عید کی نماز پڑھنے ہم یونیورسٹی ہوسٹل سے اکٹھے نکلے۔ گمان غالب یہ تھا کہ کم از کم آج تو خواجہ صاحب نماز پڑھ ہی لیں گے۔ نماز کے بعد خطبہ ہوا۔ خطبے کے بعد دعا‘ پھر ہم ایک دوسرے کو گلے ملے۔ خواجہ صاحب کہیں دکھائی نہ دیئے۔ واپس ہوسٹل پہنچے تو بڑے گیٹ پر نئی شلوار قمیض میں ملبوس‘ خوشبو سے معّطر‘ ہنستے مسکراتے‘ بازوئوں کو وا کیے کھڑے تھے۔ معانقے کیے۔ کسی نے کہا خواجہ! ہم عید گاہ میں آپ کو تلاش کرتے رہے۔ ہنس کر بولے‘ بے وقوفو! میں بھی عیدگاہ آ جاتا تو واپسی پر یہاں تمہارا استقبال کون کرتا؟ گھر سے تم پہلے ہی دور ہو!
ڈھاکہ یونیورسٹی میں قیام کا یہ واقعہ 23 مارچ کے حوالے سے مسلسل یاد آ رہا ہے! 23 مارچ اور عیدالفطر میں کتنی مماثلت ہے! عیدالفطر کا مقصد واعظین کرام یہ بتاتے ہیں کہ خوشی کا موقع تو ہے ہی مگر اس دن اپنا محاسبہ بھی کرنا چاہیے کہ رمضان کیسے گذارا! کیا وہ مقاصد پورے ہوئے جن کے لیے روزے فرض کئے گئے؟ روایت ہے کہ عید کے دن ایک صاحب امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ کو ملنے حاضر ہوئے۔ دیکھا کہ سوکھی روٹی تناول فرما رہے ہیں‘ اور گریہ کر رہے ہیں! خیر! عید کے دن نان خشک کھا کر گریہ کناں ہونا تو اتنا بڑا مقام ہے کہ امیر المومنین جیسوں ہی کو نصیب ہوا مگر اب جس طرح ہم عید مناتے ہیں‘ اس سے تو یہی احساس ہوتا ہے کہ رمضان آیا ہی نہیں تھا!
23 مارچ قومی حوالے سے ہمارے لیے عید ہی کے دن کی طرح ہے۔ دارالحکومت میں پریڈ ہوئی۔ ہم نے طاقت کا مظاہرہ کیا کہ دشمن کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔ شہر شہر سرکاری اور غیر سرکاری تقاریب منعقد ہوئیں۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر تو بہار ہی آ گئی۔ اشتہارات نے رزق کے دروازے کیا! بارہ دریاں کھول دیں! موسیقی اور کھیل تماشوں کے پروگراموں میں ناظرین ڈوب ڈوب گئے!
مگر یہ دن گریہ کرنے کا بھی تو ہے! سوکھی روٹی تو آج شاید ہی کوئی کھاتا ہو! جس نے فاقے کیے‘ اس کی امت آج کُلوا واشربوا کے عروج پر ہے ؎
کرسی و عرش فقیری میں علاقے تیرے
تیری امت کو بچا لے گئے فاقے تیرے
چلیے‘ رنگ رنگ کے اور ذائقے ذائقے کے پکوان کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں! مگر گریہ کرنا تو بنتا ہے!
