کیا میں روزہ رکھتا ہوں
محترمہ نے فوائد گنوانے شروع کیے۔ جلد کی تازگی، زخموں کی بھرائی، ڈپریشن میں کمی، خطرناک لحمیات کی عدم افزودگی، دماغ کی حفاظت، جسمانی بڑھوتری، خلیوں کی پیدائش، سوجن میں کمی، دل کی صحت، بڑھاپے سے بچاؤ، خون کی روانی، فشار خون میں کمی، ذیابیطس سے نجات، معدے کے السر سے نجات، وزن میں کمی، چربی کے گھلنے، نظام انہضام اور استحالہ کی بہتر رفتار، انسانی دفاعی نظام کی اصلاح، کینسر سے چھٹکارا اور جسم سے زہریلے مادوں کے اخراج تک ہر شے روزے کی زنبیل میں ڈال کر وہ فاتحانہ مسکرا دیں۔ ہم نے کہا بی بی اگر ایسا ہی ہے تو پورا سال روزے رکھا کیجیے۔ ہو سکتا ہے سال دو سال تک آپ ہوا میں اڑنے کے بھی قابل ہو جائیں۔
ادھر بات ختم ہوئی تو ایک اور صاحب ایک جاپانی پروفیسر کو لیے وارد ہو گئے۔ ان سے ملیے۔ یہ ہیں پروفیسر یوشینوری اشومی۔ انہیں 2016 کا نوبل پرائز جس تحقیق پر ملا تھا اس کی رو سے روزہ رکھنے سے کینسر سے بچا جا سکتا ہے۔ اب بتائیے کافر جاپانی بھی روزے کے قائل نکلے۔ ہم فرط ادب سے دوہرے ہونے کو ہی تھے کہ ایک اور دوست نے کہنی مار کر پروفیسر اشومی کا مقالہ ہاتھ میں تھما دیا۔ قصہ مختصر، مقالہ کھودا پر اس میں سے نہ روزہ نکلا نہ رمضان کی فضیلتوں کا ذکر۔ یوں بھی ہماری تیسری آنکھ نہیں ہے۔ یہ مقالہ آٹو فیجی یا خود خوری سے متعلق ہے۔ پروفیسر صاحب نے خود خوری کے طریق کار کو کھوجا اور انعام میں نوبل کمیٹی کی تحسین سمیٹی۔ ہمارے خلیے روز مرتے ہیں اور روز جنم لیتے ہیں۔ شدید ترین فاقہ کشی کی صورت میں اور یہ وہ صورت ہے جو قحط کے دنوں میں نظر آتی ہے، یہ خلیے جسم کو موت سے بچانے کی خاطر بے طرح ٹوٹتے ہیں جس سے توانائی کا اخراج ہوتا ہے اور جسم کو سنبھلنے کا وقت مل جاتا ہے۔ مقالے میں خلیاتی خود خوری کی بحث میں یہ ایک لفظ فاقہ کشی یاروں کو بہت پسند آیا۔ انہوں نے اسے سیدھا روزے سے جا ملایا اور توانائی کا وہ اخراج جو جسم کی آخری دفاعی کوشش ہے اس کو انہوں نے برکت کا نزول سمجھ لیا۔ احباب نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ خود خوری سے جڑے کچھ اور طبی تجربات میں ورزش اور وقتی طور پر بھوکا رہنا سے ایک جیسے نتائج حاصل ہوئے لیکن اس بھوکا رہنے کے دورانیے میں بہت زیادہ مقدار میں پانی پینا لازم تھا۔ سب نے اپنی مرضی کا مطلب نکالا۔ اس کے بعد جولیا کو برقعہ پہنا کر جمیلہ بنا دیا گیا۔ شادیانے بجے، بھنگڑے ڈالے گئے اور روزے کی سائنسی اور طبی فضیلتیں منبر پر آراستہ کر دی گئیں۔ ہم نے صاحب کو بتانے کی کوشش کی پر وہ ہماری تشکیک سے آزردہ منہ پھیر کر چل دیے۔
