عرصہ پہلے محترم مبشر زیدی صاحب نے ایک تحریر لِکھی تھی مہنگا خُدا ؛ جِس میں اُنھوں نے نہایت خُوبصورتی سے معاشرے کے مُختلف طبقات میں رائج خُدا کے تصور پر طنز کِیا تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں ابھی لطیف طنز کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے شاید اِس کی وجہ ہمارا نظامِ تعلیم بھی ہے کِسی نہ کِسی حد تک اور کہیں نہ کہیں ہماری عدم برداشت بھی ؛ خیر کُچھ عرصے سے میں اِس پر لِکھنا چاہ رہا تھا کہ خُدا کا تصور ہمارے مُسلم سماج میں کافی جامد سا ہے ۔
آگے چلنے سے پہلے یہ کہنا بالکل غیر ضروری نہیں ہوگا کہ ہر لِکھنے والے کی طرح یہ سب بھی ناچیز کی ذاتی رائے ہے ، کُچھ سوال ہیں تو کُچھ مخمصے ؛ اگر پسند نہ آئیں تو نظرانداز کر دینا بہتر ہوگا بجائے اِس کے کہ آپ فتاویٰ بازی شُروع کردیں یا ناچیز کو مذہبی حوالہ جات دینا شروع کردیں ؛ درخواست ہے کہ تسلی اور دھیان سے بات پر اور پیغام پر غور کیجئیے گا ۔
ہمارے ہاں عُلماء کرام کا زور اِس بات پر زیادہ ہوتا ہے کہ عبادات کی جائیں ، خُدا کو راضی رکھنے کے لئے عِبادات بُہت ضروری ہیں ، جہنم کی سزاؤں سے ڈرایا جاتا ہے اور خُدا کا تصور نعوذباللہ کُچھ ایسے بنا کر پیش کِیا گیا ہے جیسے خُدا کوئی بُہت غُصے والا ہے اور اُس کو میرے جیسے کِسی ذرہ بے نشاں کے عبادت نہ کرنے سے غُصہ آ جائے گا اور وُہ سزا دے گا ۔
نہیں مُجھے یہ سب دلیل اور منطق سے دُور کی باتیں لگتی ہیں ؛ کہیں مُجھے ایسا لگتا ہے کہ بُہت سارے اِحکامات جیسے symbolic ہیں جِن کا ہم نے من و عن مطلب لے لِیا ہے ۔ ہم نے حقوق اللہ پر تو بُہت زور دِیا ہے لیکن حقوق العباد ہمارے ہاں کافی درجے نیچے ہے ۔
کبھی مُجھے ایسا لگتا ہے کہ جو بندہ معاشی مسائل کا شِکار ہے اُس کا تصورِ خُدا کافی سخت ہے ، جو ذرا بہتر ہے اُس کا تصور قدرے بہتر ہے اور جو ایلیٹ کلاس ہیں اُن کے ہاں اگر تصورِ خُدا ناپید نہیں تو بھی اُن کا خیال بُہت کُھلا ڈُلا ہے ۔ کبھی سوچتا ہُوں کہ ریاست نے مذہبی احکامات ، گُناہ اور جَرائم کو مِکس کر کے کُچھ اچھا نہیں کِیا ، دو سے زائد نسلوں کو برباد کر دِیا ہے ۔
جب یہ لِکھ رہا ہُوں تو معلوم ہے کہ بات کرنے کی آزادی بھی اُس طرح نہیں جیسے ہونی چاہئیے کہ ہم لوگ مذہبی طور پر بُہت حساس ہیں ۔ سوالات اُٹھتے ہیں دِل میں تو مذہب کا ساتھ چُھوٹ جانے کا خوف آتا ہے لیکن پھر تسلی یہ بھی ہوتی ہے کہ راہِ حق کی تلاش میں ایسے مراحل تو آنے ناگُزیر ہیں ۔ اِس راہ پر چلنا ہے یا اُس راہ پر چلنا ہے ؛ جِس بھی راہ پر چلوں گا سوال ، تحقیق اور غور و فِکر کے بغیر نہیں چلوں گا ۔ مُجھے معلوم ہے کہ ایسی باتیں پسند نہیں کی جاتیں لیکن اکثر آپ کے دِل میں ایسے سوالات آتے تو ہوں گے جو آپ کِسی خوف کی بُنیاد پر دبا جاتے ہوں شاید ! میرے دِل میں سوال آتا ہے کہ کُچھ کنفیوژن ہے کہ اِسلام میں زیادہ تر عُلماء نے موسیقی کو حرام کہا ہے تو دِل میں خیال آتا ہے ، سوال آتا ہے کہ کیا میرا خُدا معاذاللہ اِتنا سخت دِل ہے کہ اُسے موسیقی کی آواز نہیں پسند ؟ دِل کا جواب آتا ہے کہ نہیں خُدا کو موسیقی سے کوئی مسئلہ نہیں مُلا کو ہوگا شاید ۔ سوچتا ہُوں کہ جِتنا کہہ دیا ہے یا لِکھ دِیا ہے یہ بھی قابلِ قبول نہیں لیکن کیا کروں کہ سوالات جان نہیں چھوڑتے اور جواب دینے والے عُلماء ایک مخصوص مائینڈ سیٹ سے باہر آ کر جواب دینا نہیں چاہتے یا دے نہیں سکتے اللہ ہی جانے ۔
لیکن سچ یہی ہے کہ اب دلِ ناداں و ناتواں کو یہی لگتا ہے کہ تُمہارا خُدا کوئی اور ہے ، میرا خُدا کوئی اور ہے ۔
اللہ پاک ہم سب کے دِلوں کو سمجھنے کی توفیق دے ۔ آمین ۔