سرائیکی علاقہ خوش بخت ہے کہ اسے رئوف کلاسرا جیسا لائق صحافی میسر آیا۔
خوش بختی کے مظاہر سرائیکی پٹی کے حوالے سے اور بھی بہت ہیں۔ جتنے حکمران پاکستان کو بالعموم اور پنجاب کو بالخصوص یہاں سے ملے ہیں اتنے مغلیہ خاندان نے بھی ہندوستان کو نہیں عنایت کیے۔ ممتاز احمد خان دولتانہ، مشتاق احمد گورمانی، غلام مصطفی کھر، صادق قریشی، نواب عباسی، مخدوم سجاد قریشی، ذوالفقار کھوسہ، لطیف کھوسہ، دوست محمد کھوسہ، فاروق لغاری، بلخ شیر مزاری، عبدالحمید خان دستی، یوسف رضا گیلانی سب سرائیکی خطے سے ہیں۔ یہ تو خیر وہ اصحاب ہیں جو وزیراعظم، صدر ، وزیراعلیٰ یا گورنر رہے۔ ان کے علاوہ بااثر شخصیات بھی جو حکومتوں کو جوڑنے، توڑنے اور پالیسیاں مرتب یا تبدیل کرنے کے حوالے سے پیش منظر پر رہیں اور آج بھی ہیں، کم نہیں ہیں۔ اسحاق خاکوانی، جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی، حنا ربانی کھر سب یہیں سے ہیں۔ سرائیکی وسیب کے علم بردار ڈیرہ اسماعیل خان کو بھی راجدھانی کا حصہ گردانتے ہیں۔ اس لحاظ سے سابق چیف منسٹر سرحد مفتی محمود مرحوم اور ان کے انتہائی متحرک اور بااثر سیاستدان فرزند مولانا فضل الرحمن بھی اسی کھاتے میں پڑتے ہیں اور فیصل کریم کنڈی بھی یہیں سے ہیں۔ سرائیکی علاقے کی محرومی کی لاکھ داستانیں بیان کی جائیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ خوش قسمت علاقہ اکثر و بیشتر پورے ملک اور پورے صوبے کے سیاہ و سفید کا مالک رہا ہے! اس پٹی کے پاس بقول منیر نیازی ایسا طلسم ہے جو کئی زمانوں کا اسم ہے
رئوف کلاسرا لکھتے ہیں… ’’سندھ واحد صوبہ تھا جس کے لیے اربن اور رورل کوٹے کی تقسیم رکھی گئی تھی۔ پنجاب بڑا صوبہ تھا لیکن بھٹو صاحب نے سرائیکیوں کو نوکریوں میں علیحدہ کوٹہ نہیں دیا تھا اور آج بھی سرائیکیوں کو پورے پنجاب کے ساتھ مقابلہ کرکے کوئی بچی کھچی نوکری تلاش کرنا پڑتی ہے۔‘‘
غالباً وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ سندھ میں تو اربن رورل کی تقسیم ہے لیکن پنجاب میں دیہاتی اور دور افتادہ علاقوں کو مراعات یافتہ علاقوں کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑتا ہے! ظاہر ہے سرائیکی علاقے کے علاوہ بھی پنجاب کے محروم توجہ غیر ترقی یافتہ اور پس ماندہ حصے موجود ہیں! مثلاً ضلع اٹک اور اس کی ایک سابق تحصیل تلہ گنگ ہی کو لے لیجئے، غربت، محرومی اور سیاسی بے چارگی میں شاید ہی کوئی خطہ یہاں کا مقابلہ کر سکے۔ ایک بدقسمتی کی بنیاد تو انگریزی سامراج ہی رکھ گیا کہ چونکہ یہ ’’مارشل ایریا‘‘ ہے اس لیے یہاں صنعت لگانے کی ضرورت نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ملازمتیں میسر آنے لگیں تو فوج کی بھرتی کم ہو جائے۔ یہ رجحان ابھی تک قائم ہے۔ حالانکہ آج کے زمانے میں، جب ساڑھے چار فٹ کے ویت نامیوں نے نردبان جیسے امریکیوں کو لوہے کے چنے چبوا دیے، کسی خاص علاقے کو مارشل ایریا قرار دینا سراسر زیادتی ہے! وہ تو بھلا ہو دفاعی پیداوار کے سیکٹر کا جس نے واہ، سنجوال اور کامرہ میں دفاعی مقاصد کے لیے کارخانے لگائے اور مقامی لوگوں کو روزگار ملنے لگا۔