ابھی ہم ان کے روٹھ جانے کے صدمے میں ہی غرق تھے کہ ایک اور دوست نے کندھا ہلا کر تازہ تازہ گوگل سے نکالی گئی سرچ اور ری سرچ ہماری گود میں ڈھیر کر دی۔ ارشاد ہوا کہ دیکھو طب مغرب بھی روزے پر تحقیق میں مصروف ہے۔ یہ دیکھو فاسٹنگ سے کن کن امراض میں کنٹرول اسٹڈی کی جا رہی ہے۔ ہم نے ہاتھ جوڑے، انہیں پھر سے بتایا کہ طبی تجربات میں جہاں فاسٹنگ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اس کا ترجمہ روزہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک مختصر دورانیے کی فاقہ کشی ہے جس میں پانی اور ہلکے مشروبات کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ شملہ پہاڑی کو کوہ طور نہ جانیے۔ انہوں نے ہمارے بندھے ہاتھ دیکھ کر نجانے کیا سمجھا کہ کافر کافر کا شور ڈال دیا۔ ہم بلھے شاہ کے پیرو ہیں لیکن پیار سے زیادہ ڈر مولانا خادم رضوی سے لگتا ہے اس لیے آہو آہو کہنے سے پرہیز کیا اور جائے وقوعہ سے فرار ہو گئے۔
ہماری روزہ کشائی اس وقت ہوئی تھی جب ہم توتلی زبان میں گفتگو کیا کرتے تھے۔ عبادت کی غرض اور غایت سمجھنا تو دور، ہمیں تو یہ دو لفظ بھی معلوم نہیں تھے۔ ایک تقریب کا اہتمام تھا۔ مہمان در مہمان۔ شرط بس یہ تھی کہ ہمیں صبح سے شام بھوکا رہنا ہے۔ اس کے انعام کے طور پر شام ہوئی تو ہر ایک سے پیار ملا۔ تحائف کا ایک انبار الگ اور تعریفی جملوں کی کئی گٹھریاں بندھ گئیں۔ پتہ لگا کہ روزہ رکھنے سے سب کی توجہ ملتی ہے۔ اسی لالچ میں اور روزے رکھے۔ پھر ہم جماعتوں سے اور عم زادوں سے مقابلہ شروع ہوا۔ میں نے دس روزے رکھے۔ تم نے نو رکھے۔ میں جیت گیا۔
کہنے کو خدا اور انسان کے بیچ کا معاملہ خودنمائی کا اشتہار بن گیا۔ بڑوں کے رویے سے اس کو مہمیز ملی۔ وہ جو کبھی نہ پوچھتے تھے کہ منہ میں کتنے دانت ہیں۔ ان کا بھی چھوٹتے ہی ایک ہی سوال "روزہ رکھا ہے". پتہ لگا کہ روزہ رکھنا تو ازحد ضروری ہے کہ سماجی دباؤ اس ہی کا متقاضی ہے۔ پھریہ بھی آشکار ہوا کہ روزے نہ رکھنے والوں کا مقاطعہ بھی ضروری ہے اور انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھنا بھی لازم ہے۔ کھوجے مار اور روزہ خور جیسی استہزائی تراکیب ہمہ وقت جیب میں پڑی ہوتیں کہ حسب ضرورت ارزاں کی جا سکیں۔ نفرت اور حقارت میں ملبوس ایک نگاہ غلط تو ہتھیار تھی ہی کہ جہاں رمضان میں کوئی کھاتا پیتا نظر آ جائے اس پر مانند برق گرا دی جائے۔ کسی نے کبھی یہ نہ بتایا کہ قاضی بن جانا فرض ہے نہ سنت ہے۔ رمضان میں روزے کی نمائش کرنا عید قربان میں بکرے کی نمائش جتنا ہی ضروری ٹھہرا۔ روزے کے دیگر اخلاقی لوازمے بچپن میں بھی سنے، آج بھی سنتے ہیں پر یہ نہ سمجھ پائے کہ چودہ صدیوں میں بھی یہ ہمارے ڈی این اے کا حصہ کیوں نہ بن پائے۔ کیا یہ محض زیب داستان کے لیے ہیں، کیا غیر فطری ہیں یا پھر اخلاقی تربیت کا راستہ کوئی اور ہے اور ہم اسے اس بازار میں ڈھونڈ رہے ہیں جہاں اسے کھویا نہیں تھا۔
