کیا مشال خان کو انصاف مل گیا؟
مردان کی خان عبدالولی خان یونیورسٹی میں گزشتہ سال اپریل میں سینکڑوں افراد نے 23 سالہ معصوم ، زہین اور بے گناہ طالبعلم مشال خان کو بے دردی سے قتل کردیا تھا ،مشال خان مردان یونیورسٹی میں جرنلزم کا ہونہار اسٹوڈنٹ تھا ،اسے کمرے سے گھسیٹ کر باہر نکالا گیا ،تشدد کیا گیا ،اس کے بعد اس پر گولیاں برسائی گئیں ،پھر اس کی لاش کی بے حرمتی کی گئی ۔مشال خان ک قصور یہ تھا کہ وہ یونیورسٹی میں ہونے والی کرپشن کے خلاف آواز بلند کررہا تھا ۔اس کے بعد مشال خان قتل کیس ایک ہائی پروفائل کیس بنا ۔مشال خان کے قتل کی ویڈیو اگر سوشل میڈیا پر نہ آتی تو یہ کیس اب تک دب چکا ہوتا ۔تقریبا دس ماہ تک انسداد دہشت گردی کی عدالت میں اس کیس کی سماعت ہوئی ،گزشتہ روز ہری پور کی ہائی سیکیورٹی جیل میں اس کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا ۔عمران علی کو مشال خان قتل کیس میں سزائے موت کی سزاسنائی گئی ،عمران علی جو مشال کا کلاس فیلو تھا ،اس نے ہی مشال خان پر گولیاں چلائی تھی۔اس کے علاوہ پانچ افراد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ،جبکہ 25 افراد کو چار چار سال کی قید کی سزا ملی،26افراد کو اس کیس سے بری کردیا گیا ۔اس کیس میں چار مفرور ملزموں کو اشتہاری قرار دیا گیا ۔اب پولیس ان اشتہاری ملزمان کے خلاف ریڈ وارنٹ ایشو کرے گی ۔اشتہاری ملزمان میں عارف خان ،صابر معیار ،اور اسد خان شامل ہیں ۔عارف خان پی ٹی آئی کا کونسلر ہے جو فرار ہوکر افغانستان جاچکا ہے ۔جبکہ ایک اشتہاری ملزم اظہاراللہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا مشال خان کو انصاف مل گیا ہے ؟فیصلے کے حوالے سے مشال خان کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے ،اس لئے انہیں یقین ہے کہ ان سب کو سزا ملے گی جو اس قتل میں ملوث تھے ۔مشال کی والدہ کہتی ہیں کہ ان کا بیٹا بہت زہین اور خوبصورت تھا ،ابھی بھی مشال کے ساتھ انصاف نہیں ہوا ،کہتی ہیں ان کے بچے کو چوری چھپے نہیں بلکہ سب کے سامنے بے دردی سے قتل کیا گیا ،لیکن یہ کونسا انصاف ہے ؟یہ پورا نہیں آدھا ادھورا انصاف ہے ۔مشال خان کے والد اقبال خان نے آگے بڑھ کر بہادری سے کیس لڑنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کا بیٹا تو چلا گیا ،اب وہ یہ نہیں چاہیں گے کہ پاکستان کا کوئی اور بچہ مشال خان کی طرح قتل ہو،اور اس وہ بہت حد تک کامیاب رہے ،کم از کم موجودہ صورتحال میں تھوڑا بہت انصاف تو ملا ہے ۔مشال خان قتل کیس کے وکیل کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخواہ پولیس نے پروفیشنل طریقے سے کیس کی تفتیش کی ،پراسیکوشن نے کیس دلائل سے لڑا ،اس لئے کسی حد تک مشال خان کو آدھا انصاف مل سکا ،اس انصاف کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا ۔جو پاکستان کے موجودہ حالات ہیں ،اس کے مطابق بہت مناسب فیصلہ آیا ہے ۔وکیل کے مطابق اب وہ ہائی کورٹ میں ان افراد کے خلاف اپیلیں کریں گے جن کو رہائی ملی ہے ،تاکہ ان کو بھی سزا مل سکے ۔وکیل کے مطابق ہائی کورٹ شواہد کی بنیاد پر ضرور انہیں ریلیف دے گی ۔مشال قتل کیس کے حوالے سے ایک جے آئی ٹی بھی بی تھی ،اس جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مشال یونیورسٹی انتظامیہ کی کرپشن کے خلاف میڈیا پر آواز اٹھاتا تھا ،لیکن فیصلے میں مشال کے قتل کے منصوبہ سازوں یعنی ماسٹر مائینڈز کے خلاف کوئی بات نہیں کی گئی ۔اس کیس میں ماسٹر مائینڈز بہت اہم تھے ،کیونکہ مشال کے قتل سے دو روز پہلے یونیورسٹی انتظامیہ نے اس کے خلاف کاروائی کرکے اسے یونیورسٹی سے نکالنے کا نوٹیفیکشن جاری کیا تھا ۔