شمالی امریکہ کی ایک کانفرنس میں ساری دنیا کے سائنسدان جمع ہوئے۔ انہوں نے اپنی جدید تحقیق پر مبنی مقالے پیش کیے۔ حاضرین نے ان کی سائنسی خدمات کی تعریف کی اور کانفرنس کے منتظمین نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں انعام و اکرام اور قیمتی تمغوں سے نوازا۔
کانفرنس کے بعد ایک مقامی سائنسدان نے اپنے گھر میں قریبی دوستوں کو دعوت دی کہ وہ ان مشہور سائنسدانوں کے ساتھ ایک ڈنر اور ڈائلاگ کریں تا کہ عوام و خواص کے درمیان ایک پر مغز مکالمہ ہو سکے۔
اتفاق سے ان مہمانوں میں میں بھی شامل تھا اور مجھے بھی اس پر مغز مکالمے کو سننے کا موقع ملا۔ اس شام ڈنر کے بعد ڈائلاگ کا موضوع تھا۔ کیا کسی سائنسدان کا باکردار ہونا ضروری ہے؟
بہت سے دوستوں نے بہت سے خیالات و نظریات پیش کیے۔ میں ان میں سے چند ایک آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں تا کہ آپ بھی اس مکالمے کی چند جھلکیاں دیکھ سکیں اور محسوس کر سکیں۔ عین ممکن ہے میری طرح آپ نے بھی ’چونکہ آپ میری طرح سائنسدان نہیں ہیں‘ اس موضوع پر اس انداز سے نہ سوچا ہو۔
ایک دوست نے کہا ’مجھے پتہ چلا ہے کہ ایک سائنسدان کو سائنس کا نوبل انعام ملا تھا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایک ظالم شوہر تھا۔ وہ اپنی بیوی پر بہت ظلم کرتا تھا۔ اس کی تذلیل کرتا تھا۔ ہتک کرتا تھا۔ اسے بے وقوف اور جاہل کہتا تھا اور جب وہ اسے چیلنج کرتی تھی تو اسے تھپڑ مکے اور لاتیں مارتا تھا۔ آخر وہ بیوی اسے چھوڑ کر چلی گئی‘
دوسرے دوست نے کہا ’ہم سائنسدان ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم کسی بھی سائنسدان کی صرف سائنسی تحقیقات پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ وہ سائنسدان اپنی ذاتی زندگی میں کیا کرتا ہے ہمیں اس سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہیے۔ وہ پاپی ہے یا پارسا سائنس کا اس سے کوئی تعلق نہیں‘
تیسرے دوست نے کہا ’ہر سائنسدان کسی ملک کا شہری بھی ہوتا ہے۔ سائنس کی دنیا میں ہم اس کی خدمات کی وجہ سے اسے اعزاز بخشیں گے لیکن اگر وہ بیوی پر ظلم کرتا ہے تو ہمیں اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس پر اس قوم کے ایک عام شہری کی طرح مقدمہ چلنا چاہیے اور اگر ظلم اور جرم ثابت ہو جائے تو اسے سزا ملنی چاہیے اسے جیل جانا چاہیے۔ سائنسدان ہونے کی وجہ سے اسے معافی نہیں ملنی چاہیے کیونکہ کوئی بھی شہری قانون سے بالاتر نہیں ہے‘
چوتھے دوست نے کہا ’ایک سائنسدان نے اپنی حکومت کو ایٹمی ہتھیار بنانے میں مدد کی جس سے سینکڑوں ہزاروں لاکھوں معصوم انسانوں کی جان خطرے میں پڑ گئی۔ کیا یہ بھی اس کا ذاتی مسئلہ ہے؟‘
پانچویں دوست نے کہا ’اگر کوئی سائنسدان حکومت کو ایٹمی ہتھیار بنانے میں مدد کرتا ہے جس سے انسانیت خطرے میں پڑ سکتی ہے تو وہ سائنسدان سائنس کا ناجائز استعمال کر رہا ہے۔ یہ حرکت غیر اخلاقی ہے۔ میری نگاہ میں ایسے سائنسدان کو نوبل انعام نہیں ملنا چاہیے اور غلطی سے دے بھی دیا گیا ہے تو اس سے واپس لے لینا چاہیے۔ ایسا سائنسدان سب سائنسدانوں اور سب انسانوں کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ ‘
