کیا نواز شریف کا بیانہ مقبول ہو رہا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کل چند دوستوں سے ایک ہی موضوع پر بحث چل رہی ہے۔نکتہ ایک ہی ہے کہ کیا نواز شریف کا بیانیہ مقبول ہورہا ہے؟بعض دوستوں کا خیال ہے،” میاں نواز شریف نے کمال ہوشیاری اور ہنرمندی کے ساتھ ”مجھے کیوں نکالا“کے نعرے کو مقبول کر لیا ہے، جو بات ان کے خلاف جا سکتی تھی، اب اس کا رخ تبدیل ہوگیا۔ یہ میاں صاحب کے بیانیہ کی کامیابی کی علامت ہے ۔ “
میرے کالم کو پڑھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی سیاست کے حوالے سے خاکسار کے خیالات کچھ زیادہ مثبت یا حوصلہ افزا نہیں ۔ میاں صاحب جس شاہانہ انداز سے سیاست چلاتے ہیں ، جمہوری تقاضے پورے نہیں کرتے اور اپنی جماعت کو خاندانی جاگیر کی طرح برت رہے ہیں۔ اس سب سے اختلاف ہے۔ ایک فوجی آمر جو غاصبانہ طور سے اقتدار پر قابض ہوجاتا ہے، اگر وہ ایسا کرے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس کا جمہوریت سے کیا لینا دینا۔ایک سیاستدان جو جمہوریت کے نعرے لگاتا، جمہوریت کے نام پر اقتدار میں آتا اور مزے لوٹتا ہے، اگر وہ جمہوریت کو مستحکم نہ کرے، نچلی سطح پر عام آدمی کو جمہوری عمل میں شامل نہ کر پائے تو یہ زیادہ افسوسناک اورتکلیف دہ بات ہے۔اپنے ذہن میں بھرے ان فضول خیالات اور شریف خاندان کے لئے موجود سافٹ تعصبات کے باوجودیانت داری کا تقاضا سمجھتا ہوں کہ مسلم لیگ ن اور شریف خاندان کے حوالے سے تجزیہ کرتے ہوئے انصاف اور توازن کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے ۔
حق کی بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف کوسیاست کے میدان سے رائٹ آف سمجھنا درست نہیں۔ وہ موجود ہیں اور ابھی رہیں گے ۔ میاں صاحب پچھلے چارعشروں سے سیاست میں ہیں اور انہوں نے ایک خاص سیاسی عصبیت حاصل کر لی ۔ میاں نواز شریف کی بطور وزیراعظم نااہلی نے انہیں دھچکا ضرور پہنچایا ،لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ ختم ہوگئے تو یہ خوش گمانی ہی سمجھی جائے گی۔مسلم لیگ کو وہ ایک نظریاتی یا عوامی جماعت نہیں بنا سکے۔ الیکشن لڑنے اور جیتنے والا سیاسی پلیٹ فارم بنانے میں البتہ کامیاب رہے۔ اسی وجہ سے الیکٹ ایبلز ان کے ساتھ جمع ہوتے رہے ہیں اور ان کے خلاف عدالتی فیصلوں کے باوجود چھوڑ کر نہیں گئے۔ اگرچہ آئندہ ہفتوں میں کچھ لوگ یقیناً ان کا ساتھ چھوڑ جائیں گے، لیکن جس مایوس کن منظرنامے کا بعض لوگ اندازہ کر رہے تھے، ویسا نہیں ہو پایا۔ اس کی تین چار وجوہات ہیں۔
نوے کے عشرے میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتیں برطرف ہوئیں تو سیاسی منظر نامہ فوری طور پر ان کے خلاف ہوگیا تھا۔عوام کو اندازہ ہوگیا کہ اسٹیبلشمنٹ اب جانے والی پارٹی کو دوبارہ نہیں آنے دے گی، انہوں نے بھی اپنا منہ پھیر لیا۔یہ پہلا موقعہ ہے کہ وزیراعظم نااہل ہوا، مگر اس کی حکومت برقرار ہے۔ اس کی مرضی کا وزیراعظم، وفادار ساتھی وزراءاور چھوٹا بھائی وزیراعلیٰ پنجاب ہے۔ مقتدر قوتوں نے دانستہ یا نادانستہ طور پر میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد ان کی پارٹی توڑنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ن لیگ کے روایتی الیکٹ ایبلز مایوس ہو کر دوسری پارٹیوں کی طرف نہیں نکل کھڑے ہوئے۔ انہیں یہ موہوم سی امید دلائی گئی کہ مائنس ون ہواہے، لیکن یہی پارٹی دوبارہ جیت جائے گی۔
دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے نااہلی کے بعد جارحانہ ٹون اختیار کر کے اپنے لئے کچھ مشکلات بھی پیدا کیں ،مگر اس جارحیت نے ان کے کارکنوں کو احساس ندامت سے باہر نکا ل لیا۔ پانامہ کیس کے دوران شریف خاندان نے جو بدترین جھوٹ بولے، قطری خط جیسا بلنڈر کیا، جس پر دنیا کا کوئی بھی شخص یقین نہیں کر سکتا،جے آئی ٹی کے دوران جس طرح کی سنگین بے ضابطگیاں پکڑی گئیں، ان سب نے مسلم لیگ ن کی قیادت کو بیک فٹ پر دھکیل دیا تھا۔ مسلم لیگی حامیوں کے لئے اس سب کا دفاع کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ نااہلی کے فیصلے کے بعد جس انداز میں میاں صاحب نے شاندار میڈیا مینجمنٹ کی ، کئی سینئر ترین صحافیوں اور کالم نگاروں کو اپنی ساکھ داﺅ پر لگا کر حمایتی کالم لکھوائے ، اپنی سوشل میڈیا فوج کے ذریعے فیس بک اور ٹوئٹر پر ایک مصنوعی طوفان کھڑا کیا۔ اس سب کے نتیجے میں عمومی تاثر بدل گیا۔ تیسرا فیکٹر جو کم اہم نہیں، وہ تحریک انصاف کی جانب سے کی گئی غلطیاں ہیں۔ ایسا پہلی بار ہوا کہ ایک مقبول جماعت اپوزیشن میں ہے، مگر ناتجربہ کاری کے باعث وہ حکومتی غلطیوں سے فائدہ نہیں اٹھا رہی ۔ خان صاحب الٹا کوئی نہ کوئی ایسا بلنڈر کر بیٹھتے ہیں جس سے ایڈوانٹیج ان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
ان تین چار وجوہات کی بناپر بظاہر ایسا تاثر ضرور بنا کہ جیسے میاں نواز شریف کے بیانیہ کو پزیرائی مل رہی ہے اور وہ مقبول ہورہے ہیں۔غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو عملی طور پر ایسا ہے نہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی اندرونی صفوں میں انتشار موجود ہے۔ پرویز مشرف نے تختہ الٹا تو باہر جانے سے پہلے میاں صاحب نے مسلم لیگ کے باغی دھڑے کو فوری طور پر نکال باہر کیا۔ اس بارچودھری نثار علی خان اعلانیہ باغیانہ بیانات دے رہے ہیں، مگر میاں نواز شریف نے انہیں نکالنے کی جرات نہیں کی۔مریم نواز کو صدر نہ بنانا دوسرااہم نکتہ ہے۔ میاں صاحب کا بیانیہ ان کی صاحبزادی لے کر چل رہی ہیں۔ یہ واضح ہو چکا کہ نواز شریف کا سیاسی ورثہ مریم نواز کو منتقل ہوگا۔نواز شریف صاحب بدستورجارحانہ موڈ میں ہیں، ان کے چہرے پر جیسی خشونت، غصہ اور کھردرا پن نظر آتا ہے، ویسا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس کے باوجود انہوں نے مریم بی بی کو پارٹی کا صدر نہیں بنایا۔ جانتے ہیں کہ پارٹی ٹوٹ جائے گی۔ شہباز شریف کو پارٹی صدر بنانا ہی یہ اعلان ہے کہ ان کے بیانیہ میں ابھی ایک آنچ کی کسر باقی ہے اور وہ محاذ آرائی کے بجائے مفاہمت سے الیکشن لڑنا چاہ رہے ہیں۔ایک طاقتور اور فاتحانہ بیانے والا نواز شریف کبھی مصلحت اندیش اور کھل کر ان کا دفاع نہ کرنے والے شہباز شریف کو اپنی جماعت کا صدر نہیں بنا سکتا تھا۔