ہمارا دماغ اور جسم ہر وقت بدل رہا ہے مگر یہ تبدیلی نظر نہیں آتی ۔ کیا آپکو کبھی احساس ہوا کہ ہر چار ماہ بعد آپکے خون کے سرخ خلیوں کی جگہ مکمل طور پر نئے خلیے لے لیتے ہیں، جلد کے خلیے ہر کچھ ہفتوں بعد نئے خلیوں سے بدل جاتے ہیں۔ تقریباً سات برسوں میں آپکے جسم میں موجود ہر ایٹم کی جگہ نیا ایٹم لے لیتا ہے ۔ جسمانی طور پر آپ لگاتار ایک نئے جسم میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن ایک کڑی ایسی ہے جو شاید آپکے مختلف جسموں کو ایک ساتھ جوڑے رکھتی ہے: آپکی یاداشت ۔ یاداشت وہ چیز ہے جو شاید اس ڈور کا کام کرتی ہے جو آپ کو آپ بناتی ہے ۔ یہ آپکی شناخت کی بنیادوں میں موجود رہ کر ایک واحد مسلسل خود کے احساس کو پیدا کرتی ہے ۔
لیکن کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ یہ تسلسل ایک وہم ہو؟ تصور کریں ایک پارک میں آپ خود کو عمر کے مختلف حصوں میں دیکھتے ہیں ، لڑکپن میں ، جوانی میں ، ادھیڑ پن میں اور بڑھاپے میں۔ آپ اپنے ان تمام وجودوں کیساتھ ایک ساتھ بیٹھ کر زندگی کی مشترکہ کہانی بیان کرتے ہیں ۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے ؟ آپ سب کے پاس تاریخ اور نام ہے مگر درحقیقت آپ سب الگ الگ لوگ ہونگے جنکے الگ مقاصد و اقدار ہونگی۔ اور آپکی زندگی کی یادیں توقع کے برعکس زیادہ مختلف ہونگی ۔ آپ پندرہ سال کی عمر میں جو تھے اسکے بارے میں آپکی یاداشت اس سے مختلف ہے جو آپ درحقیقت اس عمر میں تھے۔ یاداشت ایک بالکل درست وڈیو ریکارڈنگ کی طرح نہیں ہے۔
آپ اپنے دوست کی سالگرہ کیلئے ہوٹل میں موجود ہیں ۔ آپکے مختلف افعال آپکے دماغ میں مخصوص نیورونز کے پیٹرنز کو فعال کرتے ہیں ۔ مثلاً دوست کیساتھ گفتگو ایک خاص نیورونز نیٹورک کو متحرک کرتی ہے، چائے کی مہک ایک مخصوص پیٹرن کو تحریک دیتی ہے اسی طرح کیک کا ذائقہ الگ پیٹرنز کو متحرک کرتا ہے ۔ یہ تمام جھرمٹ نیورونز کے مختلف نیٹورک کی صورت میں ایک ساتھ جڑ جاتے ہیں جسکو آپکا ہپیو کیمپس باربار دھراتا ہے یہاں تک کہ یہ تعلق فکس ہوجاتا ہے ۔ ایک ساتھ ایک وقت میں فعال ہونے والے نیورونز ایک ساتھ مظبوط تعلق بناتے ہیں۔ نتیجتاً ظاہر ہونے والا نیٹورک آپکی اس واقعے کے بارے یاد کو ظاہر کرتا ہے ۔ کچھ مہینے بعد آپ وہی کیک کھاتے ہیں اسکا ذائقہ اس نیٹ ورک کو آپکے دماغ میں روشن کردیا ہے اور سالگرہ کی دعوت کی یاد آپکے دماغ میں زندہ ہوجاتی ہے ۔
ہم غور نہیں کرتے مگر یاد ہماری توقعات کی نسبت کمزور ہوتی ہے ۔ آپکو اپنے دوست کے کپڑوں کا رنگ یاد ہوگا ہوسکتاہے میز پر لگے کھانے بھی مگر غور کریں تو آپ ساتھ والی میزوں پر بیٹھے لوگوں سے لاعلم ہونگے۔ آپکی سالگرہ کی یاد دھندلانا شروع ہوچکی ہے کیونکہ اپکے دماغ میں محدود نیورونز موجود ہیں جو مختلف کاموں میں استعمال ہورہے ہیں۔ الگ الگ اوقات میں یہ الگ الگ جھرمٹوں میں شامل ہوتے ہی۔ آپکی سالگرہ کی یاد دھندلانا شروع ہوگئی ہے کیونکہ اس سے منسلک نیورونز الگ واقعات کی یادوں کے نیٹ ورک میں شامل ہوگئے ہیں۔ یادوں کا دشمن وقت نہیں دوسری یادیں ہیں جو انکی جگہ لے لیتی ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ آپکی دھندلی یاد آپکو دھندلی محسوس نہیں ہوتی بلکہ آپ یہی سمجھتے ہیں کہ آپکو تمام تفصیلات یاد ہیں۔ حال آپکے ماضی کو بدلتا ہے۔ فرض کریں اس سالگرہ میں موجود آپکے دو دوستوں میں اسکے کچھ عرصہ بعد لڑائی ہوجاتی ہے اور بول چال بند ہوجاتی ہے۔ اب آپ کی وہ یاد مزید مشکوک ہو جائیگی، آپ سوچیں گے کہ شاید وہ دونوں اس دن کچھ عجیب طرح سے برتاؤ کررہے تھے شاید انکی گفتگو اس دن محدود تھی؟ کیا ایسا تھا یہ بتانا اب مشکل ہوچکا ہے کیونکہ آپکے نیٹ ورک میں موجود علم نے اس یاد کو تبدیل کردیا ہے۔ لہٰذا ایک واقعہ عمر کے مختلف مراحل پر آپکے کیلئے مختلف ہوگا۔
یادوں کو تبدیل کرنے اور انکے مشکوک ہونے کے بارے میں سب سے بہترین کام یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی پروفیسر الزبتھ لوفٹس کا رہا ہے۔ انھوں نے کچھ لوگوں پر تجربات کئے جن میں ان لوگوں کو کاروں کے ایک دوسرے کیساتھ ٹکرانے کی مختلف وڈیوز دکھائی گئیں ۔ اور بعد میں ان سے کچھ سوالات پوچھے گئے ۔ پروفیسر کے مطابق ان لوگوں کے جوابات پوچھے سوالات کی زبان کے لحاظ سے مختلف تھے مثلاً جب پروفیسر نے یہ پوچھا کہ آپکے خیال میں کار کی رفتار کیا تھی جب انھوں نے ایک دوسرے کو پاش پاش کردیا تو ان لوگوں نے رفتار زیادہ بتائی اور جب پاش پاش کی جگہ ٹکرانے کا لفظ بولا گیا تو لوگوں کی طرف سے کم رفتار کا اندازہ لگایا گیا ۔
کیا بلکل جعلی یادیں کسی کے دماغ میں ڈالی جاسکتی ہیں ؟ یہ جاننے کیلئے پروفیسر اور انکی ٹیم نے کچھ لوگوں کے ماضی کی معلومات اکٹھی کیں اور پھر انہیں چار کہانیاں سنائیں جو انکی زندگی سے تھیں ۔ تین واقعات بالکل درست مگر چوتھی کہانی یکسر پروفیسر اور انکی ٹیم نے گھڑی تھی۔ وہ کہانی یہ تھی کہ آپ بچپن میں ایک شاپنگ مال میں کہیں کھو گئے تھے اور پھر ایک بوڑھا شخص یا عورت کافی گھنٹوں کے بعد آپکو لیکر آیا اور اپنے والدین کے حوالے کیا۔ حیرت انگیز طور پر ایک چوتھائی لوگوں نے کہاں ہاں انہیں اس طرح کا واقعہ یاد ہے لیکن اسکی تفصیلات واضح نہیں تھیں ۔ کچھ عرصہ بعد جب انہیں بلایا گیا تو انہوں نے اس یاد کی مزید تفصیلات بھی یاد کرلی تھیں مثلاً ایک کے مطابق وہ ایک بوڑھی شفیق عورت تھی جس نے مجھے ڈھونڈا اور میری ماں کافی پریشان تھی، میں نے اپنا پسندیدہ کھلونا پکڑا ہوا تھا، عورت نے فلاں رنگ کی ٹوپی پہن رکھی تھی وغیرہ ۔ نا صرف جعلی یاد امپلانٹ کرنا ممکن تھا بلکہ لوگ اسکو اپنی حقیقت کا حصہ بنانے اور اس میں ترامیم کرنے کو بھی تیار تھے۔
ہمارا ماضی قابل بھروسہ ریکارڈ نہیں بلکہ تعمیر نو ہے جس میں کافی حد خرافات بھی شامل ہوسکتی ہیں ۔ جب ہم اپنی یادوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ تمام تفصیلات درست نہیں ہیں۔ کچھ وہ باتیں ہیں جو لوگوں نے ہمیں ہمارے بارے بتائی ہیں اور کچھ وہ ہیں جو ہمیں لگتا ہے ہوا ہوگا۔ آپ کون ہیں اسکا جواب اگر آپکے پاس آپکی یادوں کی صورت میں ہے تو یہ آپکی شناخت کو ایک عجیب لگاتار قابل ترمیم بیانیہ بنادیگا۔
رفاقت حسین
FROM
THE BRAIN: THE STORY OF YOU
BY DAVID EAGLEMAN
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...