گریہ کرنا اس لیے بنتا ہے کہ ہمیں احساس ہی نہیں کہ 23 مارچ کے حوالے سے ہمیں کتنی بڑی نعمت ملی! افسوس! ہم اُس شخص کی اولاد کی طرح نکلے جس نے زندگی بھر محنت کر کے بچوں کے لیے جائیداد چھوڑی اور بچے کچھ عیاشی میں پڑ گئے اور کچھ آپس کی لڑائی جھگڑے اور مقدمہ بازی میں تباہ ہو گئے۔ ہم نے نغمہ گایا اے قائداعظمؒ ترا احسان ہے احسان! اور پھر آپس میں الُجھ پڑے۔کسی نے کسی کو گلے سے پکڑا اور کوئی کسی کو چاروں شانے چت گرا کر خوشی کے شادیانے بجانے لگا۔ کہاں کی ترقی! کہاں کا اقتصادی انقلاب! کہاں کی سماجی پختگی! ہم نے صوبوں کے درمیان جو لکیریں محض کاغذی تھیں‘ ان پر رنگ ڈالے اور انہیں اس قدر نمایاں کیا کہ قوم مدہم پڑ گئی اور صوبے نمایاں ہو گئے۔ پھر اسی پر بس نہ کیا‘ قومیت در قومیت لے کر آئے۔ بلوچی ہونے سے افاقہ نہ ہوا تو بلوچستان کے اندر براہوی‘ پختون اور جانے کیا کیا تلاش کیے۔ اب پہچان یہ ہو گئی کہ فلاں ہزارہ ہے اور فلاں پوٹھوہاری ہے اور تم سرائیکی ہو اور میں ہندکو ہوں‘ اور وہ مہاجر ہے۔ پھر ہم اور آگے بڑھے۔ پھر ہم کشمیری‘ آرائیں‘ اعوان‘ جاٹ‘ راجپوت‘ مغل اور نہ جانے کیا کیا بنے‘ یہ عنوانات شناخت کے لیے تھے مگر ہم نے یہ تقسیم در تقسیم انتخابات میں جیتنے کے لیے اور ملازمتیں حاصل کرنے کے لیے‘ اور سفارشیں ڈھونڈنے کے لیے اور فخر و مبابات کے لیے‘ اور ڈینگیں
مارنے کے لیے استعمال کی! فلاں کو ووٹ دو اس لیے کہ وہ جاٹ ہے۔ فلاں کی بیٹی سے رشتہ کرو اس لیے کہ وہ مغل ہے! فلاں کو ملازمت دو اس لیے کہ وہ اعوان ہے‘ فلاں کو رسوا کرو اس لیے کہ وہ فلاں برادری سے ہے! تو پھر انصاف کرو! 23 مارچ کے دن خوشی سے ناچنا گانا بنتا ہے یا گریہ کرنا؟
23 مارچ کے دن گریہ کرنا بنتا ہے اس لیے کہ الگ ہم مسلمان ہونے کے حوالے سے ہوئے۔ پھر اس مسلمانی کو ہم نے چھریوں سے اور کلہاڑیوں سے اور تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کیا‘ یہ شیعہ ہے اس لیے اسے مار دو‘ یہ شیعہ نہیں ہے اس لیے اسے بھی ختم کر دو! یہ مسجد ہماری ہے‘ وہ مسجد تمہاری ہے! پھر ہم نے ظلم کی انتہا یہ کی کہ سیاسی جماعتیں مذہبی فرقوں کی بنیاد پر بنائیں۔ ہلاکت کا گڑھا اپنے ہاتھوں سے کھودا‘ یہ سیاسی جماعت دیوبندیوں کی ہے اور وہ اہل حدیث حضرات کی ہے اور یہ بریلوی ہیں‘ کہیں ہماری پارلیمنٹ دنیا کی واحد پارلیمنٹ تو نہیں جسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں کچھ نمائندے فرقوں اور مسلکوں کی بنیاد پر بھی تشریف فرما ہیں!
