6 مارچ کو دن کے پہلے حصے میں تو ندیم افضل چن کی واپسی کی خبریں میڈٰیا پر چھائی رہیں ۔صبح کے بھولے چن صاحب نے بالآخر چن چڑھا ہی دیا اور پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا ۔صرف ایک بات کی کہ تحریک انصاف اپنے وعدے پورے نہیں کرسکی اس لیئے پارٹٰی کو چھوڑ دیا۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کھلے دل سے ندیم افضل چن کو خوش آمدید کہتے ہوئے ان تمام سیاسی ورکرز کو پارٹی میں واپسی کی دعوت دی جو کسی بھی وجہ سے پارٹی چھوڑ گئے تھے اور کہا کہ جس کےگھر پر ایک بار بھی پیپلزپارٹٰی کا جھنڈا لگا یا جس نے ایک بار بھی جئیے بھٹو کا نعرہ لگایا اس کو پارٹی میں خوش آمدید کہیں گے ۔
ماننا پڑے گا کہ بلاول بھٹو نےپارٹٰی کو پنجاب میں متحرک کردیا ہے اس عوامی مارچ سے جہاں پارٹی ورکرز کے حوصلے بلند ہوئے ہیں وہاں یہ طے ہوگیا کہ بدترین طرز حکمرانی سے ایک خلا پیدا ہوگیا ہے اور پیپلزپارٹی اس خلا کو پر کرنے کی بھرپور کوشش کررہی ہے ۔اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو پیپلزپارٹی آئندہ عام انتخابات میں پنجاب میں کافی نشستوں پر مقابلہ کرتی نظر آئے گی اور پنجاب سے پیپلزپارٹی کے منتخب نمائندوں کی موجودہ تعداد سے کہیں زیادہ تعداد ہوگی۔ اس ضمن میں مزید شمولیتوں کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے ۔بلوچستان سے تحریک انصاف کے سابق رہنما سردار یار محمد رند کی بھی سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات ہوئی ہے۔اس کے علاوہ بھی بہت سے نام لیئے جارہے ہی تاہم بات جب تک حتمی نہیں ہوتی اس وقت تک کسی کا نام لینا قبل از وقت ہوگا
فی الوقت تو عوامی مارچ کی دھوم مچی ہوئی ہے ۔راہ چلتے سڑک پر بیٹھنے کی کسی بھی سہولت کے بغیر ہزاروں افراد کا گھنٹوں عوامی مارچ کا انتظار کرنا پیپلزپارٹی کے لیئے ایک اچھا شگون ہے ۔اس پر بلاول بھٹو کی عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہوئی تقاریر نے رنگ بھر دیا ہے ۔ اتنی شاندار مہم کہ حکومت کی سندھ بچاو تحریک بھی گم ہوگئی ایسے میں کپتان نے خود میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا اور میلسی میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کا فیصلہ کیا ۔ٹھیک اس وقت جب بلاول بھٹو لاہور میں ناصر باغ میں عوامی اجتماع سے خطاب کررہے تھے ۔
کپتان کی میلسی میں تقریر کسی وزیراعظم سے زیادہ اینگری مین کی تقریر تھی ۔شکر ہے کہ 2018 کے بعد ایک بار پھر کنٹینر والے کپتان کی تقریر سننے کا موقع ملا۔ہوتا تو یہ چاہیے تھا کہ کپتان بطور وزیراعظم اپنی چار سالہ کارکردگی بتاتے اور اپنے وعدے یاد دلاتے جن کی تکمیل وہ کرچکے تھے ۔ایک کروڑ نوکریاں ، پچاس لاکھ گھر دینے کے بعد مقبوضہ کشمیر کی فتح کی داستان سناتے ساتھ ساتھ عوام کو یہ بھی بتاتے کہ چینی ، آٹا اور ادویات مہنگی کرنے والے مافیاز کو کس طرح خان نے الٹا لٹکا دیا اور تو اور توشہ خانہ کیس اور فارن فنڈنگ کیس میں اپنی بے گناہی کے ثبوت دیتے مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس ہوا۔
