کیا مارشل لاء کا وقت آگیا ہے؟
یہ کم ہی دیکھنے میں آیا کہ ایک سویلین وزیر داخلہ فوجی حکام کو مشورہ دے رھا ہو یا تنبیہ کر رھا ہو کہ "فوجی ترجمان معیشت پر تبصرہ نہ کریں، غیر ذمہ درانہ بیانات پاکستان کی عالمی ساکھ کو متاثر کر سکتے ہیں" وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے 13 اکتوبر کو اس بیان کے ذریعے ایک دفعہ پھر سویلین حکومت اور فوجی حکام کے درمیان بڑھتی ہوئی کشمکش کا اظہار کیا ہے۔
اس سے قبل 11 اکتوبر کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کراچی میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "سلامتی اور ترقی جڑواں ہیں اور قرضےآسمان پر چلے گئے، تجارتی توازن درست نہیں"۔ یہ بھی پہلی بار ہوا کہ ایک آرمی چیف پبلک میں اپنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رھا ہو۔
جیسے ہی سویلین حکومت نے جائز طور پر فوجی حکام کو تنبیہ کرنے کی جرات کا مظاہرہ کیا تو ساتھ ہی فوجی مداخلت کے حامی بھی سیاسی میدان میں آگئے اور اسی روز ہی عمران خان نےاحسن اقبال کے بیان کو "ڈان لیکس" کا حصہ قرار دے دیا۔
مئی 2016 کو روزنامہ ڈان کے سیرل ایملڈا نے اپنی ایک رپورٹ میں حکومت اور فوجی حکام کے درمیان ہونے والے ایک اجلاس کی روداد بتاتے کہا تھا کہ شہباز شریف نے فوجی حکام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ہم مزھبی جنونیوں کو پکڑتے ہیں اور یہ انہیں چھڑا کر لے جاتے ہیں۔ اسے بعد ازاں "ڈان لیکس" کا نام دیا گیا اور PMLN کو پرویز رشید کو وزارت سے ہٹانا پڑا تھا،
موجودہ حکومت اور فوجی حکام کے درمیان جو کشمکش ہے وہ زیادہ واضع ہوتی جا رھی ہے اس کا اظہار مسلسل مختلف واقعات سے ہو رھا ہے۔ NA 120 کے انتخابات جیتنے کے بعد مریم نواز نے وکٹری تقریر میں کہا تھا کہ آج نظر آنے والے اور نظر نہ آنے والے دونوں کو شکست ہوئی۔ اس نے مزید کہا کہ ھمارے لوگوں کو اٹھایا گیا ہے۔ یہ اور بات کہ آج تک آٹھائے جانے والے کسی فرد نے کھل کر یہ نہیں بتایا کہ انہیں کون آٹھا کو لے گیا تھا۔ حالانکہ جانتےسبھی ہیں کہ کونسا ادارہ یہ کام کرتا ہے۔
مسلم لیگی حکومت ایک عجیب مخمصے میں ہے اسے معلوم بھی ہے کہ فوجی ادارے پر پبلک تنقید کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ وہ کبھی کھل کر اور کبھی دبے لفظوں اس کا اظہار کرتی ہے۔ ایسا زیادہ دیر نہیں رھے گا۔ اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور نکلے گا۔
فوجی مارشل لاؤں کی لمبی تاریخ ہے۔ 1970 سے لیکر آج تک سویلین حکومتوں کو پانج دس سال ہی اقتدار میں ملتے ہیں۔ پھر فوجی مارشل لاء یا فوجی ٹیک اوور ہو جاتا ہے۔ موجودہ سویلین دور کو بھی اب تقریبا دس سال کا عرصہ ہو رھا ہے۔
جنرل مشرف 2009 میں بڑی مشکل سے اقتدار سے علیحدہ ہوا تھا۔ اور وہ بھی گارنٹیاں لے کر کہ اسے کچھ نہیں ہو گا اگرچہ مسلم لیگ ن نے اس کے خلاف غداری کے آئینی مقدمات کا آغاز کیا تھا مگروہ اس وقت کے فوجی جرنیلوں کی مدد سے ملک چھوڑ گئیے تھے،
سوال یہ ہے کہ کیا ایک نئےمارشل لاء کی آمد آمد ہے؟
حالات تو اسی طرف جا رھے ہیں۔ مارشل لاء کو خوش آمدید کہنے والی سیاسی قوتیں بھی موجود ہیں اور مزھبی عناصر بھی۔ مگر مسلم لیگ حکومت کی اس کا مقابلہ کرنے کی کوئی تیاری نظر نہیں آتی۔ اور ماضی کی طرح وہ کوئی اقدامات بھی نہیں اٹھا رھی۔ کیونکہ اس کے لئےعوام کی بڑی تعداد کو اپنے حق میں موبلائز کرنا پڑتا ہے۔ جس کے لئے بیانات نہیں محنت کش طبقہ کو مراعات دی جاتی ہیں انکی تنخواہیں بڑھائی جاتی ہیں، ان کو سویلین جمہوری حکومت کےحقیقی فوائد سے نوازاجاتا ہے۔
مگر مسلم لیگ تو خود ایک سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا گروہ ہے۔ جو جمہوری حکومت تو چاھتا ہے مگراپنے طبقاتی مفاد کے لئے۔
لیکن کچھ عناصر ابھی براہ راست ملٹری ٹیک اوور کے خلاف ہیں۔ اس میں چین کا عنصر بھی شامل ہے۔ امریکی سامراج تو آج ٹرمپ کی قیادت میں ماضی کے برعکس شائد اب لفظوں میں بھی مارشل لاء کی مخالفت نہ کرے۔
اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ یہ ابھی معلوم نہیں، لیکن ایک عجیب کشمکش کا دور ہے دونوں فریق اپنے گھوڑے دوڑا رھے ہیں۔ چالیں چلی جا رہی ہیں۔
بائیں بازو کو واضع طور پر کسی بھی صورت، کسی بھی بہانے اور جواز پر فوجی مارشل لاء یا ملٹری ٹیک اوور کی حمائیت نہیں کرنی چاہیے۔ اس کی کھل کر مخالفت کرنی چاہیے،
سویلین حکومت اگر فوجی مارشل لاء کا راستہ روکنا چاھتی ہے تو فوری طور پر اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائے، عوام کو موبلائز کرنے کے لئے صرف لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کافی نہیں۔ انسانی ترقی کے اقدامات بھی لازمی ہیں۔ جو ابھی ہوتے نظر نہیں آ رھے۔
فاروق طارق
ترجمان عوامی ورکرز پارٹی
[email protected]
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