گریہ کرو! اللہ کے بندو! گریہ کرو! اُس خدائے برتر کے حضور سجدہ کرو جس نے تمہیں یہ ملک دیا۔ گریہ کرو اور جھاڑکھنڈ کے اُس انصاری اور اُس امتیاز کو یاد کرو جنہیں چار دن پہلے درختوں کی ٹہنیوں کے ساتھ لٹکا کر اس لیے پھانسی دی گئی کہ وہ بیل فروخت کر رہے تھے۔ گریہ کرو اس لیے کہ آسودگی نے تمہارے احساسات کو مردہ کر دیا ہے۔ انواع و اقسام کے کھانوں نے تمہارے سوچنے کی حس ختم کر دی ہے۔ محلات نے تمہیں اندر سے حیوان بنا دیا ہے۔ بینک بیلنسوں‘ لندن‘ جدہ‘ نیویارک کی پراپرٹیوں اور ویت نام اور ہسپانیہ کے کارخانوں نے تمہاری آنکھوں پر پردہ تان دیا ہے۔ تمہیں رمق بھر احساس نہیں کہ پاکستان کتنی عظیم نعمت ہے۔ تمہیں معلوم ہی نہیں کہ گئو رکھشا ایکٹ کیا ہے۔ ماضی قریب میں مسلمانوں پر بھارت میں ایک ہزار سے زیادہ حملے ہو چکے ہیں بیسیوں شہید ہو چکے ہیں‘ سینکڑوں جیلوں میں پڑے سسک رہے ہیں اس لیے کہ انہوں نے کھانے میں چند بوٹیاں گائے کے گوشت کی کھا لی تھیں۔ اب بیل اور بھینس کا گوشت کھانے پر بھی مسلمانوں کو مارا جا رہا ہے۔ سینکڑوں ہندو مسلمانوں کے تعلیمی اداروں پر اس لیے حملہ آور ہو رہے ہیں کہ مطبخوں میں گوشت کی ڈشیں کیوں پکائی جا رہی ہیں!
23 مارچ کا دن خوشی کا دن ہے مگر سوچنے کا بھی ہے! محاسبہ کرنے کا بھی!
پس نوشت : ’’پاک سرزمین پارٹی کا لیڈر مصطفی کمال نہیں ہے کوئی اور شخص ہے جو سگار بھی پیتا ہے‘‘ اس قسم کے تجزیے ہوا میں اُڑا رہے ہیں! ظاہر ہے یہ تخمینے ہیں۔ جو غلط ہو سکتے ہیں اور درست بھی!
اگر واقعی ایسا ہی ہو گا تو مصطفی کمال کا حشر الطاف حسین جیسا ہی ہو گا۔ کراچی میں قتل و غارت شروع ہوئی تو ہمارے دوست شاعر افضال احمد سید نے دلچسپ فقرہ کہا کہ کراچی بیروت بننے سے پہلے ہی بیروت بن گیا! جو عروج الطاف حسین کو ملا‘ اُس حوالے سے مصطفی کمال الطاف حسین بننے سے پہلے ہی الطاف حسین بن جائیں گے۔ مصطفی کمال کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ الطاف حسین نے جب بھارت میں کھڑے ہو کر قیام پاکستان کو بہت بڑی غلطی قرار دیا تھا اور پاکستانی سفارت خانہ ان کے ایسے بیانات اور ایسی حرکتوں پر ماتم کناں تھا‘ تب پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی اور اُسی شام پاکستانی سفارت خانے کی گردن پر پائوں رکھ کر اس حکومت نے سفارت خانے کو مجبور کیا تھا کہ جس پاکستان کے قیام کو الطاف حسین غلطی قرار دے رہے تھے‘ اسی پاکستان کے عوام کی خون پسینے کی کمائی سے اُسی الطاف حسین کو اُسی دن عشائیہ دیا جائے! اور عشائیہ دیا گیا جس ملک نے جنرل مشرف صاحب کو اقتدار دیا تھا‘ عزت دی تھی‘ اُس ملک کے خلاف الطاف حسین نے دشمن ملک بھارت میں ہرزہ سرائی کی اور دل کھول کر کی مگر جنرل صاحب کو اس کا اتنا بھی افسوس نہ ہوا جتنا دور کے کسی رشتہ دار کو کسی کے برا بھلا کہنے سے ہوتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف صاحب کے بینک اکائونٹس کی تفصیلات بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ ہمارے دوست خالد مسعود خان نے اپنے 23 مارچ کے کالم میں اس کی تفصیلات پھر شائع کی ہیں۔ چھ مختلف اکائونٹس میں کل رقم ایک ارب اسی کروڑ روپے جمع ہے! کیا یہ مناسب نہیں کہ مصطفی کمال ان تخمینوں ان پیشین گویوں اور ان خدشوں کا سدباب کرنے کے لیے ایک وضاحت نما اعلان جاری کریں کہ وہ جنرل پرویز مشرف کے قافلے کے نقیب نہیں! ورنہ ان جیسے ذہین شخص کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہزار ہو یا لاکھ‘ صفر سے ضرب کھا کر صفر ہو جاتا ہے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