یونیورسٹی کے اس نوٹیفیکشن کی وجہ سے طلبہ مشتعل ہوئے ،اس کیس سے ایسے لگتا ہے کہ کچھ طاقتور افراد جن کا تعلق یونیورسٹی انتظامیہ سے تھا وہ شامل تفتیش ہونے سے رہ گئے یا انہیں سیاسی دباو ڈا کر شامل تفتیش ہونے سے بچاگیا ۔صوبائی اور مرکزی حکومت نے اس حوالے سے توجہ نہیں دی ۔اب پولیس چاہے تو یونیورسٹی انتظامیہ کے ان کرداروں کے خلاف کاروائی کرسکتی ہے جو قتل کے حقیقی منصوبہ ساز تھے ۔وہ جو ماسٹر مائینڈز تھے جنہوں نے قتل پر اکسایا ۔پاکستان میں بظاہر ایک مثالی صورتحال نہیں ہے ،اس لئے مکمل انصاف کی توقع پہلے دن سے ہی نہیں تھی ۔اس لئے کے پی کے کی حکومت کی زمہ داری ہے کہ وہ ماسٹر مائینڈ ز کے خلاف کاروائی کے حوالے سے پولیس کی مدد کرے اور انہیں بھی کیفر کردار تک پہنچائے ۔اس ملک میں ادھورا انصاف مل جائے ،وہ بھی ایک غنیمت ہے ۔البتہ وکلاٗ اور مشال خان فیملی کے علاوہ سول سوسائیٹی کے اس فیصلے پر تھوڑے بہت اعتراضات ہیں ۔اب سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ فیصلہ مزاحمت کی علامت بنے گا یا اور بھی مشال خان قتل ہوتے رہیں گے ؟مجھ سے اگر یہ سوال پوچھا جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معمولی فیصلہ ہے ،اس سے بہت زیادہ مزاحمت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔جس طرح گزشتہ تیس چالیس سالوں سے ریاست نے بیانیہ اختیار کیا ہوا ہے اور جس طرح کی تعلیم بچوں کو دی جارہی ہے ،اس سے مشال جیسے قتل کے واقعات کا امکان ہمیشہ رہے گا ۔اس ایک کیس یا انفرادی کیس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا ،ریاست کو اپنا بیانیہ انسانی بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا ۔ملک کو بچانا ہے ،ان بچوں کو بچانا ہے تو ریاست کو چاہیئے کہ وہ بیانیہ بدلے ۔اب فیصلہ آگیا ہے ،اب اس کیس کا دوسرا فیز شروع ہوگا ،ایک نئی بحث کا آغاز ہو چکا ہے ،وہ جن کو سزائیں مل چکی ہیں ،وہ بھی اپیلیں فائل کریں گے ،قصاص و دیت کی بھی بات ہو گی اور مشال کے والدین پر دباو بڑھایا جائے گا ۔ان پر سیاسی و غیر سیاسی ہر قسم کا دباو ڈالا جائے گا ۔اب کوشش کی جائےگی کہ اس کیس سے اے ٹی سی کی دفعات ہٹائی جائیں ۔وہ 26 افراد جن کو رہا کیا گیا ہے کچھ جماعتیں انہیں ہیرو بناکر پیش کررہی ہیں ،گزشتہ روز ان چھبیس افراد کی رہائی پر جشن منایا گیا ،اس جشن میں مشال خان کے خلاف نعرے بلند کئے گئے اور رہا ہونے والوں کو غازی کہا گیا ۔اس فیصلے پر ججوں اور خیبر پختونخواہ حکومت کے خلاف تنقید کا آغاز بھی ہوچکا ہے ۔کہا جارہا ہے کہ کیونکہ کے پی میں یہودی ایجنٹ کی حکومت ہے اس لئے مشال کے حق میں فیصلہ آیا ۔عمران خان کو ایک کریڈٹ تو ضرور جاتا ہے کہ وہ واحد رہنما تھے جو مشال کے قتل کے بعد ان کے والدین سے ملنے گئے اور کہا کہ مشال قتل کیس پر انصاف ہوگا ۔عمران خان کی خیبر پختونخواہ حکومت اور پولیس نے مشال قتل کیس کے ھوالے سے ہر قسم کی مدد کی ۔مشال تو قتل ہو گیا ،اس کا گھرانہ اب بھی مشکل صورتحال میں جی رہا ہے ،مشال کی دونوں بہنیں مشال کے قتل کے بعد کالج نہیں گئی ،انہیں خوف ہے کہ کہیں ان کے ساتھ کچھ برا نہ ہو جائے ،اس کے علاوہ مشال کے والدین کو دھمکیاں بھی مل رہی ہیں کہ وہ کیس سے دور ہو جائیں ،سوال یہ ہے کہ اصل مسئلہ کیا ہے ؟اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب چند ہزار لوگ اسلام آباد کو یرغمال بنالیں گے ،جب یہ لوگ منافرت پھیلائیں گے ،اشتعال پھیلائیں گے ،نفرت کا پرچار کریں گے ،پھر ریاست ان کے ساتھ معاہدے کرے گی ،تو پھر ایسی سوچ تو پیدا ہوگی جس سے انتہا پسندی پروان چڑھے گی ،اس لئے اس ریاست کے نظام کو ایک نئی سوچ کی ضرورت ہے۔۔۔۔اب دیکھتے ہیں کہ ریاست مشال قتل کیس کے فیصلے کے بعد کیسے آگے بڑھتی ہے ؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