یہ کائنات محض اتفاقات پر مشتمل کوئی حادثہ نہیں ہے بلکہ۔۔۔۔۔
یہ کائنات ایک ایسی اعلیٰ ترین ذہانت کا با کمال نمونہ اور منہ بولتا ثبوت ہے جسکا گہرائی سے مشاہدہ کرنے والے ایک مذہبی کا ایمان تازہ ہوجاتا ہے اور ایک اتھیسٹ یا اگناسٹک کچھ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔۔۔۔
اس کی پیچیدگی کی خالق ذہانت جو کسی انسان کے پاس نہیں۔۔۔
اس کائنات کا انتظام ایک ایسا انتظام ہے جسکا منتظم اعلی بننا انسان کے بس کا روگ نہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کسی کی ذاتی آراء، عقائد یا خیالات پر مشتمل پیرا گراف نہیں ہے بلکہ حقائق کی روشنی میں کیا گیا ایک خالص سائینسی تجزیہ ہے۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئن سٹائن جو کہ ایک اتھیسٹ تھا وہ کہتا تھا کہ یہ کائنات ہمیشہ سے یونہی موجود ہے اور اسے کسی نے تخلیق نہیں کیا (اس کی کوئی ابتدا اور انتہا نہیں ہے) اور سٹیفن ہاکنگ جو اگناسٹک تھا اس نے آئن سٹائن کی اس بات کو اب تک کی سب سے بڑی سائینسی دریافت کہا تھا۔۔۔۔
ایک ایٹم سے لیکر بڑے سے بڑے کائناتی ڈھانچے، کائنات میں ہر آن ہونے والی تبدیلیاں، ستاروں سیاروں کی حرکات اور کائناتی پھیلاؤ، (مذہب اور الحاد کی چپقلش کو بالائے طاق رکھتے ہوئے) اُن دونوں عظیم سائنسدانوں کی باتوں کو سائنٹیفک طریقے سے جھٹلا رہا تھا۔۔۔۔ تبھی تو مذہبی اور غیر مذہبی دونوں طبقوں کے سائینسی ماہرین نے اُن کے خیالات کو انتہائی غیر سائینسی قرار دیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سبھی جانتے اور مانتے ہیں کہ یہ کسقدر بڑے سائنسدان تھے اُنکی سائینسی خدمات ناقابل فراموش ہیں پھر بھی اُن کی ذاتی آراء کو جھٹلا دیا گیا کیوں ؟
کیونکہ
سائینس میں کسی قسم کے ذاتی عقیدے، رائے یا تخیل کی کوئی جگہ نہیں جب تک کہ اُسکی کوئی ٹھوس دلیل نہ پیش کی جائے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزافزوں سائینسی ترقی اور طاقتور دوربینوں نے کائنات کے ایسے ایسے راز افشا کیے جنہوں نے کائنات کے بارے میں سبھی پرانے خیالات و نظریات کو یکسر تبدیل کر دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کوئی بھی ماہر، کائنات کو ہمیشہ سے موجود نہیں مانتا، وُہ مانتا ہے اس کائنات کی کسی ایک مرکز سے ابتدا ہوئی اور سبھی نے اس کے تخلیق کار کی پیشین گوئیاں اپنے الفاظ میں کِیں۔۔۔
کسی نے اس کائنات کی تخلیق کے پیچھے کسی اعلیٰ ترین ذہانت کے کار فرما ہونے خبر دی تو کسی نے اس کے تخلیق کار کو سپر انٹیلکٹ ، big creator اور Supreme Being کے ناموں سے پُکارا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسویں صدی سے پہلے اکثر سائنسدانوں کا خیال تھا کہ مادہ، خلا اور توانائی ہمیشہ سے یونہی موجود ہیں۔۔۔ کائنات کا نہ کوئی نقطہء آغاز ہے اور نہ انجام۔۔۔۔مگر
بیسویں صدی کے اوائل میں ماہر فلکیات ایڈون ہبل نے دریافت کیا کہ کائنات پھیل رہی ہے۔۔۔ اس سے ریاضیاتی حسابات سے اس پھیلاؤ کو پیچھے کی جانب دوڑایا۔۔۔۔ حسابات کے نتائج بتا رہے کہ کائنات میں موجود مادہ، توانائی، خلا اور یہاں تک کہ خود وقت سمیت سبھی اشیاء کا ایک نقطہء آغاز ہے۔۔۔۔
