مملکتیں جہاں ادارے بے توقیر ہوں، دیکھتے ہی دیکھتے ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہیں! ایسی مملکتوں کو کوئی نہیں بچا سکتا۔ نہ بین الاقوامی معاہدے، نہ کوئی قوتِ قاہرہ اور نہ مسلح لشکر۔ محفوظ تو کچھوا بھی ہوتا ہے لیکن اسے بچانے والی سخت کھال اتنی بھاری ہوتی ہے کہ وہ خطرے کے وقت بھاگ ہی نہیں سکتا اور وہی ’’بچانے‘‘ والی کھال اسے پکڑوا دیتی ہے! ملکوں کو ادارے بچاتے ہیں اور قوموں کو بین الاقوامی برادری میں عزت اس بنیاد پر ملتی ہے کہ ان قوموں کے ادارے کتنے مضبوط ہیں! اگر ذاتی پسند یا ناپسند اداروں کے انتظام میں دخل اندازی کرے اور سسٹم کوئی نہ ہو تو ادارے تباہ ہو جاتے ہیں اور یہ بات کسی کو پسند آئے یا بُری لگے، بات یہی ہے کہ ادارے تباہ ہو رہے ہوں تو یہ ملک کیلئے بدشگونی ہوتی ہے! کوئی ادارہ شاہ جہان اور اورنگ زیب عالم گیر کی وفات کے بعد تخت نشینی کا فیصلہ کرنے والا ہوتا تو برصغیر کی تاریخ وہ نہ ہوتی جو آج ہے!
پاکستان کے صرف دو ادارے ایسے ہیں جہاں بھرتی کے حوالے سے میرٹ کی حکمرانی ہے! ان میں سے ایک کاکول ہے جہاں بّری فوج کیلئے افسر تیار ہوتے ہیں( معاملے کو آسان رکھنے کیلئے ہم فضائیہ اور بحریہ کی اکیڈیمیوں کا ذکر الگ سے نہیں کر رہے ورنہ ہماری مراد تینوں مسلح افواج سے ہے) ایسی درجنوں اور بیسیوں مثالیں موجود ہیں کہ کاکول میں غریب کسانوں، سپاہیوں، حوالداروں، پرائمری سکول کے ٹیچروں اور عام لوگوں کے بچے کامیاب ہوگئے اور جرنیلوں وزیروں سفیروں اور امیروں کے بچے داخل نہ ہوسکے۔ مجھے یاد ہے، میں کاکول میں فائنل پاسنگ آئوٹ پریڈ دیکھنے کیلئے مدعو تھا۔ بڑے گیٹ سے باہر آتے ہوئے میں نے دیکھا…اور یہ منظر میں کبھی بھول نہیں سکتا… کہ تہبند میں ملبوس ایک کسان اپنے کیڈٹ بیٹے سے محوِ گفتگو تھا! کاکول سے نکلنے کے بعد کوئی جرنیل بن جائے اور اٹھائے ہوئے حلف کی دھجیاں اُڑا کر فرعون ہو جائے تو یہ بعد کا معاملہ ہے اور اس میں کاکول کا کوئی قصور نہیں!
پسرِ نُوح با بدان بنشت
خاندانِ نبوّتش…گم شد
اس میں نوح علیہ السلام کا تو کوئی قصور نہیں تھا!
اب سوال یہ ہے کہ کاکول کا معیار کس طرح برقرار رکھا جا رہا ہے۔ خوش قسمتی سے مسلح افواج کے اندرونی معاملات میں اہل سیاست کا عمل دخل نہیں ہے اور جو درگت سول سروس آف پاکستان کی اقربا پروری، دوست نوازی اور میرٹ کو قتل کرنے کی وجہ سے بنی ہے، الحمد للہ افواج پاکستان ابھی تک اس سے بچی ہوئی ہیں۔ وہ جو بّری فضائی اور بحری افواج کیلئے افسروں کو منتخب کرتے ہیں، انہیں تربیت دیتے ہیں، انہیں سزا دیتے ہیں، نکال باہر کرتے ہیں یا کامیاب قرار دیتے ہیں، انہیں ایک نظام کے تحت اس اہم ذمہ داری کیلئے چُنا جاتاہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے اور اس عمل میں اہلیت کا…بالعموم…قتل نہیں ہوتا!
دوسرا ادارہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن ہے جو ہر سال مقابلے کا امتحان منعقد کرتا ہے اور اگلے 35 سال کیلئے فارن سروس، ضلعی انتظامیہ، پولیس، آڈیٹرجنرل، انکم ٹیکس اور دیگر محکموں کیلئے افسر بھرتی کرتا ہے۔ اعلیٰ ملازمتوں کیلئے مقابلے کے امتحان منعقد کرنے کے علاوہ بھی فیڈرل پبلک سروس کمیشن کئی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے، مرکزی حکومت کے تعلیمی اداروں کیلئے اساتذہ کا انتخاب کرتا ہے۔ ڈاکٹروں کو ملازمتیں دیتا ہے اور سائنس دان بھرتی کرتا ہے، جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کے ابتدائی تین سالوں میں ایک مستحسن فیصلہ کیا تھا کہ گریڈ 16 سے نیچے کی بھرتیاں بھی فیڈرل پبلک سروس کمیشن کریگا۔ یہ ایسا فیصلہ تھا جس نے سفارش کی بنیاد پر بھرتی کو ختم کردیا تھا لیکن ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بنے تو انہوں نے کمیشن سے یہ ذمہ داری واپس لے لی تاکہ سیاست دان بھرتیوں پر حسبِ سابق اثرانداز ہوتے رہیں… پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کے زمانے میں وزیراعظم کا دفتر مختلف محکموںکو فہرستیں فراہم کرتا رہا۔ ان فہرستوں میں ’’خوش قسمت‘‘ امیدواروں کے نام ہوتے تھے!
