سوال: کیا مذہب ترقی سے روکتا ہے؟
جواب: پہلے تو آپ یہ طے کر لیں کہ ترقی کہتے کس چیز کو ہیں؟
ترقی مُلکی فتوحات کو نہیں کہتے اور نہ ماضی میں مسلمانوں کی فتوحات کو نہ کسی اور قوم کی فتوحات اور نہ ہی حال میں ایسی کوئی کشور کشائی ترقی کہلاتی ہے۔
ترقی معدنی تیل کی دولت کو بھی نہیں کہتے۔ اور نہ ہی فحاشی اور مادر پدر آزادی کو ترقی کہتے ہیں۔
ترقی، انسانی معاشرہ کی انفرادی اور اجتماعی کوششوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی درجہ بدرجہ بڑھتی ہوئ بہتری اور خوشحالی کو کہتے ہیں۔ ایسی خوشحالی جو انصاف پر مبنی ہو۔ جہاں امن و امان ہو۔ جہاں انسان کی بنیادی ضروریات سب کو میسر ہوں، جہاں آزادئ رائے اور باہمی برداشت کا ماحول ہو، تمیز و تہذیب ہو، عِلمی، تخلیقی، تنقیدی، ادبی، تعلیماتی تحقیقات ہوں، جسکے نتیجے میں وسائل کو بڑھایا جاتا ہو، جہاں سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانی سہولتوں کی اشیاء کی پیداوار ہو، جہاں قدرتی مسائل، ماحول اور رکاوٹوں کو قابو کیا جاتا ہو، جہاں سیاسی، فانونی اور معاشی نظام بہتربنایا جاتا ہو، جہاں آمدنی، قرض سے زیادہ ہو، جہاں تمام علوم بشمول آرٹس یڈیا اور ثقافت کی سرگرمیاں ہوں لیکن اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے ان تمام چیزوں کا اظہار ہو۔ اور جہاں بلا امتیاز انسانی حقوق فراہم ہوں۔ زندگی کے ہر اداره میں مثبت، منصفانہ اور آزادانہ مَیرٹ پر کام ہو، تاکہ یہ زمین کی پستیوں سے اُبهرتا ہوا حیوان ایک اعلیٰ درجہ کا انسان بن سکے.
ایسی ترقی کے نتیجے میں انسان نہ صرف اپنی عزت خود محسوس کرتا ہے بلکہ دنیا کی باقی اقوام بھی ایسے ملک و قوم کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔
اب آپ اس ترقی کے معیار پر ملت مسلمہ کو ناپیں، پرکھیں، اور ایمانداری سے بتائیں کہ کتنے مسلم ممالک اس کسوٹی پر پورے اترتے ہیں؟
اگر نہیں اُترتے تو اکا مطلب ہے کہیں نہ کہیں گڑ بڑ ضرور ہے .وه گڑ بڑ ہماری تعیلم وتربیت، معاشرتی تصّورات اور مذہبی عقائد ہیں جو ہم کو بڑا کرکے اِس حال پر پہنچاتے ہیں. یہی وہی غیرمحسوسانہ قوّتیں ہیں جو ہم کو شَیپ اَپ کرتی ہیں اور ہم انہی کے مطابق ساری زندگی عمل کرتے رہتے ہیں.
ہمارے مذہبی عقائد ایسے ہیں جو ہمارے سارے سسٹم کی راه متعیں کرتے ہیں. مثلاََ چونکہ پاکستان اسلام کے نام پر لیا گیا تها لہذا اسلام کے خلاف ایک لفظ برداشت نہیں کیاجائیگا. عام عوام تو دُور کی بات ہے، عدالتی و حکومتی نظام و ارکان کو بهی اجازت نہیں کہ ساتویں صدی کے مذہبی عقائد کے خلاف بول سکیں یا اسکے متضاد کوئ فیصلہ یا کوئ تبدیلی کرسکیں.
اصل میں، مذہب انسان کی تنقیدی اورتخلیقی صلاحیتوں کو غیرمحسوسانہ طور پرزنگ لگاتا ہے لہذا ترقی نہیں ہو پاتی۔ مثلا جب ہر چیز کی تشریح و تصدیق قرآن و سنت سے ہو گی اور جو اس کے مطابق نہ ہو گی وہ مسترد کر دیا جائےگی۔
ساتویں صدی کے عقل و شعور سے آپ اکیسویں صدی میں کام کیسے کر سکتے ہیں؟ جب ہر چیز خدا نے پیدا کر دی ہے تو ہمیں اب ان چیزوں کی ماہیت اور اوریجن معلوم کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جب آدم پیدا کر دیے گئے ہیں تو اب فاسلز ڈھونڈنے کی کیا ضرورت ہے؟
آپ جب ہر چیز قرآن و سنت سے میچ کر کے آگے بڑھیں گے تو آپ کی وژن محدود ہو جائے گی اور اوپر سے یہ مستزاد کہ یہ دنیا عارضی ہے۔ بس اگلے جہاں کی تیاری کرو۔ چند عبادات کر کے گناہ معاف کراؤ اور جنت میں سیٹ پکی کراؤ ۔
ایک مسلمان اِس دنیا کو کچھ دینے کی صلاحیت کیسے رکهہ سکتا ہے جبکہ اسکو اگلی دنیا کے حصول پر لگا دیا ہو؟
دنیا کے دس بہترین اور خوشحال ممالک میں لادین اور سیکولر ملک ہیں جبکہ اس کے برعکس دس بدترین ممالک میں زیادہ تر مذہبی ممالک ہیں.
.لادین ممالک نے ثابت کر دیا ہے کہ اب انسان کو مذہب کی کوئی ضرورت نہیں رہی. لوگ اپنی عقل اور سائنس کی رہنمائی میں خوشحال اور باعزت زندگی بسر کرسکتے ہیں.
یہ ترقی انہوں نے مذہب کو ایک طرف رکهہ کے کی ہے.
حقیقت یہ ہے کہ مذہب صرف ترقی سے ہی نہیں روکتا بلکہ یہ انسان کو اپنا ذہن استعمال کرنے سے بھی روکتا ہے.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“