اس انقلابی دریافت سے پیدا ہونے والی طاقتور شاک ویوز نے سائینسی دنیا میں ہلچل مچا دی۔۔۔ باطل سائینسی نظریات کی قدیم اور مضبوط عمارتیں بھی زمیں بوس ہونے لگیں۔۔۔۔
آئن سٹائن سمیت کئی سائنسدانوں نے اس دریافت پر منفی رد عمل کا مظاہرہ کیا۔۔۔
(بعد میں آئن سٹائن نے اپنی اس مخالفت کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کے طور پر تسلیم بھی کیا)
اس دریافت کا سب سے بڑا مخالف برطانوی ماہر فلکیات سر فریڈ ہوئل بھی ایک اتھیسٹ تھا جس نے طنزاً اس نقطہء آغاز کو “بگ بینگ” کا نام دیا۔۔۔
مگر آخر کار 1992 میں COBE سیٹلائیٹ کے تجربات نے ثابت کیا کہ واقعی کائنات توانائی کی ناقابلِ یقین چمک کے ساتھ شروع ہوئی۔۔۔
بہت سے سائنسدانوں نے اس واقعہ کو “تخلیق کا لمحہ(movement of creation)” کے طور پر متعارف کرایا مگر زیادہ تر نے اسے بگ بینگ کہنا ہی پسند کیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدید ترین تحقیقات کے باوجود سائنس ابھی بگ بینگ ابتدائی نقطہ کی ماہیت سے نا آشنا ہے۔۔۔ مگر اب ماہرین کائنات ابتدا پر بھی یقین رکھتے ہیں اور اس عظیم ابتدا کے پر اسرار محرک پر بھی۔۔۔۔
ایک اگناسٹک جارج سموٹ (نوبل انعام یافتہ) COBE تجربات کے انچارج، کہتے ہیں کہ بگ بینگ مذہبی عقیدے “عدم سے وجود” سے کافی مماثل نظر آتا ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
بگ بینگ کسی دھماکے جیسا نہیں تھا جس میں بے ترتیبی اور بد انتظامی عروج پر ہوتی ہے۔۔۔۔ مگر بگ بینگ سے پیدا ہونے والی یہ کائنات کسی گرینڈ اور فول پروف سکیم جیسی ہے۔۔۔ جس میں ذرا سا بھی نقص نظر نہیں آتا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کائنات کی ہر ایک شے توازن کا بےمثال نمونہ ہے
کائنات میں کشش ثقل اور دیگر کارفرما قوتیں انتہائی بہترین توازن کے ساتھ موجود ہیں۔۔۔
آج یہ قوتیں جتنی مؤثر نظر آتی ہے اگر ان کے اثرات میں ذرا سی بھی کمی بيشی ہوجائے تو پوری کائنات ہی درہم برہم ہوجائے
مثلا کائناتی پھیلاؤ میں کارفرما قوت ڈارک انرجی ذرا سی کمزور پڑے تو کشش ثقل تمام مادے کو آپس میں بھینچ کر عظیم چرمُراھٹ (BIG CRUnch) سے دوچار کر دے گی
پھیلاؤ کی شرح میں محض ایک یا دو فیصد کمی کی بات نہیں ہورہی۔۔۔
اسٹیفن ہاکنگ لکھتے ہیں: “اگر بگ بینگ کے ایک سکینڈ بعد اگر پھیلاؤ کی شرح میں ایک لاکھ ملین ملین میں سے ایک حصہ بھی کمی واقع ہوتی تو کائنات واپس منہدم ہو چکی ہوتی” ۔۔۔
اسی طرح اگر کشش ثقل کمزور پڑے اور پھیلاؤ کی شرح محض ایک فیصد بڑھ جائے سارا کائناتی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کائنات زندگی کی تخلیق و ارتقاء کیلئے مناسب ترین ماحول فراہم کرتی ہے۔ ۔
اپنے سیارہ زمین پر زندگی کے وجود کی بات کریں تو جہاں زمین جیسے سیارے اور سورج سے مناسب فاصلے پر موجود ستارے کی ضرورت تھی وہیں اکسیجن، پانی اور دیگر عناصر میں ہائیڈروجن، کاربن، سوڈیم، نائٹروجن، کیلشیم اور فاسفورس کی بھی مناسب مقدار کی ضرورت تھی۔۔۔۔
دور دراز علاقوں میں ان عناصر اور پانی کی اربوں سالوں تک تیاری کے مراحل اور زمین پر منتقلی محض اتفاقیہ تھی؟
