نواز شریف کی شہرت ایک عام زہنی سطح کے آدمی کی رہی ہے۔ خاص طور پر لیفٹ سائڈ کے لوگ تو اسے ہمیشہ ایک ڈفرسا آدمی کے طورپر ہی لیتے رہے ہیں۔ جو کہ ٹھیک بھی تھا۔ نواز شریف ایک کنزویٹو عام سے بزنس مین گھرانے کا سپوت تھا۔۔ باپ اس کا عام پریکٹسنگ مسلمان تھا، جیسے پاکستانی ہوتے ہیں۔ امیر مذہبی آدمی۔۔ نواز شریف کا بھی وہی انٹیلیکچوئل لیول ہے، جو ہمارے ہاں عمومی طور پر ہر دوسرے آدمی کا ہے۔۔ نہ وہ فلسفہ و فکرکو جاننے والا نہ ادب عالیہ کا قاری۔۔ عام سی رائٹ ونگ سیاسی پارٹی کا لیڈر۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز شریف کا یہ زہنی ڈفرپن۔۔۔۔ بطور سیاست دان، بطور وزیراعظم۔۔۔ عام آدمی کی صحت یا ملک پر کس قدر اثرانداز ہوا ہے۔۔ ضروری نہیں، کہ وزیراعظم کے رتبے کے لئے نوبل پرائز یافتہ آدمی ہونا چاہئے۔۔ کوئی افلاطون، ارسطو، برٹرنڈ رسل جیسی زہانت کا حامل ہو۔۔۔ تب وہ جا کرملک میں بطور وزیراعظم کچھ ڈیلیور کرپائے گا۔۔۔ ایسا ہرگز نہیں۔۔۔ وہ ایک عام زہنی سطح کا حامل ہونے کے باوجود سیاسی، سماجی، اور ملک کی ترقی کے حوالے سے کام کرنے کی صلاحیت رکھ سکتا ہے۔۔ سیاست دان کو سیاست دان ہی ہونا چاہئے۔۔۔ فلاسفر و مفکر نہیں۔۔ سیاست دان کے لئے اتنی زہنی صلاحیت درکار ہونی چاہئے۔۔ کہ وہ ملک کے مسائل کو سمجھتا ہوں، اور ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانے کا عزم رکھتا ہو۔۔ وہ بھی ایک تھرڈ ورلڈ پس ماندہ ملک کی عمومی صورت حال کے معیار کے مطابق ہی ہوگا۔ ہم اس سے بہت اونچی توقعات نہیں رکھ سکتے۔
نواز شریف میرے خیال میں اس پر پورا اترا ہے۔۔ اس نے ملک کے اہم ترین مسئلے تضاد کو سمجھا۔۔ وہ ہے سویلین بالا دستی اور جنرلوں کا غلبہ۔۔ نواز شریف نے سمجھا، کہ علاقائی امن کے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا۔۔۔ تیسرا نواز شریف نے سمجھا کہ کسی ملک کی معیشت انفراسٹرکچر کو ترقی دیئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔۔ صرف موٹرویز ایک بہت بڑا انقلابی قدم ہے۔۔ باقی بے شمار کام اس کے علاوہ ہیں۔۔ اور یہ سب کچھ ہرقدم پررکاوٹوں، اسٹیبلش منٹ کی طرف سے بدمعاشیوں ، اور نا مکمل ادوار کے ساتھ کیا۔
اس لئے نواز شریف کے ڈفر ہونے کے باوجود مجھے اسے ڈفر کہنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔۔۔ ہمیں عام شہری کی حثیت سے آم کھانے سے غرض ہے، درخت اور اس کی نسلیں گننے سے نہیں۔۔ سیاست دان گلی محلوں سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔۔ آکسفورڈ اور ہارورڈ کی یونیورسٹیوں میں نہیں۔۔ وہاں سائنس دان اور محقق ، سماجی اور معاشی مینجرز پیدا ہوتے ہیں۔ اگر کچھ دوستوں کو تکلیف نہ ہو، تو ہمارے ہاں انٹیلیکچئولی سب سے زیادہ زہین اورصاحب مطالعہ جو لیڈر آیا وہ بھٹو تھا۔۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے۔۔ کہ اس کے انٹیلیکٹ نے قوم کو کیا دیا؟ ساری کی ساری افسوس ناک واقعات پر مشتمل تاریخ ہے۔
میں عمران خان کو ڈفر اعظم کہتا ہوں۔۔ بلکہ اس سے بھی برے لفظ۔۔۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان نہ صرف زہنی طور پر ایک مکمل ڈفر بندہ ثابت ہوا ہے۔۔ بلکہ جس عہدے پربراجمان ہوا ہے۔۔ اس کی روزمرہ کے کام کاج میں جو فیصلوں کی صلاحیت ، وژن، اور سیاسی عزم ہونا چاہئے۔۔۔ اس کا معیار انتہائی مایوس کن اور گھٹیا درجے کا ثابت ہوا ہے۔۔ سر تا پا ایک مکمل ٹوٹل مایوس کن شخصیت۔۔ اوپر سے انا، تکبر، نفرت سے بھرا ہوا شخص۔ بڑی ہی سطحی، نیچ سوچ کا حامل۔۔ اس کی کابینہ دیکھ لیں، پنجاب کا وزیراعلی دیکھ لیں،اس ملک کے ہرشخص نے بزدار کے بارے منفی رائے دی ہے۔ ڈفر اعظم ڈٹا ہوا ہے۔۔ وہ ذاتی مفاد کے لئے کسی بھی اصول، اخلاقی معیار کوتوڑ سکتا ہے، بھیک مانگنے کے سوا اسے کچھ نہیں آتا، اس کی ساری زندگی زمہ داریوں کے بغیرمفت بھری کی عیش میں گزری ہوئی ہے۔
چنانچہ ہمیں سیاست دانوں سے کسی اعلی درجے کی سوفسٹیکیٹڈ تعلیم، زہانت، نہیں چاہئے۔۔۔ صرف اتنا چاہئے وہ عوام اور ملک کے مسائل کو سمجھتا ہو، اور جو اس سے بطور وزیراعطم توقعات رکھی جاسکتی ہیں، ان کو ڈیلویر کرسکے۔ ملک کو ترقی اور خوشحالی کو ارتقائی راہ پر ڈال سکے۔ ہمیں آکسفوڑد کا وائس چانسلر نہین چاہئے۔
“