چھٹے دوست نے کہا ’ہم بیک وقت کئی دنیاؤں میں رہتے ہیں
سائنس کی دنیا اور ہے
قانون کی دنیا اور ہے
اخلاقیات کی دنیا اور ہے
ہر دنیا کے
اپنے اصول ہیں
اپنے ضوابط ہیں
اپنے معیار ہیں
اپنی کسوٹی ہے اور
اپنی روایت ہے
ہمیں مختلف دنیاؤں کو آپس میں خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ انہیں نہیں ملانا چاہیے اس سے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہیں۔ ’
ساتویں دوست نے کہا ’ایک یونیورسٹی نے اپنے طالب علم کے نام پر جسے بعد میں سائنس کا نوبل انعام ملا تھا یونیورسٹی کا نام رکھ دیا تھا۔ اس کے مرنے کے ایک سو سال بعد پتہ چلا کہ وہ اپنی زندگی میں کم سن بچیوں کا جذباتی اور جنسی استحصال کرتا تھا۔ جب یہ خبر چاروں طرف پھیلی تو طلبا و طالبات نے یونیورسٹی کے اصحاب بست و کشاد سے احتجاج کیا اور ان پر دباؤ ڈالا کہ یونیوسٹی کا نام بدلا جائے کیونکہ ہمیں اپنے سائنسدان پر فخر کی بجائے خجالت ہے‘
آٹھویں دوست نے کہا ’ہر دور کے باسیوں کو چاہیے کہ وہ ہر انسان اور ہر سائنسدان کے کردار کو اس کے ہی دور کے معیار پر پرکھیں۔ کسی بھی انسان یا سائنسدان کے کردار کو ایک سو سال بعد کے معیار پر پرکھنا نا انصافی ہے‘
نویں دوست نے کہا ’سائنسدان بھی انسان ہوتے ہیں۔ ہمیں انہیں انسان ہی رہنے دینا چاہیے انہیں ہیرو نہیں بنانا چاہیے ان کے نام پر یونیورسٹیوں کے نام نہیں رکھنے چاہئیں۔ انہیں بت نہیں بنانا چاہیے کیونکہ کسی بھی انسان کو چاہے وہ سائنسدان ہو یا صوفی۔ شاعر ہو یا دانشور۔ اگر ہم اسے ایک بت بنائیں گے اور اسے پوجیں گے تو جلد یا بدیر وہ بت ٹوٹے گا اور ہم نا امید و مایوس ہو جائیں گے۔
دسویں دوست نے کہا ’جوں جوں انسانی سماج ارتقا کرتا ہے اس کے خیالات و نظریات ہی نہیں بدلتے اس کی اخلاقیات بھی بدلتی ہیں۔
ایک نسل کا ولن اگلی نسل کا ہیرو
اور ایک نسل کا ہیرو اگلی نسل کا ولن بن سکتا ہے۔
ایک نسل کا قاتل اگلی نسل کا مسیحا
اور ایک نسل کا مسیحا اگلی نسل کا قاتل بن سکتا ہے۔
ایک نسل کا پاپی اگلی نسل کا پارسا
اور ایک نسل کا پارسا اگلی نسل کا پاپی بن سکتا ہے۔
کسی دانشور کا قول ہے
EVERY SAINT HAS A PAST
AND
EVERY SINNER HAS A FUTURE
ہر سائنسدان ایک انسان ہوتا ہے اور کوئی انسان فرشتہ نہیں ہوتا۔ ہر انسان کی شخصیت کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک روشن پہلو ہوتا ہے اور ایک تاریک پہلو۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی انسان یا قوم کسی انسان یا سائنسدان کے کس پہلو پر اپنی توجہ مرکوز کرتی ہے؟
آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟
…
نوٹ: میں نے یہ کالم اپنے ایک سائنسدان دوست کو سنایا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ میں کالم کے آخر میں نوٹ لکھوں کہ یہ کہانی مختلف سائنسدانوں کی سوانح عمریوں کو پڑھنے کے بعد لکھی گئی ایک فرضی کہانی ہے۔