کیا کبھی ایسا ہوا کہ موت کسی کی من چاہی مراد ٹھہری ہو اور آنگن کے ادھ کھلے کواڑ سے اندر جھانکنے پہ کسی کی منتظر آنکھ اسے دیکھ کے چمک اٹھی ہو؟
کورونا کے ہاتھوں موت کو گلے لگانے والوں کے اعدادوشمار بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ موت کے بےرحم پنجے ہر طرف گڑے دیکھ کے دل دکھ میں لپٹی افسردگی اوڑھ کے کبھی ٹھہرتاہے تو کبھی سرپٹ دوڑتا ہے۔ ایسے میں نہ جانے ذہن کی گنجلک سوچوں میں ایک عجیب سا خیال سرسراتا ہے۔ ہم اپنے آپ سے سرگوشیوں میں باتیں کرتے ہیں۔
ایسے سفاک سوال کا جواب منٹو جیسے بے رحم ادیب کے قلم سے ہی مل سکتا ہے,
تقسیم کا اعلان ہو چکا ہے، ہر طرف فسادات کا ہنگامہ ہے۔ بلوائیوں کے جتھے گلی گلی گھومتے ہیں۔ مکانوں میں لگی آگ کا دھواں دور سے نظر آتا ہے۔ کائنات بھی انسان کی سفاکی دیکھ کے غمگین ہے۔ وہ انسان جس کی کل تک دکھ سکھ کی سانجھ تھی، پلک جھپکتے میں ازلی دشمن بن بیٹھا۔ ایسے میں وہ باپ جو اپنی تین جوان بیٹیوں کو دیکھ دیکھ کے ہولتا ہے، رات کی تاریکی میں خاموش گریہ کرتا ہے۔ جگر گوشوں کو اپنے ہاتھ سے درندوں کے حوالے کیسے کرے، وہ یہ سوال حل نہیں کر پاتا۔زندگی اس سفاکی پہ اتر آئے، زمانہ بے رحم ہو جائے، تلخ حقیقت عریاں حالت میں سامنے کھڑی ہو تو موت کا دامن اپنی پناہ میں لے لیا کرتا ہے۔ دو بیٹیوں کا گلہ کاٹتے، ان کی چیخوں کو ان سنا کرتے، ان کے لہو میں ہاتھ اور دامن بھگوتے، موت کا حسن اس باپ کی آنکھ کو خیرہ کرتا تھا۔
اگر کچھ ادیبوں کے قلم پہ انسان کا پاتال میں اترنے کا غم سفاک الفاظ کی صورت میں اترا ہے تو کچھ پیٹ کی بھوک کا نوحہ لکھتے ہیں۔ بھوک وہ ظالم شے ہے جو زندگی کی سرحد پار کرنے والوں کا کچھ لحظوں کے لئے بھی دکھ منانے نہیں دیتی۔ دیکھیے منشی پریم چند کے گھیسو اور مادھو کو جو مادھو کی بیوی کی موت پہ ملنے والے پیسوں سے پیٹ کی آگ بجھا کے مسرور ہیں۔
“کھس ہو کہ وہ مایا جال سے مکت ہو گئی۔ جنجال سے چھوٹ گئی۔ بڑی بھاگوان تھی جو اتنی جلد مایا کے موہ کے بندھن توڑ دیے”
ابھی ہم اپنے اہلے گہلے الفاظ کی کھوج میں منٹو اور پریم چند کی کہانیوں کے سحر سے نکلے نہیں کہ ایک دل میں بسنے والی آواز کی سحر آفرینی سماعت میں رس گھولتی ہے،
” ایک ہی آرزو ہے, اللہ پاک سے کہ چلتے پھرتے موت آئے، محتاجی نہ ہو کسی کی”
یہ الفاظ، من چاہی موت کی یہ آرزو ہم نے کم وبیش سینکڑوں مرتبہ اپنی اماں کی زبان سے سنی۔ ہمیشہ یہی سوچا، اماں بھی معلوم نہیں کیا کہتی رہتی ہیں؟ بھلا موت کیسی ہو اور کب ہو، کی بھی کوئی آرزو رکھا کرتا ہے۔
اماں کی یہ دعا تو منظور نہ ہوئی لیکن ہمیں ان کی تمنا کی معنویت تب سمجھ میں آئی جب ہماری انتہائی پرجوش اور متحرک ماں کو پانچ سال معذوری کے عالم میں بستر پہ گزارنے پڑے۔ اس عرصے میں ہم نے اپنی ماں کو قطرہ قطرہ پگھلتے دیکھا۔ پانچ سال کی کٹھن مسافت کے بعد جب شمع گل ہونے کو تھی، لو بجھ رہی تھی، تب ہمیں محسوس ہوا کہ کس شدت سے ان کی بینائی سے محروم نگاہ ہر وقت بند کواڑوں کی طرف رخ کیے کسی کے انتظار میں گھڑیاں گنتی رہتی ہے۔ موت کا حسن انہیں مسحور کرتا تھا اورزندگی سے دامن چھڑا کے نئی منزلوں کے سفر کی چاہت ان کی دھڑکنوں کو بے ترتیب کرتی تھی۔