بہرحال…فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا کمال یہ ہے کہ عام لوگوں کے بچے مقابلے کا امتحان پاس کرکے کامیاب ہو جاتے تھے۔ آخر الطاف گوہر، قدرت اللہ شہاب، سرتاج عزیز، آغا شاہی، عزیز احمد اور بے شمار دوسرے بیوروکریٹ… جنہوں نے اپنی ذہانت اور محنت سے ملک کی خدمت کی، عام خاندانوں ہی سے تو تھے اور یہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن ہی تھا جس نے میر ٹ اور اہلیت کی بنیاد پر انہیں چُنا تھا اور چُن کر حکومت کے سپرد کیا تھا۔ اب کچھ افسر اگر آغا شاہی اور سرتاج عزیز بننے کے بجائے کروڑ پتی بن گئے، کسی نے چودہ بنگلے بنا لئے، کسی نے (64) چونسٹھ پلاٹ ہتھیا لیے اور کوئی نیویارک میں جائیداد کا مالک بن بیٹھا تو اس میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا قصور تھا نہ مقابلے کے امتحان کا!
سوال یہ ہے کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ممبر کس بنیاد پر منتخب ہو رہے ہیں؟ بدقسمتی سے یہ ادارہ ذاتی پسند اور ناپسند کا شکار ہو رہا ہے۔ ایک پرائمری سکول چلانے کیلئے استاد کا انتخاب اور ڈاکخانہ چلانے کیلئے بابو کا انتخاب تو کسی بنیاد پر ہوتا ہے لیکن جو ادارہ 35 سال کیلئے سرکاری افسروں کو چنتا ہے اس ادارے کے ممبر کسی بنیاد کے بغیر چُنے جارہے ہیں۔
جناب چیف جسٹس کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ معاملہ حد درجہ اہم ہے۔ یہ گڈ گورننس کا معاملہ ہے اور بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے‘ اگر حکومت پاکستان فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں ایک ریٹائر افسرکو مقرر کرکے لاکھوں روپے ماہوار تنخواہ دیتی ہے تو یہ تنخواہ قومی خزانے سے ادا کی جاتی ہے۔ قوم جاننا چاہتی ہے کہ کس کو رکھا جا رہا ہے اور کس بنیاد پر؟ یہ بات کہ یہ وزیراعظم کی صوابدید ہے کہ وہ اپنی مرضی کے آدمی کا نام تجویز کرکے ایوان صدر کو بھیجیں، نہ آئین میں لکھی ہوئی ہے اور نہ کسی اور قانون میں۔گریڈ بائیس کے ریٹائرڈ سرکاری ملازم فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ممبر نہیں بنائے گئے، کس بنیاد پر نامنظور ہوئے؟ کیا ان کا حق نہیں کہ انکے ناموں پر بھی غور ہوتا اور انہیں نامنظور ہونے کی وجہ بتائی جاتی؟
اسی طرح فیڈرل سروسز ٹرائی بیونل ایک اہم قومی ادارہ ہے۔ سرکاری ملازم حکومت کیخلاف یہاں مقدمے دائر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں کی تلافی کی درخواست کرتے ہیں۔ فیڈرل سروسز ٹرائی بیونل کے ار کان کس بنیاد پر متعین اور منتخب ہو رہے ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ گریڈ بائیس کے ریٹائرڈ سرکاری ملازموں کویکسر نظرانداز کرکے گریڈ انیس بلکہ بیس کے ریٹائرڈ ملازموں کو ممبر لگایاجارہا ہے؟ خدا جانے یہ خبر غلط ہے یا صحیح لیکن سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ کچھ ممبر اتنے ’لائق‘‘ ہیں کہ فیصلے لکھنے کیلئے انہوں نے ’’ملازم‘‘ رکھے ہوئے ہیں! ہوسکتا ہے یہ غلط ہولیکن اصل سوال یہ ہے کہ ممبر متعین کرنے کا معیار کیا ہے؟
مائی لاڈ جناب واجب الاحترام چیف جسٹس! یہ ایک حساس معاملہ ہے۔یہ قومی اداروں کی بقاء کا مسئلہ ہے۔ اس میں قومی خزانے کی خطیر رقم کا سوال ہے جو ہر ماہ ان ممبران کو تنخواہ کے طور پر ادا کی جاتی ہے۔ ریٹائرڈ ملازموں کی فہرست سے کچھ کو چُن لینا اور کچھ کو نظرانداز کرنا، قومی مفاد کے خلاف ہے۔ مائی لارڈ! کیا جناب والا حکومت کو ہدایت دیں گے کہ وہ اس کی وجوہ سے جناب والا کو اور پوری قوم کو آگاہ کرے؟ کیا مائی لارڈ اس حساس قومی معاملے کی خرابی کا ازخود نوٹس لیں گے؟
http://columns.izharulhaq.net/2009_12_01_archive.html
“