کراچی کے ہندوستانی مہاجر کہتے ہیں کہ؛ کراچی کماتا ہے اور سارا پاکستان کھاتا ہے۔ ہندوستانی مہاجروں کی مثال اس بس کنڈیکٹر جسی ہے جو دن بھر سواریوں سے ٹکٹ کے پیسے لیکر شام کو بس کے مالک کو دینے کے بعد گھر جاکر بیوی سے کہتا ہے کہ؛ کماتا میں ہوں اور کھاتا مالک ہے۔
کراچی دراصل ٹیکس حب ہے۔ ٹیکس حب بھی اس لیے ہے کہ؛ اسٹیٹ بینک ' پرائیویٹ بینکوں اور کمپنیوں کے ہیڈ آفس کراچی میں ہیں۔ پاکستان کی %60 آبادی پنجاب کی ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ پروڈکشن ' امپورٹ ' ایکسپورٹ ' روینیو جنریشن پنجاب سے ہوتی ہے۔ لیکن اسٹیٹ بینک ' پرائیویٹ بینکوں اور کمپنیوں کے ہیڈ آفس کراچی میں ہونے کی وجہ سے جمع کراچی میں ہوتی ہے۔
ایف بی آر کے ریکارڈ کا جائزہ لے کر اس حقیقت سے آگاہی حاصل کی جاسکتی ہے کہ؛
1۔ پاکستان کے ٹیکس محصول کا %55 محصول کراچی میں جمع کیا جاتا ہے۔
2۔ کراچی پاکستان کی جی ڈی پی کا تقریبا %20 حصہ پیدا کرتا ہے۔
3۔ سندھ میں سے پاکستان کی جی ڈی پی کا روایتی طور پر تقریبا %25 حصہ پیدا ہوتا ہے۔
4۔ 2018 میں پاکستان کے ٹیکس محصول میں پنجاب کا حصہ %48 ' سندھ کا %27 ' خیبرپختونخوا کا %17 ' بلوچستان کا %8 تھا۔
اگر اسٹیٹ بینک اسلام آباد ' پرائیویٹ بینکوں اور کمپنیوں کے ہیڈ آفس لاہور شفٹ کر دیے جائیں تو پھر کراچی نے ٹیکس حب بھی نہیں رہنا۔ جبکہ کراچی کی صنعت ' تجارت ' ٹرانسپورٹ اور ہنرمندی کے شعبوں میں پنجابیوں کی سرمایہ کاری کی وجہ سے بھی کراچی میں ٹیکس جنریٹ ہوتا ہے۔
کراچی اسٹاک ایکسچینج کے ریکارڈ کے مطابق کراچی اسٹاک ایکسچینج میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری پنجابی کی ہے۔ جسکی وجہ سے کراچی کی معیشت مضبوط ہے۔ کراچی کی صنعت ' تجارت ' ٹرانسپورٹ اور ہنرمندی کے شعبوں میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری پنجابی کی ہے۔ جسکی وجہ سے کراچی کی معیشت چلتی ہے۔
پنجابیوں کے کراچی کی معشت کو مضبوط کرنے کی وجہ سے نہ صرف کراچی کے سیاست ' صحافت ' سرکاری اور پرائیویٹ نوکریاں کرنے والے ہندوستانی مہاجر کو روزگار ملتا ہے۔ بلکہ دیہی سندھ سے جانے والے سندھی کو ' بلوچستان سے جانے والے بلوچ کو ' اور خیبر پختونخواہ سے جاآنے والے پٹھان کو بھی روزگار ملتا ہے۔