اور تو اور اگر زمین ،سورج اور چاند اپنے موجودہ ماس اور حجم میں کم یا زیادہ ہوتے تو بھی زندگی پر منفی اثرات پڑتے۔۔۔
زندگی دوست زمینی ماحول اور اس میں گیسوں کے تناسب کا یہ درست ترین انداز جسے بننے میں کروڑوں سال لگ گئے حادثاتی طور پر ہوا؟
ایک مذہبی تو اپنے خالق سے انہی درست اندازوں کی توقع کر سکتا ہے مگر ایک انکاری قابل ذکر اور مسلسل اتفاقات کی وضاحت سے قاصر ہے
ایک اگناسٹک ہونے کے باوجود ہاکنگ کہتا ہے
“اٹل حقیقت یہی ہے کہ زندگی کے وجود کو ممکن بنانے کیلئے قدروں کو بہت ہی باریک بینی کے ساتھ ایڈجسٹ کیا گیا ہے”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا زندگی کی اتنی شاندار اور عمدہ ترین ٹیوننگ کو کسی اتفاق یا حادثے سے منسوب کیا جا سکتا ہے؟
کسی قرعہ انداز ی میں کبھی اتفاقاً آپ کا انعام نکل سکتا ہے, کوئی ہاری ہوئی بازی بھی بعض اوقات آپ اتفاق سے جیت سکتے ہیں مگر
مگر اتفاقات کا ایک سلسلہ جاری نہیں ہوسکتا جس سے ہر بار ہی قرعہ انداز ی میں آپ کا نام نکلے یا ہر بار آپ ہاری ہوئی گیم جیت جائیں
اتنی چھوٹی باتوں پر جب اتفاقات در اتفاقات ہونا ممکن نہیں تو فقط ایک نقطے میں حادثاتی طور پر اتنی منظم اور فول پروف کائناتی سکیم کیسے اتفاقاً قائم ہوسکتی ہے۔۔۔ جس سکیم کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی نظر انداز نہ ہوا ہو۔۔۔۔ یہ تو احتمال کے قوانین کے سرا سر منافی ہے
ایک اتھیسٹ کرسٹوفر ہچنس گہرے ترین کائناتی مشاہدات کے بعد ششدر رہ گیا کہ کائناتی اشیاء جس انداز میں منظم ہیں اگر ان میں ایک ڈگری یا بال برابر بھی بگاڑ ہوتا تو سارا اسٹرکچر یوں stable ہی نہیں رہ سکتا تھا۔۔۔
پال ڈیوس کہتے ہیں۔۔۔ میرے لیے یہ کائنات اس بات کا طاقتور ثبوت ہے کہ اس کے بنانے اور چلانے میں کسی سپر طاقت کا ہاتھ ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈی این اے ای حیرتوں کا سمندر ہے:
صرف فلکیات ہی سائنس کا ایسا شعبہ نہیں جس میں کسی کی کمال ڈیزائننگ کے ثبوت دستیاب ہیں۔۔۔۔۔
پچھلی صدی کے دوران ایک مالیکیولر بیالوجیسٹ نے خورد بینی دنیا کے ایک انتہائی پیچیدہ ڈیزائن کی دریافت کی
ہمارے جسم (تقریباً سبھی جانداروں کے جسموں ) کے ہر خلیہ کے اندر ایک چھوٹا مالیکیول ہوتا ہے جسے DNA کہتے ہیں۔۔۔۔ اسکی پیچیدہ ترین ڈیزائننگ نے ماہرین کے تخیل کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔۔۔ڈی این اے کے محض ایک سرے میں اتنی معلومات ہوتی ہیں جنہیں اگر کتابی شکل میں ڈھالا جائے تو ہزاروں صفحات پر مشتمل ہزاروں کتابیں بن سکتی ہیں۔۔۔
یہ اپنے پیچیدہ سافٹ ویئر کوڈز کے ساتھ ایک زبان کی طرح کام کرتا ہے اسلئے DNA کو زندگی کی زبان بھی کہا جاتا ہے
مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس بھی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارا سب سے پیچیدہ اور جدید ترین سافٹ وئیر بھی DNA کے سامنے صدیوں پرانا ماڈل لگتا ہے۔۔۔
21 ویں صدی کے معروف اتھیسٹ انٹيونی فليو نے جب DNA کا مطالعہ کیا تو وہ اُسی وقت اپنے الحاد سے دست بردار ہوگیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...