لیجیے، اماں کے آخری دنوں کے احوال سے ایک فلم بھی یاد آ گئی۔ Amour ایک عمر رسیدہ جوڑے کی کہانی ہے جو زندگی کی آخری سیڑھی پہ کھڑا اپنی باری کا منتظر ہے۔ بیوی کی بیماری اور تکلیفیں اسے دن بدن بے حال کیے جاتی ہیں اور شوہر سے محبوب بیوی کا حال دیکھا نہیں جاتا۔ اس بے بسی کے عالم میں موت کو حسین بنانے کی کوشش میں محبوب بیوی کا بناؤ سنگھار کرنا اور پھر موت کی بانہوں میں دے دینا ناظر کو ایک ایسی خود فراموشی کی کیفیت میں لے جاتا ہے جس سے نکلنا آسانی سے ممکن نہیں۔
من چاہی موت یا یوتھنیزیا کا تصور امریکہ کی بہت سی ریاستوں اور دنیا کے بہت سے ملکوں میں قانونی قرار دیا جا چکا ہے۔ ایسے تمام مریض جو کسی بھی بیماری کے ہاتھوں ایام زندگی کی تاب نہیں لا سکتے، انہیں موت زندگی کی نسبت شیریں تر محسوس ہوتی ہو، وہ موت کی پرسکون وادی میں اترنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
ابھی وہ وقت تو نہیں آیا کہ ہم اپنی اماں کی زبان میں کسی آرزو یا تمنا کا جاپ کرنے لگیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کبھی کبھار بیٹی سے لاڈ پیار کرتے ہوئے اٹھلا کے یہ ضرور پوچھتے ہیں،
” سنو! اگر ہم سے بڑھاپے کی تکلیفیں برداشت نہ ہوئیں تو کیا کرو گی تم؟ “
وہ بڑی متانت اور سنجیدگی سے کہتی ہے،
” آپ کو یوتھینیزیا والی ریاست میں لے جاؤں گی”
اس بات پہ ہم دونوں ہنستے ہیں، خوب قہقہے لگاتے ہیں اس وقت تک، جب تک دونوں کی آنکھیں گیلی نہ ہو جائیں۔
دیکھیے، خلیل جبران نے “موت کا حسن” کے نام سے کیا خوبصورت نظم کہی ہے (ترجمہ: نود خان )
مجھے اب سو جانے دو
کہ مُحبت میری روح میں
آمیزش کر چُکی ہے
مُجھے آرام کرنے دو
کہ میرا وجود اپنے حصے کے
دن اور رات کاٹ چُکا ہے
اگربتی اور دئیے جلاو
میرے سرہانے رکھ دو
گلاب و یاسمین کے پھول
میرے جسم پہ پھیلا دو
میرے بالوں کو خوشبودار تیل سے
اور میرے پیروں کو عطر سے مسلو
اور پڑھو میری پیشانی پر کہ یہاں
دستِ مرگ نے کیا نوشتہ کیا ہے
میں پہاڑ کی چوٹی سر کر آیا ہوں
اور میری روح اڑ رہی ہے
آزادی کی مکمل اور کھلے آکاش میں
میں دور ، بُہت دور ہوں
ساتھیو!
اور بادلوں نے پہاڑوں کو
میری نظروں سے اوجھل کردیا ہے
وادیاں سکون کے سمندر میں ڈوبی ہوئی ہیں
سڑکوں اور مکانوں کو
گمنامی کے ہاتھوں نے تھام لیا ہے
میدان اور کھیت
ایسے اک سفید سایے میں
گُم ہوتے جارہے ہیں
جو بہار کے بادل جیسا دکھتا ہے
موم بتی کی روشنی جیسا زرد
شام کے دھُندلکے جیسا سُرخ
لہروں کے گیت
اور آبشاروں کے نغمے
پھیلتے جارہے ہیں
ہجوم کا شور گھٹتے گھٹے
خاموشی میں بدل چُکا ہے
اور مُجھے سازِ ازل کے سوا
کُچھ سنائی نہیں دیتا
جیسے روح کی ہمیشہ سے خواہش تھی
تمام آہنگ کے ساتھ
میں مُکمل سفیدی میں گھُل چُکا ہوں
مُجھے اطمینان ہے ، مُجھے سکوُن ہے۔۔