دس سال پہلے یہ سوال مضحکہ خیز لگتا۔ ہم نے نظامِ شمسی کے باہر سب سے پہلا سیارہ 1992 میں دریافت کیا۔ اس صدی کے آغاز پر گنتی کے چند سیارے ہی دریافت ہوئے تھے۔ اب ہم جہاں دیکھتے ہیں، سیارے نظر آتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہر ستارے کا ہی اپنا پلینٹری سسٹم ہو۔ پہلے ہمارے پاس اتنا ڈیٹا نہیں تھا۔
بڑے عرصے تک ہمارا سیارے دریافت کرنے کا طریقہ radial velocity method رہا۔ ایک سیارے کی اپنے “سورج” کے گرد مداری حرکت اس میں معمولی سا wobble پیدا کر دیتی تھی۔ اس سے آنے والی روشنی کی تبدیل ہونے والی ویولینتھ کا ہم زمین پر مشاہدہ کر سکتے ہیں اور سیارے کی موجودگی کا معلوم کر لیتے ہیں۔ اس تکنیک سے چھ سو سے زائد سیارے دریافت کئے جا چکے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس طریقے سے جو سیارے ڈیٹکٹ کئے جا سکتے ہیں، وہ گرم مشتری کی طرح کے ہیں۔ یعنی بڑے سائز کے سیارے جو اپنے ستارے کے مدار میں کم فاصلے پر ہیں۔ چونکہ وہ اتنے بڑے اور قریب ہیں، اس وجہ سے ستاروں کی بدلتے حرکت اتنی جلد اور زیادہ ہوتی ہے کہ اس کو ڈیٹکنٹ کیا جا سکتا ہے۔ اس طریقے کے ساتھ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ سو نوری سال سے زیادہ فاصلے والے ستاروں کیلئے کام نہیں کرتا۔ زیادہ دور والے ستاروں کے wobble ہونے کا مشاہدہ کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ طریقہ ہمیں اس چیز کا نہیں بتاتا کہ سیاروں کی موجودگی کتنی عام ہے۔ صرف یہ پتہ لگتا ہے کہ زمین سے قریب ستاروں میں “گرم مشتری” کتنے ہیں۔
دوسرا طریقہ transit method کا ہے جو زیادہ مفید ہے۔ جب ایک ستارے کے گرد گردش کرتے وقت کوئی سیارے کا مدار ستارے اور زمین کے درمیان آ جائے تو اس سیارے سے آنے والی روشنی معمولی سی مدھم ہو جاتی ہے۔ کیپلر ٹیلی سکوپ سیاروں کو اسی طریقے سے دیکھتی رہی ہے۔ 2009 میں اپنی تلاش شروع کرنے کے بعد اس ٹیلی سکوپ نے دو ہزار سے زیادہ سیاروں کا اس طریقے سے پتہ لگایا۔ چھوٹے سیاروں کا معلوم کرنا آسان تو نہیں لیکن ریڈیل ولاسٹی میتھڈ کے مقابلے میں ان کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس سے دور کے سیاروں کا بھی معلوم کیا جا سکتا ہے۔ روشنی کی wobble کے مقابلے میں اس کی dimming کو معلوم کرنے کیلئے فاصلے سے اتنا فرق نہیں پڑتا۔ اس طریقے سے معلوم کئے گئے بہت سے سیارے سینکڑوں نوری سال دور ہیں۔ ٹرانزٹ میتھڈ زیادہ کامیاب تو ہے لیکن اس کی اپنی حد ہے۔ اگر سیارے کا مدار ایسا نہیں کہ وہ زمین اور ستارے کے درمیان سے گزرتے تو ہمیں اس کا پتہ نہیں لگے گا۔ مثال کے طور پر ماہرینِ فلکیات TRAPPIST 1 کے گرد زمین کے سائز کے سات سیاروں کے سسٹم کا معلوم کرنے میں اس لئے کامیاب ہوئے کہ ان کے مدار زمین اور ان کے ستارے کے درمیان بڑے زبردست طریقے سے align تھے، ورنہ ہمیں ان کا پتہ نہ لگتا۔ اس طریقے سے ہم نے اتنے زیادہ سیاروں کا معلوم کیا ہے کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ ستاروں کے گرد سیاروں کا نظام بہت عام بات ہے۔ یا کم از کم زمین کے گرد چند ہزار نوری سال تک کے ستاروں میں تو ایسا ہی ہے۔
