سائنس ترقی کر چکی، سائنسی طریقہ کاربہتر ہو چکے، ڈی این اے کی دریافت ہو چکی، جینیاتی سائنس کو آئے بھی عرصہ ہو چکا، کاربن ڈیٹنگ اور دیگر سائنسی طریقوں سے آثارِ قدیمہ اور فوسلز کی عمروں کا تعین بھی بہتر ہو چکا۔
آج ہم انسانوں سے لیکر جانداروں تک، ذراعت سے لیکر ادوایات تک نظریہ ارتقاء کو استعمال کر کے بہتر خوراک کے ذرائع، بیماریوں کا علاج، ویکسین، اینٹی بائیوٹک، ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ اور دیگر کئی اہم شعبہ جات میں اس نظریے کا بھروپور استعمال کرتے ہیں۔ آج کی سائنس میں نظریہ ارتقاء کی وضاحت ہر روز آنے والے نئے ثبویتوں اور مشاہدات سے واضح ہوتی جا رہی ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی شخص یہ خواہش کرے کہ وہ نظریہ ارتقاء کو سوشل میڈیا پر مناظرے کر کے عوام کے سامنے جھوٹا ثابت کر دے گا یا کوئی شخص اس نظریے کا دفاع کرنے کے لیے مورچے باندھ لے تو میں دونوں کو ایک ہی نظر سے دیکھوں گا کیونکہ سائنسی نظریات مناظروں سے اور عوام میں مقبولیت یا غیر مقبولیت سے صحیح یا غلط ثابت نہیں ہوتے۔ عوامی مناظرے میں زیادہ تر لوگوں کا سائنسی علم اور پھر حیاتیات کا علم نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ عوام میں سے اکثر اس جملے سے آگے نکل ہی نہیں سکتے کہ “انسان بندروں سے بنا یے” یا یہ کہ “اچانک سے ایک نوع سے دوسری نوع میں تبدیلی کرکے دکھائیے” گویا یہاں ٹوپی میں سے خرگوش نکلنا ہے۔
جو لوگ اس طرح کے مناظرے کرتے ہیں وہ محض اپنی سستی مشہوری کے لیے یہ کر رہے ہوتے ہیں۔ سنجیدہ سائنس یا سائنسدانوں کا اس طرح کے مناظروں سے دور دور تک تعلق واسطہ نہیں ہوتا۔
لہذا نظریہ ارتقاء پر مناظرے کر کے اسکے حق میں یا مخالف دلائل دینے سے بہتر ہے کہ اسے سنجیدگی سے پڑھیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...