پچھلے رمضان میں ایک دوست کے گیس میٹر لگنے تھے۔ درخواست مدت سے دی ہوئی تھی۔ عین وقت پر ارباب اختیار نے مژدہ سنایا کہ ابھی تین ماہ اور لگیں گے۔ سحر اور افطار میں دقت تھی۔ کسی نے ایک دفتری اہلکار کا پتہ بتایا۔ رابطہ کیا تو صاحب نے تیس ہزار رشوت طلب کی۔ دوست مان گئے۔ جس دن تبادلہ رقم ہونا تھا تو بعد از مغرب وقت طے ہوا۔ یہ گھر سے نکلے تو ٹریفک میں پھنس گئے۔ کچھ دیر گزری تو فون آ گیا کہ بھیا آدھ گھنٹہ سے زیادہ نہیں ہے آپ کے پاس کیونکہ اس کے بعد نماز عشاء اور تراویح پڑھنے جانا ہے اور اس میں کوتاہی کفر ہے لہذا رشوت کی رقم اس سے پہلے پہلے پہنچا دی جائے۔ دوست نے قصہ مزے لے کر سنایا اور روزہ داروں کے اخلاقی دیوالیہ پن پر بہت سے تبصرے کیے۔ چونکہ دوستی عزیز تھی اور ہم خود بھی ڈھلمل سے ہی ہیں ان معاملات میں، تو راشی اور مرتشی کے بارے میں سنے ہوئے محاورے سے پرہیز کیا اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔
ایک ڈاکٹر صاحب ملے۔ روزے کے نقصانات کی ایک لمبی فہرست پاس رکھی تھی۔ کہنے لگے کہ ذیابیطس، گردے اور جگر کے لیے روزہ زہر قاتل ہے اور ہمارے یہاں ہر دوسرا شخص ان میں سے کسی نہ کسی حوالے سے یا تو سرحد پر کھڑا ہے یا پھر پہلے سے شکار ہے۔ روزے کے ضمنی اثرات میں سر درد، بدہضمی، معدے کی تیزابیت، دہن میں بیکٹیریاز کی افزائش، نظام انہضام کی سستی، دل کی دھڑکن میں بے قاعدگی اور ہارمونز کا عدم توازن بھی انہوں نے گنوا دیے۔ اس کے ساتھ ساتھ نفسیاتی اثرات میں چڑچڑا پن، سستی، ذہنی تھکن اور ڈپریشن الگ ہیں۔ ہم نے کہا کہ یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ روزے کے خلاف ہیں۔ مسکرائے ۔ کہنے لگے پچھلے بیس سال میں ایک روزہ بھی نہیں چھوڑا۔ پوچھا پھر یہ چارج شیٹ کس حساب میں تو کہنے لگے یہ بتانے کے لیے کہ روزہ ایک آزمائش اور امتحان ہے جس میں بہت سی سختیاں ہیں اور ان میں سے بہت سی سختیاں طبی حوالے سے بھی ہیں۔ جیسے نماز ایک عبادت ہے، یوگا کی مشق نہیں ہے کہ اس سے گھٹنوں کے مرض ٹھیک ہو جائیں اسی طرح روزہ بھی ایک عبادت ہے، بیماریوں کی دوا نہیں ہے۔ قدیم زمانے سے عبادت گزاری کا ایک مظہر یہ بھی رہا ہے کہ عابد اپنی جان پر سختی کرتا ہے، یہ سمجھنے کے لیے کہ یہ تکلیف وہ کسی دنیاوی آرام کے لیے نہیں صرف معبود کی خوشنودی کے لیے برداشت کر رہا ہے اور وہ یہ کر سکتا ہے۔ وہ جسمانی اور مادی فائدوں سے بے نیاز صرف اپنے معبود کے لیے ایسا عمل کرنے کو تیار ہے جس کا اجر بھی صرف معبود کے پاس ہے۔ اختیاری فاقہ کشی بھی ایسا ہی ایک مظہر تھی جو رفتہ رفتہ روزوں کی شکل اختیار کر گئی۔ آج کے دور میں پر اتنی سادہ تعریف سے لوگوں کا دل نہیں بھرتا تو وہ نماز میں ورزش کے فوائد نکال لاتے ہیں اور روزے میں جسمانی تطہیر اور ڈی ٹوکسیکیشن جیسا فلسفہ ڈال دیتے ہیں اور پھر اس کی سائنسی توجیہات بنانے میں لگ جاتے ہیں۔ کوئی پوچھے روزہ خدا کی خوشنودی کے لیے ہے تو پھر اس میں وزن کم ہو جانے کا لاحقہ لگانے کی کیا تک ہے۔ بات کام کی تھی، سمجھ آگئی پر بہت سوں کو نہیں آتی۔
یہ بھی ہمارے سامنے کا ہی قصہ ہے کہ غیر مسلموں، بوڑھوں، بچوں، مریضوں اور کسی بھی وجہ سے روزہ نہ رکھنے والوں کے لیے کھانے پینے کی ہر پابندی سخت کر دی گئی۔ اب بے شک آپ رمضان میں چلچلاتی گرمی میں پتھر توڑ رہے ہیں یا شوگر کی کمی کی وجہ سے قریب المرگ ہیں ،آپ پانی کا ایک گھونٹ بھی کھلے عام نہیں لے سکتے کہ روزہ داروں کے انتہائی نازک جذبات کرچی کرچی ہو جاتے ہیں۔ جہاں اہل ایمان کا بس چلے گا وہ سڑک پر ہی آپ کو دھنک کر رکھ دیں گے نہیں تو تین ماہ کی قید اور پانسو جرمانہ تو ہے ہی۔ خدا نے مقرب فرشتوں کو احترام رمضان کروانے کی زمہ داری نہیں دی تھی پر مقننہ نے یہ زمہ داری ایس ایچ او صاحبان کو ضرور تفویض کر دی ہے۔
روزہ آپ کی ذاتی عبادت ہے۔ اور ہر مذہبی فلسفے کے تحت یہ آپ کے اور آپ کے خدا کے بیچ کا معاملہ ہے۔ نہ آپ کو اس کا اشتہار لگانے کی ضرورت ہے نہ اس کے مادی فوائد تلاش کرنے کی۔ اور کسی اور کی ذاتی عبادت میں مداخلت یا استفسار کا آپ کے پاس کوئی جواز تو ہر گز نہیں ہے۔ کیا اس سے طبی فائدے ہوتے ہیں؟ میرا نہیں خیال۔ کیا اس سے کوئی اخلاقی اصلاح ہوتی ہے؟ معاشرہ بھی آپ کے سامنے ہے اور روزہ داروں کا اخلاقی معیار بھی۔ کیا ایک ماہ کی روزہ داری سے باقی سال کی اصلاح احوال ہو جاتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ایک لمبی چپ بھی ہے اور تیز ہوا کا شور بھی ۔ تو بھائی مشورہ یہ ہے کہ خدا اور اپنے معاملے کے بیچ طبی تحقیقات، اخلاقی فلسفے اور معاشرتی نظام کو مت لائیے۔ عبادت کو عبادت رہنے دیجیے۔ اور رہا آپ کا یہ سوال کہ میں روزہ رکھتا ہوں یا نہیں تو یہ دیکھیے یہ کیا ہے، ارے یہ تو آپکی ناک ہے۔ یہ تو آپ کے چہرے پر ہونی چاہیے، یہ میرے گھر کی دہلیز میں دروازے کی درز سے آدھی اندر کیوں گھسی ہوئی ہے؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“