(Last Updated On: )
بحرین ۔ اسرائیل معاہدہ
گذشتہ روز یعنی ۱۱؍ستمبر بروز جمعہ کو بحرین نے اسرائیل کے ساتھ ملکی و اقتصادی سطح پر اتفاق رائے کرلیا ہے۔ معاہدہ کی خبر حیران کن ضرور ہے لیکن اتنی نہیں کی عالم اسلام میں یکایک غم و غصہ پھوٹ پڑے ۔ اس کی اصل وجہ اگست ماہ میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین منظور پانے والی قرار دار ہے۔ ۱۳؍اگست کوجب یہ خبر آئی تو پوری دنیا سمیت اسلامی ریاست آگ بگولہ ہوگئی اور منفی آرا ء و خیالات کا اظہار ہونے لگا۔ مسلم امت کی اکثریت نے اس کی شدید مخالفت کی لیکن جو ہوگیا ،سو ہوگیا۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل معاہدہ کا اعلان کرنے والے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے بیان میں دیگر مسلم ممالک کوبھی اسی راہ پر گامزن ہونے کی جانب اشارہ کیاتھا۔اس بیان کےبعد ہی بحرین کا ذکر سرخیوں میںآگیا ۔ اس نے یو ۔ اے ۔ ای اور اسرائیل کے مابین پاس ہونے والی قرارداد پر مثبت اظہاررائے کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اس دفعہ بھی دیگر اسلامی حکومت کے اسرائیل تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ دیکھئے اب کس کی باری ہے …؟ویسے عمان کانام سرخیوں میں بنا ہوا ہے۔
بہرکیف، اب آگے کیا کچھ ہونے کو ہے، یہ تاریخ پر موقوف ہے لیکن تاحال یہ مسئلہ صاف ہوتا جارہا ہے کہ’ امت واحدہ‘ میں پھوٹ کا تسلسل ترقی پذیر ہے۔تعجب ہے! اس امت رسول عربی پر ۔اللہ کے رسول جب اس دنیا میں آئے تو قرآن نے انہیں عالمین کے لیے رحمت کہا اور مشرکین نے صادق و امین ۔ انہوں نے عرب میں طویل عرصہ سےقائم روایتی تعصب کو توڑ کر لوگوں کو’ امت واحدہ ‘میں پرویا ۔ اوس و خزرج کے مابین ایک دراز مدت سے دشمنی تھی ۔ دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ۔ رسول اللہ نے ان دونوں کو متحد کیا اور ایک’ مسلم امہ‘ میں جوڑکر دونوں کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا ۔ آپ کو عرب میں مبعوث کرنے کا اصل مقصد وہاں کی گری ہوئی ذہنیت اور بدوی فکر تھی ۔ اُس وقت ان سے زیادہ بچھڑی قوم کا تصور نہیں تھا۔اللہ نے اپنے آخری پیغمبر کو وہاں بھیجا۔ آپ نے چالیس سال اخلاق کا عملی ثبوت فراہم کیا اور پست ترین قوم کو محبوب الٰہی مذہب سے روشناس کرایا۔ مختلف علاقوں میں منتشر قوم کو ایک راہ پر لاکر جمع کیا جسے ہم ’اسلام‘کہتے ہیں مگر جب آپ کی آنکھ بند ہوئی تو آپ کے تعلیمات کی راہیں بند کی جانے لگیں ۔ لوگ راہ اسلام سے دور ہوتے گئے اور وہ اس امت سے اتنے دور ہوگئے کہ دشمن کے قریب پہونچ گئے ۔ حقیقت یہ کہ رسول کی حیات سے ہم جتنادور ہوتے جارہے ہیں ، بکھرتے جار ہے ہیں۔ پہلے ایک نظام تھا۔ پھر رسول کے بعد دو نظام ہوگیا ۔ وہیں سے سارے اختلافی پودے نشو نما پانے لگے اور اِس وقت ان پودوں نے تناور درخت کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اب سب کا اپنا اپنا علاقہ ہے۔ اس لیے سب اپنے آپ کو خودمختار سمجھ بیٹھے ہیں۔ سب کی اپنی ریاست ہے ۔ اپنی پالیسی ہے اور اپنا نظام ۔ خیر …!اس میں مشکل کیا ہے …؟مشکل تو اس وقت ہے جب ہم اپنے نظام کو مسلم دشمنی پر بناتے ہیں۔ہمارے یہاں ابھی بھی چودہ صدی پرانا جھگڑا جاگ رہا ہے اور بعض اوقات غفلت میں چلا بھی جاتا ہے تو اسے پھر بیدار کردیا جاتا ہے۔ پاکستان میں جو کچھ ہورہاہے ، وہ سب کی نگاہوں کے سامنے ہے۔ محرم الحرام آتے ہی اختلافی بیان بازیاں تیز ہوجاتی ہیں اور ملکی پیمانہ پر افراتفری کا ماحول بن جاتا ہے۔ اس برس تو کچھ عجیب ہی ہو گیا ہے۔
عظیم قوت والے اسلامی ممالک میں روایتی دشمنی کو وجود ہی اسی لیے دیا گیا ہے کہ وقتا فوقتا اس سے کام لیا جاسکے۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ میں سعودی کا عرب کا بڑا ہاتھ تھاچوں کہ مکہ و مدینہ کی ریاست خلافت کا دایاں بازو تھا۔جب یہ دونوں اسلامی علاقے خلافت عثمانیہ کے ہاتھ سے نکل گئے تو اس کی کمر خمید ہ ہوگئی اور پھر اس خمیدہ کمر پر سعودی عرب کی حکومت کا چھراگھونپ دیا جس نے سلطنت کی کمر توڑدی۔ دوسری جانب آل سعودنے قدر ت پاتے ہیں اہل تشیع کےمقامات مقدسہ مسمار کردیئے اور اب تک اس پر ستم جاری ہے۔ اس لیے ترکی اور ایران کے ساتھ سعودی کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور اس وقت تقریباًمسلم دنیا انہیں مثلث کے زیرسایہ سانس لے رہی ہے۔ پاکستان مضبوط ملک ہے مگر یہ بےچارہ اپنی مذہبی خانہ جنگی میں ہی اتنا مصروف رہتا ہے کہ اسےمزید ترقی کی فرصت ہی نہیں مل پاتی ۔ حقیقت تو یہ کہ پاکستان بھی کسی کی ماتحتی میںآتا ہے۔
خیر…!زخم کریدنے سے نہیں بھرتے بلکہ غمگین یادیں تازہ ہوجاتی ہیںلیکن اتنے عظیم سرمایہ کےمالک عرب ممالک اور دیگر اسلامی حکومتوں کو یہ باتیں سوچنا چاہئے کہ اس وقت ’امت واحدہ ‘انتشار کا شکار کیوں ہورہی ہے اور اس کے کیا نتائج در پیش ہیں…؟ ابھی تک آپسی دشمنی میں کیا کچھ کم کھویا ہے جو اسی معاندانہ تسلسل پر گامزن ہیں ۔آپ ملاحظہ کیجئے ۔ حالات کیسے تبدیل ہوئے ہیں۔ پہلے مسلمان کا خون بہتاتھاتو ہماری آنکھیں خون کے آنسو روتی تھیں ۔ پھر یہ سلسلہ طول پکڑا تو ہم نے وقتا فوقتا سیاست شروع کردی اور مصلحت کی چادر تان لی اور اب تو قاتل سے ہاتھ ملایا جارہا ہے۔ حالات بدتر سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔ وہی قدیمی نسخہ ابھی بھی کارگر ہے۔ آپسی فرقہ واریت کو ختم کرکے’ امت واحدہ ‘کا ثبوت دینا وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔ اس لیے ایمان والوں ! اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور یادرکھو کہ ’اکثر چھوٹے چھوٹے گروہ بڑی بڑی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آجاتےہیں ۔‘
“