پس ماندہ علاقوں کے مسائل ایک جیسے ہیں۔ سرائیکی علاقہ ہو یا اٹک تلہ گنگ ہو، مری کی گلیات ہوں یا جھنگ کے میدان اور میانوالی کے پہاڑ ہوں یا جہلم کی سطح مرتفع، غربت کا رنگ یکساں ہے۔ بنیادی طور پر ان علاقوں کو، رواں ایام کے حوالے سے، دو مصیبتوں کا سامنا ہے۔ ایک وہی جس کا ذکر کلاسرا صاحب نے کیا ہے۔ ضلعی حکومتوں کا نہ ہونا۔ پرویز مشرف کا نامۂ اعمال حکومتی اقدامات کے لحاظ سے، حوصلہ افزا ہرگز نہیں۔ اس کے جرائم کی فہرست طویل ہے اور سنگین بھی، لیکن اس کے باوصف سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہے بغیر چارہ نہیں۔ ضلعی حکومتوں کا قیام اس کا ایسا کارنامہ ہے جس کی افادیت سے وہی شخص انکار کر سکتا ہے جو منصف مزاج نہ ہو۔ خاص طور پر وہ لوگ جو شہروں سے ہیں، اس مسئلے کی نزاکت کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ڈپٹی کمشنر (آج کل ڈی سی او) اور ناظم ضلع میں وہی فرق ہے جو غیر ملکی حاکم اور مقامی نمائندے میں ہوتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر یا ڈی سی او کو معلوم ہے کہ اس نے دو یا تین سال گزارنے ہیں اس کے بعد اس کا اس ضلع سے اور ان عوام سے شاید ہی کوئی تعلق ہو۔ گویا ؎
میں نے جو آشیانہ چمن سے اٹھا لیا
میری بلا سے بُوم رہے یا ہما رہے
ترقی اور آئندہ تعیناتی کے لیے اس نے لاہور کی طرف دیکھنا ہے۔ وہ عملی طور پر وائسرائے ہے اور اگر ضلع دور افتادہ ہے تو پھر تو اس کی کوشش آنے کے فوراً بعد یہ ہوتی ہے کہ جلد از جلد ڈھنگ کی کوئی پوسٹنگ ہاتھ لگ جائے۔ اس کے مقابلے میں ضلع ناظم کو معلوم ہے کہ اس نے ساری زندگی یہیں گزارنی ہے۔ آئندہ انتخابات لڑنے ہیں۔ اپنی شہرت کو مثبت رنگ دینا ہے اور اپنی مقبولیت کے لیے استحکام حاصل کرنا ہے؛ چنانچہ وہ علاقے کی ترقی کے لیے اور اپنی نیک نامی کے لیے جان لڑا دیتا ہے۔ اٹک ہی کی مثال دوبارہ لیتے ہیں۔ ضلعی حکومت کے زمانے میں میجر طاہر صادق ناظم ضلع تھے۔ ان کی حرکت پذیری اور فعالیت دیکھ کر تعجب ہوتا تھا۔ آج حضرو میں ہیں تو کل پنڈی گھیپ میں، صبح جنڈ میں ہیں تو شام فتح جھنگ میں۔ اس کالم نگار نے ٹیلی فون کیا کہ ہمارے گائوں کے معززین کو ملنے کا وقت دیجیے، سخت مصروفیت کے باوجود دوسرے دن بلا لیا۔ ہم گائوں کے دس پندرہ لوگ تھے۔ ہمارے دو مطالبات تھے۔ پرائمری سکول کو مڈل سکول کا درجہ دیجیے اور گائوں کے لیے ڈسپنسری منظور کیجیے۔ ڈسپنسری کے لیے جگہ کے کاغذات ہم ساتھ لے کر گئے تھے۔ ناظم نے دونوں مطالبات منظور کر لیے۔ آج گائوں میں پرائمری کی بجائے مڈل سکول قائم ہے، ڈسپنسری کا قصہ سن کر ہمارے پڑھنے والوں کو یہ سمجھنے میں ذرا اشکال نہ رہے گا کہ ضلعی حکومت اور لاہور شاہی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ تین سال سے معاملہ لاہور میں پڑا ہے۔ ڈسپنسری کو صرف بیس لاکھ روپے درکار ہیں۔ ڈی سی او نے پورا کیس بنا کر بھیجا ہے، لیکن ؎
کجا دانند حالِ ماسبکسارانِ ساحل ہا
اتنی شدید ’’مرکزیت‘‘ زیادہ عرصہ کہیں بھی نہیں چل سکتی اور ’’مرکز‘‘ کو اس بادشاہت کی جلد یا بدیر قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ پنجاب کی موجودہ حکومت کو اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کہ ضلعی حکومتوں کو ختم کرکے انگریز کے زمانے کا فرسودہ نظام واپس لانا گھوڑے کو ٹانگے کے پیچھے جوتنے کے مترادف ہے۔
دوسری مصیبت یہ ہے کہ شریف برادران اپنی افتاد طبع کے
باعث ذہنی طور پر لاہور سے باہر نکل ہی نہیں سکتے۔ اگر وہ دیوار کے پار دیکھنے کی صلاحیت رکھتے تو سوچتے کہ پرویز مشرف کے ذریعے آسمان نے جب انہیں اقتدار کی غلام گردش سے باہر پھینک دیا تو آخر کیا سبب تھا کہ 70فی صد ’’رعایا‘‘ نے اس تبدیلی کو درست قرار دیا تھا؟ اس زمانے کے اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہونے والی ایک خبر آج بھی بھولتی نہیں۔ چالیس سے زیادہ کلیدی اسامیوں پر ایک مخصوص علاقے سے تعلق رکھنے والے بیوروکریٹ بٹھا دیے گئے تھے۔ آج بھی لاہور میں فیصلے کرنے والے لوگ صوبے کے اطراف و اکناف سے تعلق رکھتے ہیں نہ حقائق ہی کا ادراک کر سکتے ہیں، افسر شاہی کی نچلی سطح کو تو چھوڑ ہی دیجیے، مسلم لیگ نون کے مرکزی ستونوں ہی پر نگاہ دوڑا لیجیے، عابد شیر علی سے اسحاق ڈار صاحب تک اور خواجہ آصف صاحب سے خواجہ سعد رفیق تک، سب لاہور کے ہیں یا نواح لاہور سے ہیں۔ سردار ذوالفقار کھوسہ صوبے کے جنوب سے تھے لیکن ان کی موجودہ حیثیت ڈھلتی دھوپ سی ہے۔ لے دے کر ایک چوہدری نثار ہیں جو وسطی پنجاب سے باہر کے ہیں۔ اس حقیقت سے مسلم لیگ نون کے کٹر حمایتی بھی انکار نہیں کر سکتے کہ صوبے کے بجٹ کا معتدبہ حصہ ایک ہی شہر پر صرف کیا جاتا رہا ہے۔ خدا اس شہر کو آباد اور شاد رکھے، مسئلہ وہی ہے جو شاعر کہہ گیا ہے ؎
خوبصورت بہت ہو تم لیکن
دوسروں کا بھی کچھ خیال کرو
سرائیکی پٹی کے مسائل سے کسی کو انکار نہیں، رونا یہ ہے کہ اگر ارتکاز کا یہی رنگ رہا تو مطالبہ صرف ایک نئے صوبے تک محدود نہیں رہے گا!! ؎
پاپوش کی کیا فکر ہے دستار سنبھالو
پایاب ہے جو موج، گزر جائے گی سر سے