ایسا کرنا اس بیانیہ کی کمزوری کی علامت ہے۔تیسری اہم بات یہ ہے کہ ابھی تک ان کی جماعت حکومت میں ہے۔ اصل تجزیہ اس وقت ہوگا جب حکومتی وسائل اور ترقیاتی فنڈزکی چھتری سر سے ہٹ جائے گی۔ پیپلزپارٹی اقتدار میں تھی تو وزیراعظم گیلانی کے نااہل ہونے کے بعد ان کا صاحبزادہ اس سیٹ سے نوے ہزار ووٹ لے کر جیت گیا۔ بہاولپورمیں عامر یار وارن نااہل ہوا تو اس کی بیوی اور وہاڑی میں نذیر جٹ کی نااہلی کے بعد اس کا امیدوار پیپلزپارٹی ٹکٹ پر آسانی سے جیتے گئے۔ صرف ایک سال بعد کے عام انتخابات میں گیلانی صاحب کا پورا خاندان بری طرح الیکشن ہار گیا اور پارٹی کاپنجاب سے صفایا ہوگیا۔مسلم لیگ ن کی قوت اور اتحاد کا اندازہ عام انتخابات کے موقعہ پر ہوگا۔ چوتھا اہم فیکٹر ہوگا کہ اس وقت کس نے کیسے انتخابی مہم چلائی اور عمران خان مئی 2013ءکی طرح ایک بڑی سیاسی لہر پیدا کرنے میں کس حد تک کامیاب رہتے ہیں؟
پانچواں یہ کہ لودھراں میں عبدالرحمن کانجو نے صدیق بلوچ ، احمد خان بلوچ، رفیع شاہ جیسے الیکٹ ایبلز اکٹھے کر کے پیر اقبال شاہ کو علی ترین کے مقابلے میں جتوا دیا۔ عام انتخابات میں ان سب کو اپنی اپنی نشستوں پر الیکشن لڑنا ہوگا، الیکشن ڈے بھی ایک طرح کی قیامت صغریٰ ہوتی ہے، ہر ایک کو اپنی پڑی ہوتی ہے۔ اس وقت مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی قوت اور عوام سے رابطے کا درست اندازہ ہوگا۔اینٹی نواز شریف ووٹ بینک چھٹا پوائنٹ ہے ۔ عمران خان کی اپنی غلطیاں ایک طرف ،مگر جو لوگ نواز شریف کی سیاست کو پسند نہیں کرتے، ان کے پاس آپشن موجود نہیں۔ پیپلزپارٹی مزید کمزور ہوگئی،اس لئے پنجاب کا اینٹی نواز ووٹ تحریک انصاف ہی کی طرف جائے گا۔ساتواں پوائنٹ موجودہ ارکان اسمبلی کا ڈس ایڈوانٹیج ہے ۔یہ ذہن میں رہے کہ سٹنگ (Sitting)ایم این اے، ایم پی اے کو الیکشن میں ہمیشہ نقصان کے ساتھ جانا پڑتا ہے۔ پانچ برسوں میں کچھ اس سے خوش ہوئے تو بہت سے ناراض ہوجاتے ہیں، کسی کو نوکری نہیں ملی ،کہیں پر فنڈز نہیں پہنچے، کسی کے سلام کا جواب نہیں دیا تو کوئی رکن اسمبلی کے خوشی ، غمی میں نہ آنے پر ناخوش ۔ ہزار جھمیلے ہیںمقامی سیاست میں۔ نیب سے میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کو سزاہونے کا قوی امکان ہے، اس سے پھیلنے والی ممکنہ بددلی کو کس طرح کاﺅنٹر کرتے ہیں، یہ بھی ایک چیلنج ہوگا۔ ترقیاتی کام مسلم لیگ کر نہیں پائی، تمام تر زور لاہور پر رہا۔ جنوبی پنجاب یا پوٹھوہار میں کوئی جا کر دیکھ لے، شہر ، دیہات سب برباد ہوئے پڑے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کا عفریت ابھی قابو نہیں آیا۔ اپریل مئی میں دوبارہ سے لوڈ شیڈنگ شروع ہوگی تو پھر سب دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔
سچ تو یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے بیانیہ کا حقیقی امتحان ابھی ہوا ہی نہیں۔میاں صاحب کے لئے چیلنجز کم نہیں ہوئے، اصل جنگ انہیں ابھی لڑنا ہے۔ یہ بیانیہ کی فتح یابی کے دعوے تب اچھے لگیں گے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