کپتان نے اپوزیشن کے متعلق جو لب ولہجہ اختیار کیا اس کو کسی نے پسند نہیں کیا۔اس حد تک غصے میں تھے اور فرمایا اگر عدم اعتماد سے بچ گیا تو پھر دیکھو میں تمہارے ساتھ کیا کرتا ہوں ۔یورپی یونین کو ایک مجمع عام میں آڑے ہاتھوں لیا۔ عوامی ہیرو بننے کے چکر میں یورپی یونین سے تند وتیز لہجے میں سوالات کرنے والے کپتان نے ایک لمحے کے لیئے نہیں سوچا کہ کتنے پاکستانی وہاں پر بسلسلہ روزگار مقیم ہیں اور ان کے لیئے اس طرح کے بیانات سے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں ۔لگے ہاتھوں کپتان نے سرائیکی صوبہ کے لیئےآئینی ترمیم کا شوشہ بھی چھوڑ دیا۔زرداری، مولانا اور شریف فیملی کے لیئے جن الفاظ کا استعمال کیا گیا وہ کم سے کم وزیراعظم کے شایان شان نہیں تھے
کپتان کی تقریر کا جواب شام کوگوجرانوالہ جلسہ میں بلاول بھٹو زرداری نے بڑی تفصیل کے ساتھ دے دیا۔کیونکہ آج کل کی سیاست گنبد کی صدا جیسی ہے جیسا کہا جائے گا ویسا سننے کو ملے گا ۔بلاول بھٹو نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کپتان فارن فنڈنگ کیس میں پکڑا گیا ہے ۔کپتان انڈیا اور اسرائیل کی فنڈنگ سے وزیراعظم بنا ہے ۔بلاول نے کہا کہ کپتان کہتا ہے کہ یوٹرن لینا ٹھیک ہےجبکہ پیپلزپارٹی کے نزدیک یوٹرن منافقت ہے ۔انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی کے قائدین نے پھانسی قبول کرلی مگر یوٹرن نہیں لیا دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے مگر یوٹرن نہیں لیا گیارہ سال جیل کاٹی مگر یوٹرن نہیں لیا۔
بلاول بھٹو زرداری کی گوجرانوالہ کی تقریر عوامی مارچ میں کی جانے والی تقاریر میں سب سے مختلف تقریر تھی ۔کپتان کو اپنے سوالوں کا جواب مل گیا مگر سوال یہ ہے کہ کیا عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جائے گی ؟ کب کی جائے گی اور اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔تو عرض یہ ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک ضرور پیش کی جائےگی اب یہ کامیاب ہویا ناکام ہر دوصورتوں میں حالات مزید بگڑتے جائیں گے ۔اور اگر اس بحران کا کوئی سیاسی حل نا نکلا تو حالات کسی اور طرف بھی جاسکتے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو یہ ملکی سیاست کے لیئے نقصان دہ بات ہوگی۔اس لیئے سیاست کی بساط پر ہر مہرے کو انتہائی سمجھداری اور تحمل سے چلنا پڑے گا وگرنہ بازی پلٹ بھی سکتی ہے
تاہم اگر بغور جائزہ لیا جائے تو شائد بازی کب کی پلٹ چکی ہے۔مسلسل ضمنی انتخابات ہارنا ، کے پی کے میں بلدیاتی انتخاب میں شکست، قریبی اور قابل اعتماد ساتھیوں کا چھوڑنا ، عوام کے اندر مقبولیت کا گراف مسلسل گرنا ، فارن فنڈنگ کیس کی تفصیلات ، اپوزیشن کا مسلسل بڑھتا ہوا دباو یہ ظاہر کررہا ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔اور جتنی مدت باقی بچی ہے اس میں باوجود کوشش کے یہ حالات ٹھیک بھی نہیں ہونے والے تو کہیں ان حالات کے سبب کپتان گھبرا تو نہیں رہا ؟
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...