سنا ہے کبھی سمندر بھی صحرا تھے ، اور صحرا میں بھی سیپیاں ہوتی ہیں ، اور پتہ ہے ہمالیہ کی چوٹیاں کبھی پانی میں ڈوبی تھیں اور پربتوں پر پستیوں کا راج تھا ، پھر وقت نے ایک زور کی انگرائ لی اور سب کی جگہ بدل دی ، کیا وقت کے ہاتھ میں کوئ ہنر نہیں ؟سواۓ چیزوں کو ادھر سے ادھر پلٹنے کے ، دنیا نہ ہوئ جانوروں کے سامنے پڑا ( کھرلی کا گتاوہ ) کھانا جسے نادیدہ ہاتھ پلٹے میں مصروفہے ، اگر ایسا ہے تو بہت خطرناک نہیں ،
جب صدیوں کے سر جھکا کر جی حضوری کرنے والے تخت نشین ہوں گے تو جھکے سر سے کیسے تخت سنبھالیں گے ، جب کھیڑےمحبت کریں گے تو رانجھے کیسے روک پائیں گے ، جب صدا کی باندیاں سر اٹھائیں گی تو کیسے حق چھینا جاتا ہے یہ کون سکھاۓ گا ،سیدھے رستوں پر چلنے والوں کو انجان پگڈنڈیوں سے الجھنا کیسے اۓ گا
زرا سوچو تو سہی جب ابلیس حق بندگی نبھاۓ گا تو اسے تو سجدہ کرنے کی خو پتہ ہے مگر فرشتوں کے ہمیشہ سے حکم بجا لانے والیفطرت کو سرکشی کیسے اۓ گی
ہم ہمیشہ سے دنیا میں جگہ بدلنے کے خواہاں ہیں ، مگر زرا بتاؤ ان بدلی جگہوں پر ہمیں رہنا کیسے اۓ گا ، جب باندی ملکہ بنے گی تواسے شاہ سے ناز کرنا کون سکھاۓ گا ، اور ملکہ کو سر جھکانا کیسے اۓ گا ،
صدیوں کے بنجاروں سے گھر کی قید کیسے جھیلی جاۓ گی ، گھر کی حدوں میں قید پرندوں کو اڑنا کیسے اۓ گا
دیکھو ! یہ اپنی جگہ بدلنے کا خواب تو بہت حسین ہے مگر جب یہ حقیقت بنے گا ، ہمارا اندر اسے کیسے جھیل پاۓ گا
جب عشق کرنے والے عشق سے انکاری ہوں گے ، جب وصل ہجر بن جاۓ گا ، پھر بن باس کون لے گا ، پھر جدائ کا راگکون گاۓ گا
جب کہنے والی زبانیں کان ہوئیں تو سننے کے عادی کانوں کو بات کہنے کا ڈھنگ کیسے اۓ گا
اور ہاں جب تمھیں میری سی محبت ہو جاۓ گی تو مجھ میں دامن جھٹکنے کا حوصلہ کہاں سے اۓ گا
یہ وقت بدلنے کی کہانی تو بہت الجھی ہے اسے پھر کون سلجھاۓ گا
کیا دائرے اتنے خاص ہوتے ہیں ، ان دائروں کے پرے کے آسمان کو زمین کون دے گا ، ان الجھی کہانیوں کو پھر کون اپناۓگا
“