جب ہم ایسے سیاروں کو ڈھونڈتے ہیں جو ہزاروں نوری سال دور ہوتے ہیں تو اس کا طریقہ gravitational microlensing ہے۔ ستارے کی گریویٹی جس کے گرد سیارہ محوِ گردش ہو، وہ اپنے سے پیچھے دوسرے ستارے کی روشنی کا رخ جس طریقے سے موڑتی ہے، وہ ہمیں اس سیارے کا پتہ دے دیتا ہے۔ اس طریقے سے ہم صرف چند درجن سیاروں کا معلوم کر سکے ہیں کیونکہ دور دراز کے دو ستاروں کا اس طرح سیدھ میں آ جانا بہت ہی کم ہوتا ہے۔ لیکن دور دراز کے سیاروں کا معلوم کرنے کا ابھی تک ہمارے پاس یہی بہترین طریقہ ہے۔ ممکن ہے کہ ہم اس طریقے سے ملکی وے سے باہر کے سیاروں کا بھی پتہ لگا سکیں جیسا کہ اینڈرومیڈا کہکشاں کے سیاروں کا۔
چونکہ سیاروں کا معلوم کرنے کے طریقوں کی اپنی limitation ہے، اس لئے ہر انفرادی ستارے کے گرد سیاروں کا تجزیہ نہیں کیا جا سکتا لیکن لگتا یہ ہے کہ شاید عملی طور پر ہر ستارے کے گرد کوئی سیاراتی نظام موجود ہونے کا امکان ہے۔ ایک وقت میں خیال تھا کہ شاید اس میں کچھ استثنا ہوں۔ جیسا کہ بائنری سسٹم (جس میں دو ستارے ایک دوسرے کے گرد گردش کرتے ہیں) والے ستاروں کے گرد سیارے نہ ہوں کیونکہ وہ گریٹیشنل طور پر مستحکم مدار نہ بنا سکیں۔ لیکن پھر ہمیں ایسے ستاروں کے گرد بھی سیارے مل گئے۔ اسی طرح ماہرینِ فلکیات کا ایک وقت میں خیال تھا کہ دیوہیکل نیلے ستارے، جو بہت بڑے، روشن اور گرم ہوتے ہیں اور زیادہ عمر نہیں رکھتے، سیاروں کا نظام نہ رکھتے ہوں۔ کیونکہ ان سے خارج ہونے والی بے تحاشا توانائی مادے کو اکٹھا ہو کر سیارہ ہی نہ بننے دیتی ہو۔ لیکن پھر ہمیں ان نیلے ستاروں کے گرد protoplanetary disks مل گئیں جو پتھر، گیس اور دھول سے بنا مادہ ہے جس سے سیارے بنتے ہیں۔ جب بھی ہم نے ایسے ماحول کا سوچا جہاں سیارے نہ بنتے ہوں، ہمارا اندازہ غلط نکلا۔
اب تک ہم چار ہزار کے قریب سیاروں کی موجودگی کو کنفرم کر چکے ہیں تو پھر عنوان میں پوچھے گئے سوال کی طرف۔ کیا کوئی ایسا ستارہ ہے جس کے گرد سیارہ نہ ہو؟ ہو سکتا ہے۔ یہ کائنات بہت ہی بڑی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسے ستارے بھی ہوں لیکن پچھلی دو دہائیوں کی ڈسکوری یہ بتاتی ہے کہ ایسی کوئی وجہ نہیں جو کسی ستارے کے گرد سیارے کی موجودگی ناممکن کر دیا اور یہ بھی خارج از امکان نہیں کہ ہر ستارہ اپنے گرد سیاروں کا نظام رکھتا ہو۔ لیکن ایک تو ہمارے آلات محدود ہیں، دوسرا یہ کہ ہمیں ان کو دریافت کرنے کی تکنیک کا بھی ابھی پتہ لگا ہے اور ڈھونڈتے زیادہ وقت نہیں گزرا۔ اس لئے ہمارے پاس ابھی ستاروں کے پلینٹری سسٹم کی اچھی تصویر نہیں۔ ابھی ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ ستاروں کے بننے کے سسٹم میں سیارے بننا ایک قدرتی فیچر ہے۔ سیارے عام ہیں، ہر جگہ ہیں اور بس اپنے discover ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
لیکن صرف پچھلی دو دہائیوں میں اس کو جاننے میں ہم اتنا آگے بڑھ چکے ہیں کہ “کیا کوئی ایسا ستارہ موجود ہے جس کے گرد سیارہ ہو؟” سے اب ہمارا سوال “کیا کوئی ایسا ستارہ موجود ہے جس کے گرد سیارہ نہ ہو؟” میں تبدیل ہو گیا ہے۔